نتالیا پارگارینا


ہمارے بچپن اور لڑکپن میں سوویت یونین کے خلاف مغربی پروپیگینڈا اتنا موثر تھا کہ زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں یہ نام سنتے ہی بڑی بڑی مہیب تصاویر ابھرنے لگتیں۔ ذہن کے پردۂ سیمیں پر آہن و فولاد کے بنے ہوئے قوی ہیکل پیکر پورے کرہ ارض کو نگلنے کے لئے چاروں اور بڑھتے نظر آتے۔ یہاں تک کہ زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور پوری قوت سے جاگزیں تھا کہ اس آہنی پردے کے پیچھے جسے سوویت یونین کہتے ہیں، کوی خلائی مخلوق رہتی ہے۔

یہ کوئی گوشت پوست کے بنے انسان نہیں بلکہ میکانکی اور مشینی لوگ ہیں جو ایک بٹن دبانے پر ملکوں کو ہڑپ کر لیتے اور انسانی آبادیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔ اس تصور کی آبیاری نہ صرف مغرب نے کی بلکہ اس کی نشوونما میں خود سوویت یونین کا بھی بڑا حصہ تھا۔ ایسے خوفناک تاثرات کے پھیلاؤ سے شاید سوویت یونین کے خیال میں عالمی سطح پر اس کی قوت، جبروت اور جاہ و جلال کا سکہ بیٹھتا تھا لیکن اس سارے قضیے میں اصل بھینٹ سچائی چڑھی۔

اس حوالے سے وطن عزیز میں دو طرح کے طبقات پیدا ہوئے۔ ایک وہ جو سوویت نظام سے دشمنی کی بدولت اس کا مطالعہ یا تحقیق یا بین الاقوامی نظام میں اس کے کردار کو خاطر میں لائے بغیر ہی اس کی مخالفت پر کمر بستہ تھا۔ اس میں شامل حضرات نے روسی نظام کو یونہی سمجھا جیسے وہ سمجھنا چاہتے تھے اور پھر اس تخیلاتی شبیہ کو نشانہ بنانے میں اپنی عمریں گزار دیں۔

یہاں ان کے رد عمل میں ایک اور طبقہ بھی معرض وجود میں آیا جو سوویت نظام کا سر گرم حامی تھا۔ مگر ان کی ساری سر گرمی بھی زبانی تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ طبقہ بھی اول الذکر طبقے کی طرح سوویت نظام کے بارے میں تحقیق و جستجو سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ یہ لوگ بھی روس کے بارے میں سہانے خوابوں اور سر سبز و شاداب تخیلات کی دنیا میں رہتے تھے۔ 60 اور70 کی دہائیوں میں ان طبقات کو ان کے نظریات کی بجائے ان کے حلیے ( گیٹ اپ) کے ذریعے زیادہ آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا۔ لیکن برصغیر اور بعد ازاں پاکستان میں سوویت یونین کے بارے میں علم و آگہی کو ان دو طبقوں تک محدود کرنا بڑی علمی و فکری زیادتی ہو گی

برصغیر میں ایسے خالص فکری و نظریاتی اشخاص اور جماعتیں اس وقت سے موجود تھیں جب روس میں یہ انقلاب برپا ہونا شروع ہوا۔ کمیونسٹ انقلاب کے پہلے داعیوں میں امیر حیدر خان ( المعروف دادا امیر حیدر) کا نام ( رحلت 1998 ) بہت مشہور ہوا۔ راولپنڈی سے کلر جانے والی سڑک پر موہڑہ نگیال نامی گاؤں کے اس غریب اور یتیم شخص نے پورے انگریز سامراج سے ٹکر لی۔ ملوں اور بحری جہازوں پر مزدوری کرتے کرتے یہ شخص 1928 میں ماسکو کی ”مشرق کے محنت کشوں کی یونیورسٹی“ میں داخل ہوا۔

برٹش انٹیلی جنس سرگرمی سے دادا میر حیدر کی تلاش میں تھی۔ ہندوستان واپسی پر انہیں 1928 سے 1936 تک جیل یاترا بھی کرنی پڑی۔ مگر جیل کو تو دادا میر حیدر اپنی سسرال سمجھتے تھے۔ جیل میں انہیں اپنی یادداشتیں لکھنے کا خوب موقع ملا۔ یہی نہیں انہوں نے ان جیلوں میں بہت سے قیدیوں کو نہ صرف ہم خیال بنا لیا بلکہ وہ ان کے عمر بھر کے ساتھی بھی بن گئے۔ دادا امیر حیدر کے اپنے نظریے سے غیر مشروط اور بے لوث وابستگی نے انہیں ایک اساطیری حیثیت دے دی ہے۔

دادا کا ذکر یوں آ نکلا کہ ماسکو میں میں نے دادا میر حیدر کے بارے میں جاننے کی بڑی سعی کی۔ وجہ یہ تھی کہ ان سے ایک تو ڈاکخانہ کچھ ملتا تھا اور دوسرا ان کا شمار بیسویں صدی کے اوائل کی ان ابتدائی بڑی شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے بے مثال ایثار و قربانی سے اپنے نظریے کی آ بیاری کی اور لیوٹالسٹائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے گاؤں میں موجود اپنی زمین گاؤں کے مڈل سکول کے لیے مختص کر دی۔

ان ابتدائی کمیونزم کے حامیوں میں مولانا عبید اللہ سندھی اور رئیس المتغزلین، مولانا حسرت موہانی جیسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ یاد رہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( CPI ) نے مطالبہ پاکستان کی حمایت کی تھی جبکہ زیادہ تر دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے کھل کر اس مطالبے کی مخالفت کی تھی۔ بات ہو رہی تھی دادا میر حیدر کی۔ انہوں نے جس محنت کشوں کے لئے قائم کی گئی یونیورسٹی (Tillers of the East ) میں تعلیم حاصل کی تھی اسے بعد ازاں بند کر دیا گیا ہے۔ تا حال اس کے پرانے ریکارڈ کا میں سراغ نہیں لگا سکا۔

فلسفۂ انقلاب پر اردو شاعری میں علامہ اقبال نے کھل کر اور جم کر بات کی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ جتنی صراحت اور وضاحت سے انہوں نے اس پر لکھا ہے اتنا شاید کسی اور شاعر نے نہیں لکھا۔ انہوں نے بھی نہیں جنہیں اس حوالے سے عالمی شہرت حاصل ہوئی۔

بائیں بازو والوں نے تو شاید صرف اس وجہ سے علامہ اقبال کو وہ اہمیت نہ دی کہ وہ مذہب پر نہ صرف کامل یقین رکھتے تھے بلکہ اس کی اصلاح شدہ شکل کو ہی نوع انسانی اور عالمی نظام کے تمام مسائل کا حل سمجھتے تھے جب کہ یہ حضرات مذہب سے انکار کو اپنی روشن خیالی اور مساوات انسانی کا جزو لا ینفک سمجھتے تھے۔ لیکن ظاہر ہے اس گروہ میں ہمارے وہ لوگ شامل نہ تھے جو مذہب پر نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی تھے لیکن مغربی سامراجی نظام کے متبادل کے طور پر کمیونزم کی حمایت بھی کرتے تھے۔

حسرت موہانی اور مولانا عبیدااللہ سندھی کا شمار ایسے ہی زعما میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اقبال کی شاعری اور فلسفے میں حرکی اور انقلابی پہلو جہاں ہمارے ہاں کے بائیں بازو کے حضرات کی نظروں سے پوشیدہ رہا یا اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا گیا وہاں سوویت دور میں علامہ اقبال کے حرکی اور انقلابی پہلو پر سیر حاصل کام کیا گیا

اس حوالے سے ایک اہم نام نتالیا پارگارینا کا ہے۔ اس حوالے سے محترمہ عالمی شہرت کی مالک ہیں۔ حکومت پاکستان نے اقبال کے حوالے سے ان کی علمی اور ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ستارۂ امتیاز اور نشان پاکستان کے اعزازات سے بھی نوازا ہے۔ محترمہ کا اقبال اور مشرقی خصوصاً اسلامی علوم و فنون کی ماہر جرمن مستشرق این میری شمل سے قریبی تعلق تھا۔ ان کی وفات کے بعد نتالیا پرگارینا اقبال اور مشرقی اسلامی علوم میں شاید سب سے بڑی بین الاقوامی شخصیت کی حیثیت رکھتی ہیں۔

کم از کم روس اور مغرب میں ان کے پائے کی کوئی شخصیت اس شعبے میں نظر نہیں آتی۔ اقبال کے علاوہ غالب اور مولانا روم پر ان کے کام کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ خوش قسمتی سے قیام ماسکو کے ابتدائی دنوں میں ہی محترمہ سے نیازمندی حاصل ہو گئی۔ باکمال مہربانی انہوں نے ”بیسویں صدی کے مشرقی ادب میں رومانیت ’، ۔ ‘ روس میں مطالعہ اقبال ’، ‘ اقبال کی تحریروں میں مسلم ثقافت کے تصور کا چیلنج ’‘ اقبال اور رومی کے فلسفے میں خواہش اور محبت کا تصور ’اور‘ غالب اور سرمد ’جیسے اپنے مقالات مجھے عنایت فرمائے۔

ان چند مقالات کے ناموں سے ہی ان کے تبحر علمی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ لیکن دوسرے روسی دانشوروں اور محققین کی طرح ان سے ملنے پر بھی قطعاً احساس نہیں ہوتا کہ آپ کس قدر بڑی علمی شخصیت کے روبرو ہیں۔ نہ آپ پر علمی رعب ڈالا جاتا ہے۔ نہ گفتگو میں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ادق اصطلاحات لائی جاتی ہیں۔ ہمارے علمی طبقے سے ذرا مختلف صورت حال ہے جہاں علمی تفاخر نے ایسے علمی انجماد کی شکل اختیار کر لی ہے کہ جو غلط خیال ذہن میں داخل ہو گیا اس سے ہٹنا نہیں کہ اس سے سبکی ہوتی ہے۔

بار بار بیان کی گئی باتیں جزو ایمان بن چکی ہیں اور علمی مبحث یا تو ہوتے نہیں اور اگر ہوں تو تلاش حقیقت کے لئے نہیں بلکہ اپنا نکتہ نظر اپنے مخالف پر ٹھونسنے کے لئے ہوتے ہیں چنانچہ زیادہ تر علمی دنگلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس میں فریق لنگوٹ کس کر داخل ہوتے ہیں اور مد مقابل کو چت کیے بغیر انہیں چین نہیں آتا چنانچہ ان علمی پہلوانوں نے اپنے اپنے پٹھے بھی پال رکھے ہیں جو مخالفین اور ان کے پٹھوں کے خوب لتے لیتے ہیں۔

ان متشدد علمی گروہوں ( جو کسی ایک بڑے پہلوان کے گرد بن جاتے ہیں ) نے ادبی تنظیموں اور انجمنوں کی شکل میں اپنے اپنے پہلوانوں کی مدح سرائی اور مخالف پہلوانوں کی ہرزہ سرائی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور یوں وہ علمی گرد و غبار اڑایا کہ بہت بڑے بڑے شاعر، ادیب، مفکر، فنکار اور تخلیق کار اس میں دب کر رہ گئے کیونکہ انہیں متحرک انجمنیں اور مضبوط پٹھے دستیاب نہ تھے۔ ان بڑی علمی و ادبی شخصیات میں مجید امجد، ظہیر کاشمیری اور سیف الدین سیف جیسے نابغۂ روزگار شاعر بھی تھے اور علی عباس جلالپوری اور غلام جیلانی برق جیسے فلاسفہ اور محققین بھی۔

لیکن بات ہو رہی تھی محترمہ ڈاکٹر نتالیا پارگارینا کی۔ میں نے جنوری 2012 کی ایک سرد دوپہر ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کی عمارت میں ان کے فلیٹ پر حاضری دی۔ یاد رہے کہ ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی‘ سات بہنوں ’والی عمارتوں میں سے ایک میں قائم ہے۔ بہت سے دانشور اور پروفیسر اس عمارت میں قیام پذیر ہیں۔ بعض کے خیال میں‘ سات بہنوں ’والی سٹالن کی تعمیر کردہ عمارتوں میں یہ سب سے خوبصورت عمارت ہے۔ اگر محل وقوع اور ( Landscape ) کو بھی مدنظر رکھا جائے تو بلاشبہ یہ سب سے خوبصورت عمارت ہے۔

اس کے سامنے دو خوبصورت مستطیلی تالاب ہیں جن کے دونوں اطراف پھولوں کے رنگ برنگے پشتے ہیں ہوا چلتی ہے تو ان کے عکس سطح آب پر رقص کناں ہو جاتے ہیں۔ لگتا ہے پانی میں آگ بھڑک رہی ہے۔ ان پشتوں کے ساتھ دو کشادہ سڑکیں ہیں جن کے ساتھ بلند و بالا درختوں کی قطاریں ہیں جو سامنے یونیورسٹی پوائنٹ تک یونہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلی جاتی ہیں اور اچانک آپ اس بلند کنارے پر پہنچ جاتے ہیں جس کے نیچے پھیلا ہوا بل کھاتا دریائے ماسکو ہے۔

تمام قومی تہواروں پر لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں۔ آتش بازی ہوتی ہے، چھوٹی چھوٹی کھانے پینے اور نوادرات کی دکانیں نمودار ہو جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں کے میلوں ٹھیلوں کا سا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ اور دوسرے ہی دن یوں لگتا ہے یہاں کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس عمارت کے ایک فلیٹ پر پہنچ کر میں نے گھنٹی بجائی تو ڈاکٹر نتالیا نے خود دروازہ کھولا۔ انہوں نے انتہائی خندہ پیشانی سے میرا اور میری سیکریٹری کا استقبال کیا۔ کوٹ، مفلر اور کیپ محترمہ نے ہم سے لے کر الماری میں نفاست سے ٹانک دیے۔

یہاں کی ثقافت اور طرز اخلاق میں میزبان کو یہ رسومات پوری کر کے واقعی خوشی ہوتی ہے۔ ہر فلیٹ یا گھر میں داخلے کے پہلے دروازے پر جوتے اتار دیے جاتے ہیں یا ان پر میزبان کی طرف سے عنایت کیے گئے پلاسٹک کے اسی مقصد کے لیے بنائے گئے شاپنگ بیگ چڑھا لیے جاتے ہیں۔ اس کے مد مقابل ساتھ ہی دوسرا دروازہ ہوتا ہے۔ آج کل سب فلیٹوں اور گھروں میں بھی دو دو دروازوں کا رواج ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر پہلے دروازے سے سردی کسی طرح چھپ چھپا کے داخل ہو بھی جائے تو دوسرے دروازے کی دہلیز ہر گز عبور نہ کر سکے۔ کیونکہ دونوں دروازوں کے جوڑے مکمل طور پر ہوا بند ہوتے ہیں۔

ہمارے داخل ہوتے ہی محترمہ نتالیا پار گارینا نے ہم پر بالکل پاکستانی انداز میں اشیائے خورد و نوش کی بوچھاڑ کر دی۔ انہوں نے بہ اصرار ہر میٹھی اور نمکین ڈش کھلائی اور ساتھ ساتھ گفتگو بھی جاری رہی۔ میں نے محترمہ سے ان کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت لے لی تھی جو انہوں نے بغیر کسی تردد اور کمال مہربانی سے عنایت فرما دی تھی۔ محترمہ سے اس یادگار ملاقات میں ہم پر فکر غالب، فکر اقبال، مولانا روم، مشرقی فلسفے اور اسلامی علوم و فنون کے بہت سے اسرار منکشف ہوئے جن پر کچھ عرض کرنے کا یہ موقع نہیں۔

مگر یہ بات میرے لیے انتہائی حیرت اور دلچسپی کی تھی کہ محترمہ کے پاس علامہ اقبال کے پی ایچ ڈی مقالے ”پرشیا میں مابعدالطبیعاتی فلسفے کا ارتقاء“ کے لندن سے چھپنے والے پہلے ایڈیشن کی ایک جلد موجود تھی۔ انہوں نے مجھے اس کی زیارت کرائی اور وعدہ کیا کہ کسی ایسے اچھے فوٹو سٹیٹ یا سکینر سے اس کی کاپی کرا کے مجھے عنایت کریں گی جو اس کی تحریر اور کاغذ کو متاثر نہ کرے۔ کیونکہ ایک صدی سے اوپر مدت گزرنے کی وجہ سے اب کاغذ بوسیدہ ہو چکا ہے۔

محترمہ نے خاص طور پر میری توجہ مقالے کے نام پر مبذول کرائی اور پھر اپنی مرحومہ قریبی دوست این میری شمل کی کتاب دکھائی جس میں ’پرشیا‘ کی جگہ لفظ ’ایران‘ لکھا تھا۔ یعنی ”ایران میں مابعدالطبیعاتی فلسفے کا ارتقاء“ اس سے مجھے یہ بتانا اور سمجھانا مقصود تھا کہ غلطی بڑے سے بڑے عالم اور مفکر سے بھی ہو سکتی ہے کہ یہ بشری تقاضا ہے اور یہ کہ تحقیق و جستجو کے سفر میں چیزوں کو بانظر غائر دیکھنا چاہیے اور کسی بھی چیز کو بغیر نقد و جرح کے قبول یا مسترد نہیں کرنا چاہیے۔

محترمہ غالب، اقبال اور رومی کی بہت معترف ہیں۔ غالب پر ان کی شہرہ آفاق کتاب ’مرزا غالب‘ اب کہیں دستیاب نہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اس کتاب کا نیا ایڈیشن جلد شائع ہو جائے کیونکہ اس کی اردو دنیا میں بہت مانگ ہے۔ یہ کتاب پہلے روسی اور پھر اردو اور انگریزی زبانوں میں شائع ہوئی اور ان تینوں زبانوں کے بولنے والوں میں اسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔

کتاب کے بارے میں محترمہ نتالیا پارگارینا نے بہت دلچسپ باتیں بتائیں مثلاً یہ کہ مرزا غالب پر ان کی کتاب انڈیا میں حیدر آباد دکن کے ایک صاحب اسامہ فاروقی نے جب پڑھی تو بذریعہ خط ان سے اس کتاب کے روسی میں ترجمے کی اجازت چاہی۔ محترمہ کا خیال ہے کہ اسامہ فاروقی صاحب کا روسی زبان کا تلفظ محترمہ سے بھی بہتر ہے۔ انہوں نے اس بات پر شدید حیرت کا اظہار کیا کہ موصوف کا کبھی بھی روس آنے کا اتفاق نہ ہوا اس کے باوصف روسی زبان پر انہیں اتنی قدرت حاصل ہے۔

مرزا غالب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی۔ اس کتاب میں غالب کے افکار کو گہرائی میں جانچا اور پرکھا گیا ہے۔ علمی تنقید کا انتہائی اعلی معیار اسے غالب پر لکھی گئی کتب میں ایک منفرد اور ارفع مقام پر فائز کرتا ہے۔ محترمہ نے انتہائی عرق ریزی سے غالب کے دعوؤں کو سماجی اور تاریخی حقائق، اقدار اور تصورات کی روشنی اور نفسیاتی و معاشرتی پس منظر میں پرکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کتاب کی ایک اور خاص بات غالب کو ان کی اردو، فارسی شاعری و نثر اور خطوط و شخصیت کے آئینے میں دیکھنے اور سمجھنے کی کاوش ہے۔

غالب کی ایک مکمل تصویر پیش کرنے کی شاید یہ پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔

ان کی گفتگو سے محسوس ہوا کہ وہ غالب کی بہت قائل ہیں۔ میرے ایک کم علمی پر مبنی سوال نما تبصرے پر محترمہ نے زور دے کر کہا کہ مرزا کے ہاں ایک مکمل اور منضبط فلسفہ موجود ہے اور سند کے طور پر این میری شمل کا یہ نکتۂ نظر پیش کیا کہ غالب دہلی صوفی سکول کے فلاسفر تھے۔ گو وہ عصری فلاسفہ سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھے۔

محترمہ کو غالب اور عظیم روسی شاعر پشکن میں بھی بہت مماثلت نظر آتی ہے۔ محترمہ نے بتایا کہ ایک مضمون نگار نے لکھا کہ پشکن کے نظریات تقریباً سارے کے سارے غالب کے خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ پشکن 1837 میں ایک مبازرت کے نتیجے میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ پشکن کا سن پیدائش 6 جون 1799ہے۔ یوں وہ غالب کے ہم عصر بھی ہیں۔ جب 1857 میں کریمیا کی جنگ جاری تھی، برصغیر میں انگریزوں سے چھٹکارا پانے کے لیے آزادی کی جنگ جسے انگریز ”سپاہیوں کی جنگ“ کہتے ہیں کا آغاز ہوا۔

محترمہ نے یہ دلچسپ بات بتائی کہ انگریز اس بغاوت کو روسیوں کی سازش سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں غالب 1857 کی جنگ آزادی کے حق میں نہیں تھے کیونکہ اس کا بنیادی نعرہ مغلیہ دور اور نظام جاگیرداری کی طرف مراجعت تھا جو غالب نہیں چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ بہت ترقی پسند تھے (محترمہ نے لفظ ’پروگریسو‘ کہا) محترمہ غالب کو ایک حیران کن شخصیت قرار دیتی ہیں اور انہیں شخصی آزادی اور آزاد روی کی علامت سمجھتی ہیں بقول ان کے وہ آزادی اقبال نے رومانویت اور فلسفۂ خودی میں دریافت کی۔

الٹا پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا۔

غالب پرانے کیلنڈر کے اجرا کے حق میں تھے اور جب سر سید احمد خان نے ”آئین اکبری“ لکھی، اسی وقت غالب نے پرانے کیلنڈر کے اجرا کے لیے ”تقریض اکبری“ لکھی۔

غالب اور اقبال کے تقابلی جائزے کے حوالے سے انہوں نے اس موضوع پر اپنی کتاب کو اسی سال (2013) میں ایڈیٹنگ کے بعد از سر نو شائع کرنے کا مصمم ارادہ ظاہر کیا۔

دوران گفتگو بات بار بار گھوم پھر کر این میری شمل اور اقبال پر آ جاتی تھی۔ محترمہ نے بتایا کہ اقبال کی ڈائری ’منتشر خیالات‘ (Stray Reflections) ہر وقت ان کی میز پر رہتی ہے اور وہ ’علم الاقتصاد‘ کی بھی بہت قائل ہیں۔

اقبال اور رومی کے تصور آرزو پر انہوں نے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ لندن کی ایک کانفرنس میں این میری شمل نے اپنے خطاب میں بتایا کہ یہ تصور اقبال نے مثنوی مولانا روم سے لیا ہے۔ تنالیا پارگارینا کو اتنا تجسس ہوا کہ انہوں نے مثنوی کا لفظ بالفظ مطالعہ کیا اور انہیں معلوم ہوا کہ تصور آرزو مثنوی میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ رومی کا تصور آرزو انہیں ’دیوان شمس‘ میں ملا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دو سال پہلے مثنوی مولانا روم کے چھ دفتروں کا ماسکو میں ایرانی ثقافتی مرکز نے فارسی سے روسی میں ترجمہ کرایا تھا۔ آج یہ کتب روسی عوام کی نذر کی جانی تھیں اور اس تقریب میں انہیں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ انہوں نے مجھے اپنی تحریر کردہ ایک کتاب بھی عنایت فرمائی۔ جس سے مجھے لگا کہ یہ اس ملاقات کے خاتمے کا انتہائی مہذب اور معقول اشارہ ہے مگر محترمہ نے بہ اصرار ہمیں بٹھایا اور کہا کہ تقریب کی شروعات سے ذرا پہلے وہ روانہ ہوں گی اور یوں ہمیں کچھ اور وقت ان کی معیت میں بیٹھنے اور ان کی دانش سے مستفید ہونے کا موقع مل گیا۔

محترمہ نے بتایا کہ این میری شمل نے اقبال پر بہت قیمتی اور سیر حاصل کام کیا ہے۔ وہ اپنے کام کو شمل کے اقبال پر کام کے عشر عشیر بھی نہیں سمجھتیں۔ مگر ان کے بقول اقبال سے ان کی محبت کا موازنہ شاید این میری شمل کی اقبال سے محبت سے کیا جا سکتا ہے محترمہ نے بتایا کہ شمل کے خیال میں اقبال کا کردار رومی کے افکار کو بیسویں صدی میں از سر نو زندہ کرنے میں سب سے اہم اور سب سے زیادہ ہے۔

اقبال پر مجنوں گور کھپوری اور علی سردار جعفری، اور کچھ دیگر ناقدین کی جانب سے نطشے کے زیر اثر طاقت پرستی کے الزام کے بارے میں محترمہ کا خیال ہے کہ نطشے کے بعد آنے والے شعراء میں شاید ہی کوئی ایسا بڑا شاعر ہو جس پر اس کا اثر نہ ہوا ہو۔ مگر یہ اثر بقول ان کے نطشے کی قوت پرستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے نئی رومانویت (Neo۔ Romanticism) کے نظریے کا مرہون منت ہے۔ محترمہ نے استعجاب کا اظہار کیا کہ ناقدین نے کلام اقبال میں ذکر شمشیر و سناں، شاہین و عقاب وغیرہ کو تو دیکھ لیا مگر ان کے بال جبریل میں مذکور اس خیال پر ان کی نظر نہ گئی کہ بچے کی آنکھ کے ایک آنسو کے مقابلے میں پوری دنیا کی فتح بھی ہیچ ہے جو دستوئفسکی کے الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے۔ ضرب کلیم کے بارے میں پرگارینا کا خیال ہے کہ خود بقول اقبال یہ مغربی تہذیب کے رد میں لکھی گئی جبکہ پیام مشرق گوئٹے کے پیغام مغرب کے جواب اور مشرقی و مغربی تہذیب کے مشترکات کی بازیافت کے لیے تحریر کی گئی۔

محترمہ نتالیا پارگارینا این میری شمل کی ایک کتاب کی از سر نو ایڈیٹنگ کر رہی ہیں جو انہیں امید ہے اسی سال چھپ جائے گی۔ اس میں غالب اور اقبال کے اسلوب پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

محترمہ کے خیال میں اقبال کے معترضین کے سیر حاصل جوابات دینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے ابھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments