عمران حکومت: جیسی کرنی ویسی بھرنی


دیکھا جائے تو عہدہ، مرتبہ، کرسی اقتدار خدا کی دی ہوئی نعمت اور ذمہ داری ہوتی ہے۔ سمجھا جائے تو یہ آسمان جتنا وزن ہوتا ہے اور اگر کوئی نہ سمجھے تو بس کرسی، پروٹوکول اور عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ 22 کروڑ عوام بے وقوف ہے اور کوئی احتساب کرنے والا نہی ہے تو وہ شخص احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ جو آپ کو اقتدار میں لائے، ووٹ دیں، آپ کے بازوں بنیں آپ طاقت میں آ کر اکڑ جائیں اور ان سے طاقت کے نشے میں بات کریں تو یہ آپ کی بھول ہے کہ آپ مختار کل ہیں۔ ایسے لوگوں کو انجام بھی بھیانک اور عبرتناک ہوتا ہے۔

آج کل عمران خان صاحب اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی اتنے گھبراہٹ کا شکار ہیں کہ بات کرنے کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ کبھی الفاظ کا غلط استعمال تو کبھی بات گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے۔ وزیراعظم کے منصب پر فائز عمران خان صاحب اپنے اقتدار کی کشتی ڈوبتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کے اپنے اتحادی تو چھوڑ رہے ہیں مگر خود پی ٹی آئی کے لوگ بھی اپوزیشن کی صفوں میں اپنی جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ مکافات عمل سے گزر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اسے اپنے ہمدردوں کی بددعائیں لگی ہیں۔

کوئی کہتا ہے کہ خان صاحب چار سال اقتدار میں رہنے کے باوجود کارکردگی صفر ہونے پر رخصت کیے جا رہے ہیں۔ کہیں سے آواز آ رہی ہے کہ اپوزیشن نے حکومت اور عمران خان کو رک کے چنے چبوانے کا پلان بنالیا ہے۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔ 2018 ع کے انتخابات میں آزاد امیدواروں اور اتحادی جماعتیں خاص طور پر ایم کیو ایم، ق لیگ، باپ نے تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں ساتھ دیا اور عمران خان کو ووٹ دے کر وزیر اعظم بنایا۔ 2018 ع کی الیکشن میں جو مذہبی، سیاسی قوتیں یا شخصیتوں نے عمران خان کے اوپر اعتماد کر کے ووٹ دیا سپورٹ کیا۔ الیکشن میں اس کے گیت گائے۔ خان صاحب نے جیسے ہی اقتدار سنبھالا، ٹھیک ایک سال بعد اپنے ہمدردوں، خیر خواہوں، دوستوں سے احسان کا بدلہ انتقام کی صورت میں لیا۔

جہانگیر ترین، علیم خان، حافظ محمد سعید اور مولانا سمیع الحق نے کھل کر نہ صرف عمران خان کی سیاسی طور پر حمایت کی بلکہ کھل کر وکالت بھی کی۔ شاید وہ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے اور مشرق و مغرب فتح کریں گے اور یوں امیر المومنین بن جائیں گے اور شاید وہ اس کے خلیفہ خاص ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمان 2010 / 2011 ع سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف تھے بلکہ مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔

ایک دوسرے کے خلاف جلسے بھی کیے گئے تھے۔ عمران خان جہاں بڑا جلسہ کرتا مولانا فضل الرحمان اسی جگہ پر اس سے بھی زیادہ جلسہ کر کے رکارڈ توڑتے۔ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی دن سے عمران خان کو بیرونی صیہونی (یہودی) ایجنٹ کا الزام لگاتے رہے۔ پاکستان میں مذہبی سوچ کے حامل افراد یا سیاسی ذہن رکھنے والے بہت پریشان تھے کہ کیا ماجرا ہے ایک طرف مولانا فضل الرحمان عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہیں تو دوسری جانب مولانا سمیع الحق، حافظ سعید اور طارق جمیل جیسے لوگ اس کی سپورٹ کرتے ہیں اور عمران خان کے بیانہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

عمران خان اقتدار میں آئے تو سپریم کورٹ نے گستاخانہ کیس میں آسیہ مسیح کو باعزت بری کر دیا اور باہر ملک جانے کی اجازت دے دی۔ عدالتی فیصلے کے تحت فوری طور پر وفاقی حکومت نے آسیہ مسیح کو باہر جانے کا بندوبست کر لیا۔ ملک میں عمران خان پر سخت تنقید ہوئی۔ جہاں قوم میں تحریک انصاف کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی وہیں پر عمران خان کے اتحادی مولانا سمیع الحق بھی برس پڑے۔ اسلام آباد میں ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے وزیراعظم کو کہا کہ ایسا کام نہ کریں اللہ کے عذاب سے ڈریں وہ نہ مانیں، آج میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ عمران اللہ پاک آپ کو ذلیل کر کے نکالے گا۔

تقریر کے کچھ دنوں بعد نومبر 2019 میں راولپنڈی میں اپنی رہائش گاہ پر چاقووں سے حملہ ہوتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ مولانا سمیع الحق کو قتل ہو گیا۔ امریکا بھارت کی مدد سے پاکستان کو بلیک میل کرتا رہا اور گرے لسٹ میں ڈال دیا۔ عمران خان امریکا کے اس وقت کے صدر ٹرمپ سے ملنے کے لئے امریکا جا رہے تھے۔ امریکا روانگی سے تین روز قبل سی ٹی ڈی پنجاب پولیس نے گوجرانوالہ جاتے ہیں جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو دہشت گردی کے الزام کے تحت گرفتار کر لیا اور جیل بھیج دیا۔

عمران خان کی حکومت نے اپنے اتحادی اور سب سے بڑے حامی حافظ سعید اور اس کی جماعت جماعت الدعوہ کو حکومتی سطح پر دہشتگرد ڈکلیئر قرار دے دیا۔ حالانکہ عمران خان، شیخ رشید اور دیگر پی ٹی آئی کے لوگ خود پاکستان دفاع کونسل، اور دیگر تحریکوں میں حافظ سعید کے ساتھ ساتھ رہے جلسے کیے تھے۔ تحریک انصاف حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ تحریک انصاف کی حکومت امریکا اور بھارت کا پریشر برداشت نہ کر سکی اور جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید سمیت قیادت کو جیلوں میں بند کر دیا۔ اسکولز، ہسپتال، مدارس مساجد کو اپنی سرکاری تحویل میں لے لیا۔ حافظ سعید سمیت قیادت کے خلاف جھوٹے من گھڑت دہشتگردی کے مقدمات بنائے گئے اور انسداد دہشت گردی عدالت کے ذریعے سزائیں دلوائی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان اس سے پہلے بھی جماعت الدعوہ کو کلیئر کر چکی ہیں۔ حافظ سعید پانچویں بار جیل میں قید ہیں۔ اس کی جماعت کے کسی افراد نے آج تک نہ کوئی دہشت گردی کی ہے اور ملک میں کوئی ایک گولی نہی چلائی تھی۔

کشمیری عوام کے ساتھ جرم پاکستان سے وفاداری اور خدمت خلق کے جرم میں عمران خان نے بیرونی قوتوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ملک کو بڑا نقصان پہنچایا۔ عمران خان کا اہم اتحادی جسے اے ٹی ایم کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے ”جہانگیر ترین“ دیوار سے لگایا، نا اہل کروایا۔ جہانگیر ترین اور علیم خان وہ بندے تھے جو آزاد امیدوار اور دیگر جماعتوں کے لوگوں کو جہاز میں لا لا کر عمران خان کے پاس لائے گئے اور حمایت حاصل کی گئی۔

جہانگیر ترین کی نا اہلی کے بعد وزیراعظم سے دوستی دشمنی میں تبدیل ہو گئی۔ جہانگیر ترین کبھی لنڈن دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور رہا۔ صحافی محسن بیگ کو تشدد کروا کر جیل بھجوایا۔ ایف آئی اے سے مقدمہ بنوایا۔ محسن بیگ بھی عمران خان کا اتنا ہی وفادار دوست تھا جتنا مولانا سمیع الحق، حافظ سعید، جہانگیر ترین وغیرہ۔ محسن بیگ پہلے عمران خان کی تقریریں لکھا کرتا تھا۔ میڈیا کو دیکھتا تھا اور سوشل میڈیا کی کیمپین چلاتا تھا۔ مگر انجام یہ ہوا کہ ایف آئی اے کے اہلکاروں سے گھر میں داخل ہو کر خاندان کے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جیل بھیج دیا۔ عمران خان نے اپنے بانی ممبر نعیم الحق کے جنازے میں شرکت تک نہ کی۔

عمران کی ماضی کو دیکھا جائے تو اپنی محسن وفادار بیوی جمائمہ کو طلاق دے کر میکے بھیج دیا۔ جمائمہ وہ عورت تھی جنہوں نے یہودی مذہب ترک کر کے اسلام قبول کیا اور عمران خان سے شادی رچا لی۔ طلاق کے بعد دو بیٹوں سمیت اپنے میکے رہ رہی ہیں۔ عمران خان نے ریحام خان سے شادی کر کے کچھ وقت بعد اسے بھی چھوڑ دیا۔ اور تیسری شادی خاتون مرشد پیرنی سے کردی۔ پہلے شوہر سے طلاق دلوا کر اپنی تیسری دلہن بنالی۔ عمران خان نے لوگوں سے ووٹ حاصل کر کے اقتدار میں آئے، عوام کو سبز باغ دکھائے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر دینے قرض اتارنے، آئی ایم ایف کے پاس قرضے کے لئے نہ جانے کے وعدے کیے مگر عوام کے وعدوں کے برعکس مہنگائی بیروزگاری کے چکی میں پیس ڈالا۔ عوام کو ریاست مدینہ کا خواب دکھا کر ملک و قوم کو کوفے اور تل ابیب کی بس میں لے چلے۔ عمران خان کا اقتدار آئی سی یو میں آخری سانس لے رہا ہے وہ یا تو عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں گھر جائیں گے یا مستعفی ہو جائیں گے یا فارن فنڈنگ کیس میں لنڈن یاترا چلے جائیں گے۔ عمران خان کے ساتھ مکافات عمل ہو رہا ہے۔ عوام کے ساتھ اس کے اپنے اتحادیوں، دوستوں نے بددعائیں دی ہیں۔ کسی کی دعا تو عرش تک پہنچ چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ عزت سے اقتدار چھوڑتے ہیں یا ذلیل و خوار ہو کر نکالے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).