کیوں نہ مریم ہوا کرے کوئی


وہ مسلسل اپنے وجود میں بپا طوفان سے نبردآزما تھی۔ کمرے کی کھڑکی کے باہر کا منظر: ہریالی، کھیت، چرند پرند نیز ہر چیز میں اس کو بجائے راحت کے ناگواری سی محسوس ہو رہی تھی۔ ابھی کچھ ہی دن ہوئے اس کی منگنی ہوئی تھی۔ شادی سے پہلے عروسی جوڑے کی رمک اور پیا گھر سدھارنے کی سند ملنے کا احساس اس کے گرد ایک الگ ہی دنیا کا حصار باندھے ہوئے تھا۔ ابھی وہ گدگدی ختم نہ ہوئی تھی کہ پیغام آ پہنچا کہ لڑکے والوں نے رشتہ توڑ دیا ہے۔

توڑ دیا مطلب؟ آخر کیوں؟ ایک لمحہ وہ سوچ کے سمندر میں غرق ہو چلی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک شائستہ طبیعت، با تہذیب اور سلیقہ شعار لڑکی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ قدر برجستہ، بے باک اور نڈر بھی۔ وہ سوچتی رہی کہ کیا برجستگی اور بہادری کوئی عیب ٹھہرا کہ جس نے اس کی دیگر تمام خوبیوں کو ماند کر دیا؟ یہ اس کی نڈر و بے باک طبیعت ہی کا ثمر تھا کہ ماں کے انتقال کے بعد جب باپ بھی بستر بیماری سے جا لگا تو اس نے نہ صرف اپنے بیمار والد کی تیمارداری کی بلکہ پورے گھر کی دیکھ بھال کے ساتھ اپنے کھیت کھلیان اور مال مویشی بھی خوب سنبھالے۔

اس کی تمام حیات چونکہ دیہاتی ماحول کے حصار میں گزری اس لئے زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی، باوجود اس کے شہر کے اعلٰی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل کئی حرف شناسوں سے زیادہ آگہی اور شعور کی حامل تھی۔

گاؤں کہ بڑے بوڑھوں کی مشیر اور کمزوروں کی داد رس۔ گاؤں کا اسکول ہو یا ڈسپنسری، تحصیل دار کا دفتر ہو یا پر خبط پٹواری سے معاملات، اس کی معاملہ فہمی ہر جگہ کارگر ثابت ہوتی تھی۔

پر آج اس کی سوچ، فہم و ادراک سے پرے عالم غرق کے شاخسانوں کا پرتو دکھائی دے رہی تھی۔ اسے خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ تذبذب کی جڑیں احساس کے پاتال میں کیسی خشت و خاک تلے دبی ہوئی ہیں جہاں اس کی اپنی قوت مدرکہ تک موقوف ہو چلی ہے۔ آج پہلی بار وہ با چشم نم اپنے رب کی بارگاہ میں لبوں پہ شکوہ سجائے بیٹھی تھی۔

”پروردگار! تیرے دین میں تو علم کو انسان کی تیسری آنکھ کہا گیا ہے، پھر کیسے ایک پڑھا لکھا انسان اتنا بے بصیرت ہو سکتا ہے؟“

وہ مسلسل اپنی ہمت جٹاتی رہی مگر مضطرب دل تھا کہ جس کو پل بھر کا سکون میسر نہ تھا۔

وہ سوچ کی وادیوں میں گم تھی کہ اچانک آواز آئی ”آپی چائے پی لو“ چھوٹی بہن کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی،

اس نے اپنا چہرہ اوپر بہن کی جانب کیا پر اس کی آنکھیں اب بھی سپاٹ کہاں دیکھ رہی تھیں اس کا اندازہ اس کی بہن تک کو نہ ہوا اور مجبوراً اسے پھر سے کہنا پڑا۔

”آپی! کہاں دھیان ہے تمہارا؟ میں کب سے کھڑی تم کو پکار رہی ہوں۔“
”کہاں دھیان ہو گا بھلا، یہیں ہوں تمہارے سامنے“ ۔ اس نے قدر متوجہ ہو کے اپنی بہن کو جواب دیا۔

تم نہیں بتاؤ گی تو کیا ہم کو معلوم نہ ہو پائے گا؟ اپنی آنکھیں دیکھی ہیں؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ خوب روئی ہو۔ چلو اب رونا دھونا بند کرو اور چائے نوش فرماؤ۔ گرما گرم کڑک چائے۔ ویسے بھی وہ گدھا مجھے پہلے دن سے ایک آنکھ نہی بھایا۔ پتا نہیں چچا رمضان کو اس میں کیا نظر آیا تھا؟ اور آپی اس سے زیادہ حیرت تو مجھے آپ پر ہے، پتا نہیں کیا سوچ کے تم نے اس رشتے کے لئے ہاں کردی؟ سچ کہوں تو تم بھی شکر مناؤ۔ سمجھ لو جان بچائی لاکھوں پائے۔ اس کی بہن نے چائے کا کپ چارپائی پہ رکھا اور مسلسل بولتی رہی۔

بابا نے کچھ کہا؟ اس نے بہن سے پوچھا
نہیں تو ۔ پھر بھی تم خود جاکر بات کرو گی تو شاید ان کو بھی اطمینان میسر ہو۔

پر یہ لٹکتا ہوا منہ لے کر ان کی طرف نہ جانا۔ ویسے اتنا تو میں بھی جانتی ہوں کہ تم اندر سے بہت مضبوط ہو پر یہ سمجھ نہیں پا رہی کہ آخر تم اس بات سے اتنی افسردہ کیسے ہو سکتی ہو؟ مطلب تم اور پریشان؟! سب جانتے ہیں کہ ہم سب کی ہمت کی قلعی تم ہو۔ اگر یہ قلعی کھل جائے تو ہم سب کا بودا پن سب پہ آشکار ہو جائے۔ اس کی بہن باتوں ہی باتوں میں اس کی ہمت جٹاتی رہی۔

اب وہ اپنے چہرے سے افسردگی کو رفو کرتے ہوئے مسکرائی اور مسکراتے ہوئے بہن کو تکتی رہی۔ اپنی بہن کا بے باک انداز دیکھ کر جیسے اس کے اندر زندگی لوٹ آئی ہو۔ وہ اندر ہی اندر خودکلامی کرنے لگی۔

”شکر خدا میری محنت رائیگاں نہیں گئی“ ۔

ایک لمحے کے لئے وہ ماضی کے دریچوں کو کھولتی ان سب حالات سے گزر آئی کہ کیسے اس نے اپنی چھوٹی بہن کی پرورش اور تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے کی تھی۔ اور اب وہ اسی کے وجود کا پرتو نظر آ رہی تھی۔

وہ چائے پی کر سیدھا اپنے والد کے پاس گئی۔
سلام بابا۔
وعلیکم السلام بیٹی۔ اس کے باپ نے قدر نحیف آواز میں جواب دیا
آؤ میرے قریب آ کر بیٹھو
اچھا وہ سامنے تکیہ اٹھا لاؤ اور مجھے سہارا دو ۔ اس کے والد نے تکیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
اس نے والد کو سہارا دیتے ہوئے تکیے کی ٹیک دے کر بٹھایا۔
اسکے والد نے کچھ توقف کے بعد اپنی بیٹی کو دیکھے بغیر کہا۔
وہ! صبح رمضان آیا تھا۔

جی ہاں میں جانتی ہوں بابا، اور یہ بھی کہ وہ کیوں آئے تھے۔ بابا آپ پریشان نہ ہوں۔ جو ہوا اچھے کے لئے ہی ہوا۔ اس نے اپنے والد کی بات کاٹتے ہوئے کہا،

میری جان، میری بچی میں جانتا ہوں تم میری بہت بہادر بیٹی ہو، پر با الآخر تو انسان ہو، اس لئے میں جانتا ہوں تمہارا اندر سے دکھی ہونا فطری ہے۔ بس ایک بات ذہن نشین کرلو کہ گزرا ہوا لمحہ محض ایک لمحہ تھا، نہ کے پوری زندگی۔ اس لمحے کی قیدی بن گئیں تو بھی جیسے تیسے زندگی تو گزار لو گی پر اس کو جی نہیں پاؤ گی۔ اور تم کہ جس نے سب کو زندگی جینا سکھایا ہے، کیسے ہو سکتا ہے اپنی زندگی کو گھسیٹتی پھرے؟

بابا میں نے کہا جو ، آپ پریشان نہ ہوں۔ میں زندگی کو نہیں گھسیٹوں گی۔ میں زندگی جیوں گی اور جی جان سے جیوں گی۔ اس نے اپنے والد کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔

رمضان کہہ رہا تھا ایک سی ایس پی افسر کا رشتہ تمہاری بیٹی کے لا ابالی پن کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ اس کو لگتا ہے کہ بیٹیوں کو ایک حد تک آزادی ہونی چاہیے۔ تمہارا شادی کے بعد بھی پہلے کی طرح رہنا اور شوہر کی شرائط تسلیم نہ کرنا ان کو قبول نہیں تھا۔ میں نے کہہ دیا میرا اپنی بیٹی پہ پورا یقین ہے اس نے کوئی نا مناسب بات نہیں کی ہوگی۔

ایک لحظہ کے لئے پورے کمرے میں خاموشی چھا گئی، ایسی خاموشی کہ جس میں سکوت سے زیادہ سکون کا عنصر حاوی تھا۔

تم کچھ کہنا چاہتی ہو بابا کی جان؟
والد کی بات کو سنی ان سنی کر کے وہ بستر پہ پڑے تکیے کو دیکھتی رہی۔

جو اندر میں ہے سب کہہ دو بابا کی جان۔ بات اندر دب جائے تو احساس کو کریدتی رہتی ہے جس سے انسان کا وجود مسلسل اضطراب میں رہتا ہے۔

لبوں پہ مسکراہٹ سجائے اس نے والد کو دیکھا اور کہا
بابا ایک بات پوچھوں؟
ایک نہیں دو پوچھو۔ اس کے والد نے مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا
بابا!
کیا کبھی کوئی اپنے بیٹوں کی تربیت بھی ایسی کرے گا جیسی آپ نے ہماری کی ہے؟

مطلب ایک سی ایس پی افسر کے لئے کیا یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ہاں فہم و فراست اور شعور کی ناپیدگی ہوگی؟

وہ مسلسل بولتی رہی اور اس کا والد اسے دیکھتا رہا

اتنا پڑھا لکھا ہونے کے بعد کوئی اتنا تنگ نظر کیسے ہو سکتا ہے؟ خاص طور پہ جب لوگوں کے حقوق کی حفاظت اس شخص کی پیشہ وارانہ ذمہ داری میں آتا ہو۔ کیا زیادہ لکھ پڑھ کر انسان ایسا ہو جاتا ہے؟ مطلب آخر وہ کیا حفاظت کرے گا کسی کے حقوق کی جو اپنے گھر کی عورتوں کے حقوق دینے کے لئے تیار نہیں؟

بیٹی اس میں اس کے پیشے اور تعلیم کا نہیں بلکہ تربیت کا قصور ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ ہمارے معاشرے کی پدرشاہی اقدار کا قصور ہے۔

پر بابا ہماری اقدار بھی تو ہماری مجموعی تربیت کا ہی عکس ہیں۔ تو پھر کیوں انسانی برابری کی قدر کو فروغ نہیں دیا جاتا اور اس کی پاسداری کے لئے اپنے بیٹوں کو پابند نہیں بنایا جاتا؟

مطلب حد ہے، معاشرہ، خاندان حتی کہ پوری دنیا کی عزت کو فقط بیٹیوں کے کندھوں پے رکھ کہ خود ہر احساس سے ذمہ داری بری الذمہ ہو جاؤ؟ کیا لڑکوں کے اوپر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں؟

بابا مجھے یہ دکھ نہیں کہ میرا رشتہ ٹوٹ گیا، پر یہ بات سوچ سوچ کے جی ہلکان ہوئے جا رہا ہے کہ، جب ایک سی ایس پی افسر فرسودہ پدرشاہی روایات سے خود کو باہر نہیں نکال پایا تو پھر کسی ان پڑھ گنوار سے کیا شکایت کی جا سکتی ہے؟

مطلب مجھے تو اپنے تعلیمی نظام پہ ہی اعتراض ہو چلا ہے اور اس سے زیادہ اس نظام پہ اعتراض ہے کہ جہاں ایسے لوگوں کو بندگان خدا کے حقوق کا محافظ بنایا جاتا ہے جو خود دوسروں کا حق صلب کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ خدا کی پناہ! ان کو منکوحہ پانے کی چندہ کوئی آرزو نہیں یہ تو اپنی زندگی میں بنا تنخوا کے ایک باندی چاہتے ہیں۔

اس کا والد تا دیر اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا، جب وہ خاموش ہوئی تو انتہائی شفقت سے یوں گویا ہوا

میری جان، میری بچی میری دعا ہے اللہ پاک اپنا لطف و کرم تم پہ بنائے رکھے۔ میں تمہاری ہر بات سے متفق ہوں۔ مجھے اب کوئی غم نہیں کہ تمہارا رشتہ نہیں ہوا۔ وہ بندہ چاہے افسر ہی کیوں نہ تھا پر کسی لحاظ سے تمہارا کف نہیں تھا۔ اور بنا کف کے شادی شادی نہیں بلکہ ظلم ہوتا ہے۔ یہی قانون الٰہی ہے جس کو رب نے مریم کے ذریعے دنیا پہ آشکار کیا تھا کہ اگر دنیا میں کسی کا کف نہ ہو تو بھی اللہ اس کو اپنی نعمتوں کی فراوانی بند نہیں کرتا۔ پرا یک بات جان لو کہ مریم ہر کوئی نہیں بن سکتا۔ مریم بننے کے لئے تہمتیں اور رسوائیاں برداشت کرنے کا حوصلہ چاہیے۔

بابا آپ بے فکر ہوجائیں آپ کی بیٹی تہمتوں کو اپنے گلے کا طوق نہیں بننے دے گی۔ یہ کہہ کر وہ گھر کے کاموں میں اس طرح جٹ گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments