اسٹیبلشمنٹ اور سیاست کا سپر اوور


اسلامی ممالک کے باہمی تعاون کے لئے قائم کی گئی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کا اسلام آباد میں منعقد ہونے والا 48 واں اجلاس اختتام پذیر ہو گیا۔ او آئی سی 1.2 ارب سے زائد مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے، اس تنظیم کے اعلامیے پڑھیں تو گمان ہوتا ہے کہ سارے جہاں کر درد مسلم امہ کے جگر میں ہے لیکن دنیا میں کہیں بھی مسلمان کسی سانحہ کا شکار ہو جائیں تو اس خوابیدہ تنظیم کا حال جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں جیسا محسوس آتا ہے۔

ستاون مسلم ممالک کی اس تنظیم کو اگر ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اجلاس کے اختتامی اعلامیہ میں ایک بار پھر تمام مسلم ممالک نے ”باہمی یکجہتی و یگانگت“ کے ساتھ شدید ”غم و غصے“ کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین و کشمیر میں اسرائیل اور بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیوں کی شدید مذمت کی جبکہ دوسری جانب مسلم امہ کے جاہ پرست حکمران بھارت اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی راہ و رسم بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہی دہرا رویہ مسلمانوں کے ابتذال کا سبب ہے۔ اس کانفرنس کی وجہ سے پاکستانی سیاست کا جو بھونچال دو دنوں کے لئے تھما تھا وہ آج سے دوبارہ اس کے رنگ ڈھنگ نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

اپوزیشن کی عدم اعتماد تحریک کا اختتامی مرحلہ شروع ہونے کو ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس پچیس مارچ کو طلب کیا جا چکا ہے۔ اپوزیشن نے حکومتی اراکین کو اپنی دسترس میں دکھا کر کامیابی کا دعویٰ کیا ہے تو دوسری جانب حکومت نے سپریم کورٹ میں منحرف اراکین کی نا اہلی سے متعلق آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا صدارتی ریفرنس دائر کر کے کی سماعتیں بھی تیزی سے جاری ہیں۔ عدم اعتماد تحریک کا حتمی نتیجہ کیا ہو گا یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپنی اپنی کامیابی کے لئے پر امید ہے۔ ایسے میں مجھ جیسے عوام کے ذہنوں میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے۔

پاکستانی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت اب کوئی راز نہیں۔ حالیہ تقریب میں آرمی چیف کا یہ جملہ میڈیا کی زینت بنا کہ فوج مداخلت کرے تب بھی گالیاں پڑتی ہیں اور مداخلت نہ کرے تب بھی گالیاں پڑتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے جو کچھ ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا جاتا تھا وہ اب کھلے عام کہا جاتا ہے۔ تھڑے پر بیٹھنے والے ہوں یا عالی شان ڈرائنگ رومز کا ایلیٹ طبقہ ہو، سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس حکومت کو اسٹیبلشمنٹ لائی ہے۔ اس حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اسے کٹھ پتلی کا لقب دیا گیا اور ببانگ دہل یہ جملہ تواتر سے سنائی دیتا تھا کہ ’فوج عمران خان کو لائی ہے‘ ۔ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، ایسے میں اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوتے ہی ذہنوں میں اٹھتا یہ سوال فطری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرف ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اور اس حکومت کا رومانس ڈھکا چھپا نہیں۔ سیم پیج کی قربتوں کے طفیل میڈیا سے ’مثبت رپورٹنگ‘ کروانا ہو یا سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام کروانا ہو، ایسے تمام واقعات میں انگلیاں اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ ہاتھ کی طرف اٹھائی گئیں۔ اپوزیشن کو حکومت کے خلاف سب سے بڑی کامیابی گزشتہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں ملی جب یوسف رضا گیلانی نے غیرمتوقع طور پر وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو ہرایا تھا۔

سینیٹ الیکشن کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ اپوزیشن کے چہرے پر مسکراہٹیں بڑھتی گئیں جبکہ حکومت کے ماتھے پر تیوریاں نظر آنا شروع ہو گئیں حتی کہ اپوزیشن اتنی توانا ہو گئی کہ انہوں نے حکومتی اراکین اپنے ساتھ ملا کر تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ اسٹیبلشمنٹ ’نیوٹرل ہونے کی دعویدار ہے لیکن حالات اس نہج پر کیوں پہنچے یہ سبھی جانتے ہیں اور اسی لئے حکومتی اتحادیوں کو بھی ”اچانک“ حکومت میں خرابیاں نظر آنا شروع ہو گئیں اور ان کی قربتیں اپوزیشن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ تادم تحریر اتحادیوں نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا مگر ان حالات میں بھلے کوئی کتنا بھی نیوٹرل بننے کی کوشش کرے لیکن یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ آخر کیا چاہ رہی ہے۔

سابق کرکٹر اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کی سیاست میں آمد کے بعد سیاست میں کرکٹ ٹرمز کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ موجودہ صورتحال کا عمران خان کے انداز میں تجزیہ کریں تو پچیس مارچ سے قومی اسمبلی اجلاس دراصل حکومت اور اپوزیشن کے مقابلے کا سپر اوور ہے۔ وزیراعظم عمران خان بیٹنگ کے لئے کریز پر موجود ہیں اور اپوزیشن باؤلنگ کے لئے تیار ہے۔ پچ باؤلرز کے لئے سازگار محسوس ہو رہی ہے اور امپائر ’نیوٹرل‘ ہے لیکن امپائر کے جذبات باؤلرز کی طرف لگ رہے ہیں۔ اپوزیشن کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن کر رہے ہیں۔ عمران خان اپنی تقاریر میں تمام اپوزیشن قائدین پر رکیک جملے کستے رہے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں ان کا انداز گفتگو دوسرے قائدین کی نسبت کچھ زیادہ تضحیک آمیز ہوتا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کو ’سرپرائز‘ دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کی باؤلنگ کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے وزیراعظم عمران خان کو سپر اوور کی ہر بال بہت دھیان سے کھیلنی پڑے گی، حکومتی ٹیم کی آخری جوڑی بیٹنگ کر رہی ہے اور ذرا سی لغزش یا آنکھ اوجھل ہوئی تو مولانا کی ’ان سوئنگ یارکر‘ ان کی وکٹیں اڑا کر یا مولانا کا باؤنسر انھیں ہٹ وکٹ کر کے انھیں کھیل سے باہر کر سکتی ہے۔ اپوزیشن جارحانہ باؤلنگ کروانے کے موڈ میں ہے اور موسم بھی باؤلرز کے لئے سازگار لگ رہا ہے۔ کھیل میں اس وقت اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہے لیکن سب کی نگاہیں اس وقت امپائر کی جانب ہیں۔ اگر امپائر  نے اپوزیشن کی ”سرپرائز بال“ کو ’نو بال‘ کہہ دیا تو کھیل کا پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments