کیا آپ نے خدا کو خدا حافظ کہہ دیا ہے؟


مجھے آج ایک ایسے دہریہ نوجوان کا خط موصول ہوا جو خدا کو خدا حافظ کہہ چکا ہے لیکن اپنے سچ کو چوروں کی طرح چھپائے چھپائے پھرتا ہے۔ مجھے اس کے خط سے آج سے بیس برس پیشتر کا واقعہ یاد آ گیا۔

ایک شام مجھے ایک اجنبی کو فون آیا۔ کہنے لگے میرا نام محمد زمان ہے۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ میری پیدائش جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی لیکن اب کینیڈا میں رہتا ہوں۔ میں نے پچھلے ہفتے آپ کی کتاب
FROM ISLAM TO SECULAR HUMANISM
پڑھی ہے اور آپ سے ملاقات کرنے کا خواہش مند ہوں۔

میں نے ڈاکٹر زمان کو لنچ پر بلایا۔ وہ مجھ سے بڑے تپاک سے ملے اور کہنے لگے میں آپ سے اپنا مسئلہ شیر کرنا چاہتا ہوں۔

فرمائیے میں ہمہ تن گوش ہوں

کہنے لگے میں تو ایک انسان دوست دہریہ ہوں لیکن میری بیوی جس کا تعلق کراچی سے ہے وہ بہت مذہبی ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ میں نے خدا کو خدا حافظ کہہ رکھا ہے۔ ہمارا ایک بیٹا جنید ہے جو اب چودہ برس کا ہے۔ میری بیگم شمیم آرا بیٹے کو نماز بھی پڑھاتی ہے اور قرآن بھی۔ میں اس کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے خاموش رہتا ہوں۔ اب رمضان آنے والا ہے۔ پچھلے سال میں نے روزے نہیں رکھے تھے۔ اس سال بیگم کہتی ہیں کہ اگر آپ روزے نہیں رکھیں گے تو میں اپنے بیٹے سے کیسے کہہ سکتی ہوں کہ تم بھی روزے رکھو۔ آپ بطور باپ کے ایک اچھے رول ماڈل نہیں ہیں۔

اب میں سوچتا ہوں کہ روزے رکھ کر منافق بنوں
یا
روزے نہ رکھ کر بیگم کو ناراض کروں
آپ کا کیا مشورہ ہے؟

میں نے پوچھا کہ اگر آپ نے بیگم کو بتا دیا کہ آپ دہریہ ہیں تو کیا ہو گا۔

کہنے لگے وہ مجھے طلاق دے دے گی۔ اس کی ایک مسلمان سہیلی کا شوہر جو اس کی محبت میں ہندو سے مسلمان ہو گیا تھا اب وہ دوبارہ ہندو ہو گیا ہے اس نے میری بیوی سے مشورہ کیا تو میری بیوی نے کہا کہ تم اپنے شوہر کے ساتھ سونے سے انکار کر دو۔ شوہر وجہ پوچھے تو کہہ دینا میں غیر مسلم کے ساتھ نہیں سو سکتی۔

مجھے پچھلے چند سالوں میں بہت سے نوجوان مردوں اور عورتوں کے خطوط موصول ہوئے جو مذہب اور خدا کو خدا حافظ کہہ چکے ہیں لیکن وہ اپنے سچ کو اپنے دل میں چھپائے رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک منافق زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان کے حالات پچھلے چند سالوں میں اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اب تو انہیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر انہوں نے اپنے سچ کا راز افشا کر دیا تو کہیں کوئی رقیب رو سیاہ ان پر بلاسفیمی کا کیس نہ بنا دے اور انہیں جان کے لالے پڑ جائیں۔

ایسے نوجوان جب مجھ سے میری زندگی کے بارے میں پوچھتے ہیں تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ میرے سب قریبی دوست اور رشتہ دار جانتے ہیں کہ میں کسی مذہب یا کسی خدا پر ایمان نہیں رکھتا لیکن انسان دوست ہونے کے ناتے سب انسانوں اور ان کے نظریات اور عقائد کا احترام کرتا ہوں۔ میرے دوستوں کے حلقے اور میری فیمیلی آف دی ہارٹ میں

شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی
ہندو بھی ہیں اور سکھ بھی
عیسائی بھی ہیں اور یہودی بھی
کمیونسٹ بھی ہیں اور انارکسٹ بھی
فری تھنکر بھی ہیں اور ہیومنسٹ بھی
کینیڈا میں ہم سب ایک دوسرے سے عزت اور پیار سے ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔

ایک دفعہ جب میری بہن عنبرین کوثر کینیڈا تشریف لائی تھیں تو رمضان کا مہینہ تھا اور میں ان کے لیے ٹورانٹو جا کر مدینہ کی خاص کھجوریں لایا تھا تا کہ وہ ان کھجوروں سے روزہ افطار کر سکیں۔

میں نے ان کے روزہ رکھنے کا اور انہوں نے میرے روزہ نہ رکھنے کا احترام کیا اور ہم نے بڑی چاہت، اپنائیت اور محبت سے چند یادگار دن اکٹھے گزارے۔

میں سمجھتا ہوں کہ انسانی تاریخ کے جتنے بھی انسان دوست مذاہب اور نظریات تھے ان سب نے اپنے پیروکاروں کو دوسرے مذاہب اور نظریات کے لوگوں کا احترام سکھانے کی کوشش کی۔

انسان دوستی کا فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں دوسرے انسانوں کے جذبات خیالات اور نظریات کا اس لیے احترام کرنا چاہیے تا کہ وہ ہمارے جذبات خیالات اور نظریات کا احترام کریں۔

میری نگاہ میں کسی بھی انسان کا عقیدہ اور نظریہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ ہمیں کسی بھی انسان پر اپنا عقیدہ نہیں تھوپنا اور ٹھونسنا چاہیے۔ ہمیں مختلف مذاہب اور نظریات کے لوگوں سے ایک دوستانہ مکالمہ کرنا چاہیے تا کہ ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکیں۔

ایک وہ زمانہ تھا جب انسان سمجھتے تھے کہ دنیا میں صرف ایک ہی سچ ہے اور وہ سچ ازلی و ابدی و حتمی سچ ہے۔ انسانی شعور کے ارتقا نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان اور اپنے ضمیر کی پیروی کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

میری نگاہ میں میری اپنی بہن سے محبت اور مختلف نظریات کے انسانوں سے دوستی عقائد سے زیادہ اہم ہے۔
دھیرے دھیرے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ
ہم سب انسان ہیں
ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں
ہم سب ایک دوسرے کے دور کے رشتہ دار ہیں اور
ہم سب چاہتے ہیں کہ کرہ ارض پر سکون کی زندگی گزاریں۔

میری زندگی کا فلسفہ یہ ہے کہ چاہے کوئی انسان کسی بھی مذہب یا خدا کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو ہمیں اس کا انسان ہونے کے ناتے احترام کرنا چاہیے کیونکہ انسانی رشتہ سب رشتوں سے زیادہ محترم ’معزز اور مقدس ہے۔

کیا آپ میرے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں؟
(نوٹ۔ اگر آپ میری کتاب
FROM ISLAM TO SECULAR HUMANISM
کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو وہ ای میل سے ایک تحفے کے طور پر بھیج سکتا ہوں۔ میرا ای میل کا ایڈریس ہے

welcome@drsohail.com
………………………………………………..

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail