بھارت کی خواتین ہدایت کار



اگر آپ پاکستان اور بھارت میں خواتین فلم ہدایت کاروں کی فہرست بنائیں تو اس کا زیادہ طویل ہونا ممکن نہیں۔ کلپنا لاجمی کی موت کے بعد یہ فہرست

اور بھی مختصر ہو گئی۔ کلپنا لاجمی جو 2018 میں صرف 64 سال کی عمر میں گزر گئیں بھارت کی فیمینسٹ فلم سازی کا ایک بڑا نام تھیں۔ گو کہ انہوں نے صرف بیس سال سرگرمی سے کام کرنے کے بعد 2006 میں ہدایت کاری چھوڑ دی کیوں کہ ان کے شوہر بھوپن ہزاریکا جو آسامی زبان کے بڑے شاعر، گلوکار اور موسیقار بھی تھے شدید بیمار ہو گئے۔

اس وقت بھارت کی خواتین ہدایت کاروں میں غالباً سب سے سینئر سائی پرانج پے ہیں جو 1938 کو بمبئی میں پیدا ہوئیں۔ سائی کے والد روسی اور والدہ مراٹھی اداکارہ، سماجی کارکن اور مصنف تھیں۔ سائی پرانج پے نے پہلے دستاویزی فلمیں بنائیں اور پھر 1980 میں اپنی پہلی فیچر فلم اسپرش پر داد وصول کی۔ اسپرش ایک نابینا شخص کی کہانی ہے جس کا کردار نصیر الدین شاہ نے ادا کیا۔ اس فلم کو بہترین ہدایت کاری اور ڈائلاگ کے فلم فیئر ایوارڈ ملے تھے۔

پھر سائی نے 1983 میں فلم کتھا بنائی جو کچھوے اور خرگوش کی لوک کہانی پر مبنی تھی۔ 1990 میں فلم دشا بنائی جو دیہی علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے کارکنوں پر تھی۔ اس فلم نے انہیں بھارت کے صف اول کے ہدایت کاروں میں لا کھڑا کیا۔

Kalpana Lajmi

جس وقت سائی دستاویزی فلموں کی ہدایت کار اور فلم ساز کے طور اپنا مقام بنا رہی تھیں اسی دوران میں اپرنا سین بنگالی فلموں کی بڑی اداکارہ کے طور پر سامنے آ رہی تھیں۔ اپرنا سین نے صرف پندرہ سال کی عمر میں بڑے ہدایت کاروں کی فلموں میں کام شروع کیا جن میں ستیہ جیت رے کی 1961 میں بننے والی فلم تین کنیا اور آران ہر دن راتری یعنی جنگل کے دن اور راتیں شامل ہیں جو 1971 میں بنی۔

ان کے علاوہ جیمز آئی وری کی گرو اور بمبئی ٹاکیز 1970 میں سامنے آئیں جنہوں نے اپرنا سین کو ایک بڑی باصلاحیت اداکارہ کے طور پر مستحکم کیا۔

پھر وہ ہدایت کاری کی طرف آئیں اور 1980 میں اس پینتیس سالہ اداکارہ نے فلم چھتیس چورنگی لین کی ہدایات دیں۔ اس کا سہرا بحیثیت فلم ساز کے ششی کپور کو جاتا ہے کہ انہوں نے خود ایک ہدایت کار اور اداکار خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنی اس فلم کی ہدایت کاری اپرنا سین کو سونپی جو انہوں نے خوب نبھائی۔ اس فلم میں ششی کپور کی اہلیہ جینیفر کینڈل نے ایک مرکزی کردار نبھایا تھا۔ جینیفر اپنے شوہر ششی سے چار سال بڑی تھیں اور 36 چورنگی لین میں شاندار اداکاری کرنے کے صرف 4 سال بعد 1984 میں پچاس برس کی عمر میں سرطان کے مرض سے وفات پا گئیں۔ اپرنا سین کو اس فلم کی ہدایت کاری پر بھارت کا نیشنل فلم ایوارڈ ملا تھا۔

ان کے بعد دیپا مہتا کا نام آتا ہے جو 1950 میں امرتسر میں پیدا ہوئیں لیکن اب کینیڈا میں رہتی ہیں۔ ان کی زیادہ تر فلمیں بھارتی۔ کینڈین فلموں کے زمرے میں آتی ہیں۔ دیپا مہتا کی فلمیں بھارتی تاریخ و ادب کے ساتھ ان بھارتی مہاجرین کا ناتا جوڑتی ہیں جو اب کینیڈا میں رہتے ہیں۔

ان کی بہترین فلموں میں عناصر کی فلمیں شامل ہیں۔ یہ تین فلموں کا ایک سلسلہ ہے جو بھارت کے سماج میں کچھ متنازع معاملات کو اجاگر کرتا ہے۔

Mira Nair

پہلی فلم فائر، آگ جو 1996 میں بنی طے شدہ شادیوں کے مسلے پر ہے جس میں ہم جنس پرستی اور بھارت کے پدرسری سماج کی جھلکیاں بھی موجودہ ہیں۔ دیپا مہتا کی اگلی فلم ارتھ، زمین 1998 میں آئی اور اس میں آزادی کے وقت بٹوارے اور مذہبی منافرت اور فسادات کو دکھایا گیا ہے جو ایک پارسی بچی کی نظر سے دکھائے گئے ہیں۔ یہ فلم بیپسی سدھوا کے ناول آئس کینڈی مین پر مبنی ہے۔

اس سلسلے کی آخری فلم واٹر، پانی تھی جو 2002 میں بنی اور اسے ہی سب سے زیادہ پذیرائی ملی۔ اس میں خود کشی کے رجحان، عورت دشمن رویے اور بھارت میں بیواؤں کے ساتھ ناروا سلوک دکھائے گئے ہیں۔

دیپا مہتا کے بعد اگلا بڑا نام ہے میرا نائر کا جو 1957 میں اڑیسہ، جو اب اوڈیشا ہے، میں پیدا ہوئیں۔ ہارورڈ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل اور اب امریکا میں رہتی ہیں۔ جس طرح دیپا مہتا بھارتی۔ کینڈین ہیں اسی طرح میرا نائر کو بھارتی۔ امریکی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ان کی پہلی ہی فلم سلام ممبئی جو 1988 میں پیش کی گئی بڑی کامیاب ہوئی۔ اس میں بمبئی جھونپڑ پٹی میں رہنے والے بچوں کی زندگی دکھائی گئی ہے۔ اس فلم نے کئی بین الاقوامی انعامات حاصل کیے۔

نائر نے دیگر خواتین مصنفین اور فلم سازوں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ جن میں سونی تارا پور والا بھی شامل ہیں۔ سونی بھی ایک دلچسپ شخصیت کی مالک ہیں یہ میرا نائر کی ہم عمر ہیں اور سکرین رائٹرز کے علاوہ فوٹو گرافر اور فلمساز کے طور پر بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے میرا نائر کی فلموں سلام بمبئی کے علاوہ می سی سیپی مسالہ 1991 اور دی نیم سیک 2006 کے لیے بھی کہانی، مکالمے اور اسکرین پلے لکھے۔

لیکن غالباً میرا نائر کی سب سے اچھی فلم مون سون ویڈنگ ہے جو 2001 میں آئی۔ اس میں بھارتی شادیوں میں ہونے والے ہلے گلے کے ساتھ بچوں کے ساتھ بدسلوکی جیسے موضوع کو دکھایا گیا ہے۔

اور اب آخر میں ہم آتے ہیں کلپنا لاجمی کی طرف جن سے ہم نے آغاز کیا تھا۔ کلپنا لاجمی غالباً صف اول کی ہدایت کار تو نہیں تھیں لیکن ان کی چند ایک فلمیں بہت اچھی ہیں مثلاً 1986 میں بننے والی فلم ایک پل اور 1993 میں آنے والی رودالی ان کے علاوہ 1997 کی فلم درمیان ان موضوعات پر ہیں جن کے بارے میں عام طور پر بات نہیں کی جاتی اور نہ ہی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ کلپنا کا تعلق ایک خاصے باصلاحیت خاندان سے تھا۔ ان کی والدہ للیتا لاجمی ایک آرٹسٹ تھیں اور ان کی پینٹنگ بھی خاصی اچھی ہوتی تھیں۔

کلپنا لاجمی کے ماموں گرودت تھے جو خود ایک بڑے اداکار اور ہدایت کار تھے۔ مشہور ہدایت کار شیام بینگل بھی ان کے کزن تھے۔ شیام بینگل نے ہی کلپنا کو سب سے پہلی اپنی فلم بھومیکا کے لیے 1977 میں نائب ہدایت کار کے طور پر کام کرنے کا موقع دیا اس وقت کلپنا صرف بائیس سال کی تھیں۔

اس کے بعد کلپنا نے دستاویزی فلمیں بنانا شروع کیں اور 1983 میں ایک بار پھر شیام بینگل کے ساتھ نائب ہدایت کار کے طور پر فلم منڈی کے لیے کام کیا۔ پھر کلپنا لاجمی نے ہدایت کار، فلم ساز اور اسکرین رائٹر کے طور پر خود کو منوایا۔ ان کی زیادہ تر فلمیں حقیقت پسندی پر مبنی اور خاصے کم بجٹ کی ہوتی تھیں اور ان کے موضوعات خواتین کے مسائل کے گرد گھومتے تھے۔

کلپنا کی کہانی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ان کے ساتھی بھوپن ہزاریکا کے بارے میں بات نہ کی جائے۔ ان سے تقریباً تیس سال بڑے تھے اور خود بڑی دل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ کولمبیا یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے ہزاریکا کئی زبانوں کے ماہر تھے اور آسامی کے علاوہ بنگالی، ہندی اور انگریزی میں بھی لکھتے تھے۔ وہ گلوکار، مصنف، نغمہ نگار اور موسیقار بھی تھے۔ کلپنا کی پہلی فیچر فلم ایک پل میں بھوبن ہزاریکا نے موسیقی دی اس وقت ہزاریکا ساٹھ برس کے اور کلپنا تیس سال سے کچھ اوپر تھیں۔

ایک پل 1986 میں ریلیز ہوئی اور اس نے دونوں کو خاصا مشہور کر دیا۔ اس فلم میں شبانہ اعظمی، نصیرالدین شاہ اور فاروق شیخ تھے۔ ایک پل کے ڈائیلاگ گلزار نے لکھے جب کہ اسکرین پلے خود کلپنا لاجمی کا تھا۔ اس فلم کا موضوع خاصا متنازع تھا جس میں ایک شادی شدہ عورت اپنے شوہر سے ناخوش ہے اور ایک نسبتاً جوان مرد سے تعلقات استوار کر لیتی ہے۔

کلپنا لاجمی کی غالباً سب سے اچھی فلم رودالی ہے جس میں دو عورتیں ڈمپل کپاڈیا اور راکھی کے مرکزی کردار ہیں۔ 1993 میں آنے والی یہ فلم عظیم بنگالی قلم کار مہا سویتا دیوی کی کہانی پد مبنی ہے۔ اس فلم کے ڈائیلاگ بھی گلزار نے لکھے ہیں۔ راجستھان کے ایک گاؤں میں دو عورتوں کی حالت بڑے موثر طریقے سے دکھائی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کے آنسو خشک ہوچکے ہیں اور بڑے سے بڑا سانحہ یا المیہ بھی اسے رلا نہیں سکتا۔ مصیبتوں کے پہاڑ بھی ٹوٹ پڑیں تو اس کی آنکھوں سے ایک آنسو نہیں بہتا۔

اس فلم کا مشہور گانا دل ہوم ہوم کرے جس کی موسیقی بھوپن ہزاریکا نے دی تھی اور خاصا مقبول ہوا تھا۔ کلپنا نے اپنا سفر جاری رکھا اور 1997 میں درمیان نامی فلم بنائی جس میں ایک عمر رسیدہ اداکارہ زینت ہے جس کا کردار کرن کھیر نے ادا کیا ہے۔ اس کا ایک بیٹا ہے جو ہیجڑا ہے مگر اسے وہ اپنا بھائی کہتی ہے۔ اس اداکارہ کو کام بھی نہیں ملتا اور وہ شدید مالی مسائل کا شکار ہے ایسے میں اس کا ہیجڑا بیٹا اس کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اس کے دردناک نتائج نکلتے ہیں۔

عورتوں پر ہونے والے تشدد کو کلپنا نے 2001 میں اپنی فلم دامنی کا موضوع بنایا۔ اس فلم کو بھارتی حکومت کی امداد بھی ملی۔ اس میں روینا ٹنڈن نے غالباً اپنی زندگی کا بہترین کردار نبھایا ہے۔ بدقسمتی سے کلپنا کی آخری فلم 2006 میں ہی آ گئی جب وہ صرف پچاس سال کی تھیں۔ اس فلم کا نام چنگاری جس میں سشمیتا سین نے لاجواب اداکاری کی مگر یہ فلم کاروباری لحاظ سے بالکل ناکام ثابت ہوئی۔

اس فلم میں کلپنا لاجمی کی ہدایت کاری اور ڈائیلاگ بڑے گھسے پٹے تھے۔ اس کی کہانی بھوپن ہزاریکا نے لکھی تھی جس میں سشمیتا سین گاؤں کی ایک رنڈی کا کردار نبھاتی ہے۔ مگر اسے ایک پجاری متھن چکرورتی اپنے استحصال کا نشانہ بناتا ہے۔

دامنی اور چنگاری دونوں فلموں میں عورتیں اپنے مرد استحصال کرنے والوں کو قتل کر دیتی ہیں۔ دامنی میں شوہر کو اور چنگاری میں ریپ کرنے والے کو۔ ایک مایوس کن بات یہ ہے کہ ہم نے جن خاتون ہدایات کاروں کا یہاں ذکر کیا وہ سب اپنی بعد کی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت خراب فلمیں بنانے لگیں۔

اپرنا سین کو فلم عرشی نگر جو 2015 میں آئی وہ شیکسپئر کے رومیو اور جولیٹ پر مبنی تھی جسے بنگال کے حالات میں ڈھالا گیا یہ ایک خراب فلم تھی۔ اسی طرح دیپا مہتا کی فلم اناٹومی آف وائلنس 2016 میں اور بیبا بوائز 2015 میں آئی اور دونوں گھٹیا ثابت ہوئیں۔ اسی طرح میرا نائر نے دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ میں تیسرے درجے کی ہدایت کاری کی جو 2012 میں آئی اس سے بھی خراب فلم امیلیا تھی جو 2009 میں ریلیز کی گئی تھی۔

کلپنا لاجمی کا بھی یہی حال ہوا جو ایک پل اور رودالی جیسی شاندار فلمیں بنانے کے بعد فارمولا فلموں پر آ گئیں اور مردوں کے کردار کو بڑے روایتی اور گھسے پٹے انداز میں پیش کرنے لگیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments