گل بانو: ایک پھول کے پانچ رنگ


اوسلو سے دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک شہر میں ہمارا گھر تھا۔ ہم سب نارویجین شہریت رکھتے تھے۔ ہم چار بھائی تھے۔ میرا نمبر تیسرا تھا۔ والد گھر کی سلطنت کے بلا شرکت غیرے حکمران تھے۔ ہماری ماں کی حیثیت دبی ہوئی رعایا تھی۔ ہم بھائی بھی غلام ہی تھے۔ میری زندگی کے کئی مختلف ادوار ہیں اور ہر دور میں میرا رویہ مختلف رہا۔

پہلا دور

ماں ہماری اکثر پیٹتی زخم کھاتی اور روتی رہتی۔ ابا کا ایک چھوٹا سا پاکستانی مصنوعات کا اسٹور اس کے علاوہ وہ پاکستان پیسے بھیجنے اور منگوانے کا کاروبار بھی کرتے۔ ہماری زندگیوں میں محبت کے علاوہ کسی اور چیز کی کمی نہ تھی۔ محبت کی کمی بھی ہمیں کبھی اتنی محسوس ہی نہیں ہوتی تھی کیونکہ کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ اماں کمزور اور خراب صحت کے باعث نہ گھر دیکھ پاتیں نہ ہم بچوں پر توجہ دیتیں۔ کچھ چھوٹے موٹے کام کیے۔ پھر صحت مزید بگڑ گئی۔ بیماری کی پینشن ملنے لگی۔ انہیں ہم نے بیمار یا روتے ہی دیکھا۔ ابا شراب بھی پیتے تھے۔ نشے میں ہوتے تو اور زیادہ غصہ کرتے اور ماں پر ہی یہ غصہ اترتا۔ ہم سے کبھی پیار تو نہیں کیا لیکن اپنے چار بیٹوں کا باپ ہونے کا غرور انہیں بہت تھا۔

ماں کی بیماری پر ابا جھنجھلا کر رہ گئے۔ گرجے برسے اور ڈاکٹروں کو گالیوں سے نوازا۔ اماں اب ان کی نظر میں گر چکی تھیں۔ دل میں تو وہ پہلے بھی کبھی نہیں تھیں۔

ابا کی سلطنت کے تخت طاوس کا پہلا پایا لڑکھڑایا۔ سب سے بڑے بھائی شاہ زمان کا جو مزاج کے ذرا تیز تھے اسکول میں اکثر کسی سے جھگڑا ہوتا۔ ابا نے انہیں سمجھانے یا ڈانٹنے کے بجائے زور سے قہقہہ لگاتے۔ اور کہتے بس پٹ کر مت آنا۔ پیٹ کر آنا۔ یہ پایا بالکل گر پڑا جب بھائی بیس سال کے تھے اور پڑھائی کر رہے تھے انہوں نے پہلے دکان پر بیٹھنے سے انکار کیا پھر ابا کی بھتیجی سے طے کی ہوئی منگنی پر صاف کہہ دیا وہ اپنی ہم جماعت ایک نارویجین کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ابا کی برداشت سے باہر تھی۔ مار تو انہیں پڑنی ہی تھی۔ بھائی نے تھپڑ کھا کر بھی بات نہیں مانی تو انہیں گھر سے نکلنے کو کہہ دیا گیا۔ وہ کمرے میں گئے ایک چھوٹے سے بیگ میں کچھ کپڑے ڈالے۔ اماں ان کے پیچھے گیں۔ میں ابا کا مخبر تھا مجھے اشارہ ہوا اور میں نے دروازے کی جھری سے دیکھا بھائی اماں کو کہہ رہے تھے ”میں جلد آ کر آپ کو لے جاؤں گا“ اماں کو کچھ پیسے بھی پکڑائے اور چلے گئے۔ میری مخبری پر ابا نے وہ پیسے اماں سے چھین لیے اور ایک گھونسا پیٹ میں ٹکا دیا۔ اماں کو بھائی سے پیسے لینے ہی نہیں چاہییں تھے۔

دوسرا دور

دوسرے نمبر کا بھائی شاہ میر بچپن سے غلط کاموں میں پڑ گیا۔ چھوٹی موٹی چوریاں اور شاپ لفٹنگ میں پکڑا بھی گیا۔ بچہ سمجھ کر معاف کر دیا گیا۔ سلطنت کا یہ دوسرا پایا اس وقت گرا جب شاہ میر اٹھارہ سال کی عمر میں پاکستان گیا اور واپسی پر منشیات اسمگل کرتے ہوئے اسلام آباد ائرپورٹ پر پکڑا گیا، ابا نے موٹی موٹی گالیاں دیں ابا کو غصہ اس بات کا تھا کہ وہ پکڑے کیوں گئے۔

سولہ سال کی عمر میں ہی میں ابا کے بعد گھر کا بڑا بن گیا۔ اماں کا شمار کسی گنتی میں نہیں تھا۔ وہ بیماری کی وجہ سے گھر کے کام کاج بھی ٹھیک سے انجام نہیں دے سکتی تھیں۔ کھانا میں بناتا۔ صفائی کا کام چھوٹا بھائی شاہ رخ کرتا۔ سودا سلف ابا کی ہمیشہ سے ذمہ داری رہی۔ اماں کی دیکھ بھال اور تیمارداری کا بوجھ بھی ہم سب پر آ گرا۔ ابا نے فیصلہ کیا کہ اماں کو پاکستان چھوڑ دیا جائے۔ وہ اب ہمارے کسی کام کی نہیں رہیں تھیں۔ اماں نے بھی یہی چاہا۔ پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہمارا ایک گھر تھا۔ وہیں ماں کو چھوڑا۔ اماں کے اپنے رشتے دار بھی تھے ان سے کہا ذرا ان کا خیال رکھیں۔ ایک جز وقتی ملازمہ بھی رکھ دی۔ اس سے بڑھ کر اور بھلا کیا کرتے ان کے لیے ۔ ماں کو چھوڑ کر ہم واپس آ گئے۔

سب سے چھوٹا شاہ رخ ابھی پندرہ سال کا تھا اور کچھ عجیب عجیب حرکتیں کرتا۔ سگریٹ نوشی بھی کرنے لگا۔ بال لمبے کر لیے پھٹی جینز پہنتا ہر وقت اپنے موبائل پر گانے سنتا اور سر دھنتا۔ ابا نے فیصلہ کیا کہ اسے پاکستان بھیج دیا جائے جہاں وہ دین کی تعلیمات حاصل کرے۔ ابا کا خیال تھا شاید اس طرح ان کی اپنی عاقبت بھی سنور جائے گی۔

شاہ میر گرفتار ہوا تو ابا نے مجھے بھیجا کہ وہاں جا کر کسی طرح کچھ دے دلا انہیں آزاد کروا لوں۔ ساتھ ہی شاہ رخ کو کسی مدرسے میں داخل کروا دوں۔ میں جیل میں بھائی سے ملنے گیا تو وہ رو پڑا۔ ”مجھے یہاں سے نکالو شاہ زیب میں بہت پریشان ہوں“

”تھوڑا صبر کرو ابا کوشش کر رہا ہے“

” ابا کو سب پتہ تھا۔“ ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ ابا کو بتایا تو بولے اس خانہ خراب کو کچھ پیسے دو دوسرے قیدیوں سے بنا کر رکھے۔ میں نے شاہ میر کو ایک بھاری رقم دی لیکن اس کے آنسو نہیں تھمے۔

اماں ویسی ہی چپ چپ سی بیزار سی۔ ہمارے بیچ کوئی خاص گفتگو نہیں کی۔ نہ انہوں نے کچھ پوچھا نہ میں نے کچھ بتایا۔ شاہ رخ کو مدرسے میں داخل کروا کر اماں کے پاس چھوڑ کر میں واپس آ گیا۔ اور پڑھائی کے ساتھ ابا کی دکان پر بیٹھنا شروع کر دیا۔

تیسرا دور
وقت کچھ اور آگے سرکا۔ ایک دن گھر کے باہر میں نے بھائی شاہ زمان کو دیکھا۔ مجھے دیکھ کر وہ پاس آئے۔

” ماں سے بات ہی نہیں ہو پا رہی وہ فون نہیں اٹینڈ کر رہیں ٹھیک تو ہیں نا وہ؟“ میں نے بتا دیا کہ وہ تو پاکستان میں ہیں پچھلے دو سال سے۔ وہ حیران رہ گئے۔ پھر انہوں نے بتایا وہ ایک بیٹی کے باپ بن گئے ہیں اور ماں کو خوشخبری دینا چاہتے تھے۔ زندگی کا وہ ایک ایسا عجیب لمحہ تھا کہ میرے دل میں اس ان دیکھی بچی کے لیے پیار کی انجانی سی لہر اٹھی۔ میں خود بھی اس پر حیران رہ گیا۔ بھائی نے مجھے اپنے فون پر بیٹی کی تصاویر بھی دکھائیں۔ بہت ہی پیاری بچی تھی۔ ”کیا نام رکھا اس کا بھائی؟“

” گل بانو“ ۔ یہ تو اماں کا نام ہے۔ ایک بار پھر میرے دل میں وہی عجیب سا احساس جاگا۔

میں نے وعدہ کر لیا کہ ماں کو یہ خبر کسی طرح پہنچا دوں گا۔ ”ابا کو مت بتانا میں ادھر آیا تھا“ میں نے نہیں بتایا۔

اس واقعے کے ٹھیک چار دن بعد سوشل ویلفیئر کے دفتر سے ایک ہنگامی نوعیت کا اماں کے نام خط آیا کہ وہ ذاتی طور پر دفتر حاضر ہوں ورنہ ان کی پینشن اور دوسری مراعات روک دی جایں گیں۔ ابا کو یہ خط دکھا دیا۔ ابا نے کہا میں ویلفیئر آفس فون کر کے کہہ دوں کہ ماں پاکستان گئی ہوئی ہے جلد واپس آ جائے گی۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن یہ بہانہ کب تک چل سکتا ہے۔ وہاں سے فون پر فون آ رہے تھے۔

” شاہ زیب جا، جا کر اپنی ماں کو لے آ۔ جلدی“

میں اگلے ہفتے ہی وہاں پہنچ گیا۔ اماں مجھے دیکھ کر کچھ زیادہ خوش نہیں ہوئیں اور واپس آنے سے بھی انکار کر دیا۔ میں نے منت ترلے کیے۔ وہ کھوئی کھوئی آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہیں۔

” تم لوگ مجھے مارو گے میں نہیں جاتی“

میرے دل میں پھر وہی انجانی سی محبت کی لہر اٹھی۔ انہیں یقین دلایا کہ اب کوئی انہیں نہیں مارے گا۔ ابا بہت بدل گیا ہے۔ وہ بے اعتباری سے مجھے تکتی رہیں۔ پھر میں نے انہیں شاہ زمان بھائی کی بیٹی کا بتایا اور فون پر اس کی تصویر بھی دکھائی۔ ان کی آنکھوں میں چمک سی آئی۔ وہ فون چومنے لگیں۔ آخر کار وہ راضی ہو ہی گیں۔ میں نے شاہ رخ کا پوچھا تو بولیں ”وہ افغانستان گیا ہے جہاد کرنے“ انداز بالکل ایسا تھا جیسے کہہ رہی ہوں وہ بازار گیا ہے سبزی لینے۔ اور یوں ابا کے تخت کا تیسرا پایا بھی ڈھ گیا جو پہلے ہی بہت کمزور تھا۔ ابا کو شاہ رخ کے بارے فون پر بتایا تو انہوں نے اسے لمبی چوڑی گالیاں دیں اور لعنت بھیجی۔ شاہ میر سے بھی ملا، کچھ رقم بھی دی۔ لگتا تھا وہ اب مزے میں ہیں۔ واپسی جہاز میں اماں بہت بے چین تھیں انہیں خوش کرنے کو میں نے کہا ”پتہ ہے بھائی نے بیٹی کا کیا نام رکھا ہے؟“ انہوں نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے مسکرا کہا

” گل بانو“ ماں کی آنکھیں پھر چمک گیں
” یہ نام سنا سنا لگتا ہے“ میں نے بمشکل دل کو سنبھالا۔

گھر پہنچتے ہی میں نے ابا کو الگ بلا کر کہہ دیا کہ ماں سے آرام اور محبت سے بات کریں وہ اپنے حواسوں میں نہیں ہیں۔ ابا نے زیر لب گالی دی لیکن لہجہ دھیما رکھا۔ ”گل بانو۔ جی آیاں نوں۔ کیسی ہو؟“ ماں سہم کر میرے پیچھے چھپ گئی۔ ابا کمرے سے نکل گئے۔ ماں کو ان کے کمرے میں چھوڑا اور ابا کے ساتھ مفصل میٹنگ کی۔

” اوئے اسے ہوا کیا ہے؟ پاگل تو نہیں ہو گئی؟ اب اسے سکھا دو کہ ویلفیئر کے دفتر میں اسے کیا کہنا ہے۔ اس کے ساتھ جانا اور دھیان رکھنا کوئی غلط بات نہ کر جائے۔ سنبھال لینا“

میں نے ویلفیئر کے دفتر فون کر کے بتا دیا کہ ہماری ماں واپس آ گیں۔ انہوں نے دو دن بعد کا وقت دے دیا۔ صبح دس بجے وہ حاضر ہو جایں۔ پھر میں نے شاہ زمان کو بھی مطلع کر دیا۔

میں اماں کو لے کر وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں شاہ زمان بھی آ گیا۔ اماں سے مل کر وہ جذباتی ہو رہا تھا۔ ابا پر اسے شدید غصہ تھا۔ ٹھیک دس بجے دروازہ کھلا اور ایک خاتون ویلفیئر افسر نے ماں کا نام پکارا۔ شاہ زمان نے ان کا ہاتھ تھاما۔ اماں کھوئی کھوئی سی اس کے ساتھ چل پڑیں۔

مجھے کہہ دیا گیا ”گل بانو آپ کے ساتھ نہیں جائے گی۔ آپ گھر جایئے۔ کل ہمارے کچھ افسر آئیں گے گل بانو کا سامان۔ پاسپورٹ، بنک کارڈ اور تمام دوسری ضروری ڈاکومنٹس ان کے حوالے کر دیں۔ پم پھر جلد ہی آپ سے اور آپ کے والد رابطہ کریں گے“

میں وہاں سے نکلا اور سیدھا ابا کی دکان آیا۔ بتایا کہ اماں شاہ زمان کے ساتھ چلی گئیں۔ حسب معمول انہوں نے گالی دی۔ لیکن پہلی بار میں نے انہیں فکر مند دیکھا۔ ”شاہ زمان کو تیری ماں کی اطلاع کس نے دی؟“ انہوں نے مجھے شک سے دیکھا میں چپ رہا۔

چوتھا دور

ابا ساری صورت حال کے متوقع نتائج پر سوچ ہی رہے تھے کہ ماں کی طرف سے طلاق کا مطالبہ آ گیا۔ جس پر ابا نے فوری دستخط کر دیے۔ لیکن یہ شروعات تھی۔

اگلے ہی دن ماں کے وکیل کی طرف سے دو سال کی پینشن، ٹیکس ریٹرن کی رقم اور مکان میں اپنے حصے کے مطالبات بھی آ گئے۔ ابا کے پسینے چھٹنے لگے۔ دوسری طرف ویلفیئر کے دفتر سے ماں کے نام پر ادائیگی کی رقم کی واپسی اور فراڈ کا کیس بننے کی خبر آئی۔ ابا گہری سوچ میں پڑ گئے۔

” شاہ زیب پتر تم یہ سارا معاملہ اپنے سر لے لو۔ تم ابھی بچے ہو تمہیں معافی بھی مل جائے گی۔ کیس ہوا تو تم مجھ پر الزام مت لگانا۔ کہہ دینا یہ سب تم نے کیا تھا۔ میں تمہارے واسطے تگڑا وکیل کروں گا۔ تم چھوٹ جاؤ گے۔ لیکن میں اس عمر میں خوار ہو جاؤں گا۔ کمپیوٹر کے سارے کام تم ہی تو کرتے تھے۔ مجھے تو یہ کام آتے ہی نہیں“ ۔

میں ٹکر ٹکر ان کا منہ دیکھتا رہ گیا اور گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ ایک کمرا کرائے پر لے لیا۔

آگے کیا بتاؤں۔ کیس پر کیس نکلتے آئے۔ گھر بک گیا ماں کو آدھی رقم کی ادائیگی کی۔ ایک گاڑی بھی جو ماں کے نام سے لی تھی جس کی قسطیں ابا ماں کی پینشن سے ادا کر رہے تھے وہ بھی ماں کو مل گئی۔ باقی کی رقم وکیل اور مقدمے میں لگ گئی۔ ابا عدالت میں خود کو بے گناہ کہتے رہے اور سارا ملبہ مجھ پر ڈالا۔ پولیس میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے میں نے پورا تعاون کیا اور ساری باتیں سچ سچ بتا دیں۔

ابا پر تمام الزامات ثابت ہو گئے۔ اماں کے پاسپورٹ سے یہ بات بھی پتہ چل گئی کہ وہ دو سال سے ناروے میں تھیں ہی نہیں اور ابا ان کی پنشن لیتے رہے۔ انہں پانچ سال قید ہوئی۔ جرمانہ لگا۔ دکان بچ گئی کیونکہ وہ ٹیکس بچانے کے لیے ابا نے شاہ زمان کے نام کی ہوئی تھی۔ میری صرف سرزنش کی گئی کیونکہ میں ابھی اٹھارہ سال کا بھی نہیں تھا۔

اماں شاہ زمان کے ساتھ رہنے لگیں۔ انہیں جو رقم گھر کے بکنے سے اور پینشن کے باقیات سے ملی اس سے شاہ زمان نے ایک دو کمروں کا فلیٹ اماں کے نام خریدا اسے کرائے پر چڑھایا۔ شاہ زمان کی بیوی سلویا بہت ہی نیک دل ثابت ہوئی۔ ماں کا خیال رکھتی تھی۔ اماں کو ڈیمنشیا تشخیص ہوا علاج ہونے لگا۔ اور ساتھ ہی نفسیاتی گتھیاں ذہن میں پنجے گاڑے بیٹھی تھیں ان کو سلجھانے کے لیے تھراپی بھی۔ ماں کبھی کبھی تو بالکل ٹھیک باتیں کرتی، سب کو پہچانتی اور کبھی بالکل اجنبی سی بن جاتی۔

چوتھا دور

زندگی ایک نئے ڈھب پر چل رہی تھی۔ میں دکان پر بیٹھنے لگا۔ اتنے پر ہنگام دنوں میں نہ شاہ میر کی خبر لی نہ شاہ رخ کا خیال آیا۔ شاہ میر کو پیسے بھیجنے بھی یاد نہ رہے۔ پیسے تھے بھی نہیں میرے پاس۔ اچانک خبر آئی کہ جیل میں کچھ لوگوں نے بھائی پر چاقو کے وار کر کے انہیں قتل کر دیا گیا۔ ان کی تدفین بھی اماں کے دور کے رشتے داروں نے کی۔ ابھی اسی کو رو رہا تھا کہ ایک دن شاہ رخ کا فون آیا وہ افغانستان سے آ گیا اور اب ناروے آ رہا ہے۔ اسے ائرپورٹ سے لے کر واپس آتے ساری دکھ بھری داستان مختصر کر کے بتائی۔ وہ کھویا کھویا میرا منہ تکنے لگا۔ اس کی حالت بہت خراب تھی۔ پتہ نہیں افغانستان میں کیسا جہاد کرنے گیا تھا ساتھ نشے کی لت بھی لگا لایا۔

میں شاہ رخ کو لے کر شاہ زمان کے گھر گیا ماں سے ملانے۔
” اماں یہ شاہ رخ ہے۔ دیکھو“
ماں نے غور سے اسے دیکھا ”وہ فلموں والا؟“
ہم سب چپ ہو گئے۔ ”مجھے شاہ رخ کی فلم لگا دو“

میں نے فلم لگا دی۔ وہ تھوڑی دیر دیکھتی رہیں پھر میرے پاس بیٹھے شاہ رخ کو غور سے دیکھ کر بولیں ”یہ تم تو نہیں ہو“ شاہ رخ میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔

شاہ رخ میرے ساتھ رہنے لگا لیکن اسے سنبھالنا میرے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں تھا۔ اس نے اپنی نشے کی علت مجھ سے چھپائی بھی نہیں۔ نشہ پورا کرنے کے لیے اسے پیسے درکار ہوتے۔ پھر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اب اس شہر میں نہیں رہے گا بلکہ اوسلو جائے گا۔ اس کے فیصلے سے مجھے اطمینان ہوا۔ ویلفیئر نے اس کی آبادکاری کے لیے مدد کی۔ ایک فلیٹ ضرورت کی تمام اشیا اور ماہانہ رقم بھی ملنے لگی۔ لیکن نشہ کرنے والوں کو ہمیشہ اور رقم درکار رہتی ہے۔ میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ شاہ زمان نے بھی خود کو اس مسئلہ سے الگ رکھا۔

زندگی کا یہ دور انتہائی مشکل اور تاریک تھا۔
پانچواں دور

ایک دن اماں سے ملنے گیا تو شاہ زمان نے اکیلے میں مجھ سے بات کی کہ اب ان کے لیے اماں کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ ”ہم دونوں کام پر جاتے ہیں اماں باہر نکل جاتی ہیں مشکل سے ڈھونڈ کر لانا پڑتا ہے۔ کبھی چولہا جلتا چھوڑ دیتی ہیں۔ کبھی کھڑکیاں کھول دیتی ہیں۔ تم انہیں اپنے ساتھ لے جاؤ“

” میں کہاں لے جاؤں انہیں؟ ’

ماں کا فلیٹ ہے وہ خالی کروا کر تم اور ماں وہاں رہو۔ ماں کی ذہنی حالت بھی ٹھیک نہیں وکیل سے بات کر کے فلیٹ تمہارے نام ہو جائے گا ”

یہی ہوا۔ اور میں ماں کو لے کر وہاں شفٹ ہو گیا۔ اب میرے لیے کام پر جانا مشکل ہو گیا۔ ماں کو اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ وہ ڈرتی بھی تھیں۔ بھائی نے مشورہ دیا ”شاہ زیب شادی کرلو۔ تم گھر سے باہر جاؤ تو کوئی ہو جو ماں کی دیکھ بھال کرے“

میں نے تو ایسا کچھ سوچا بھی نہ تھا۔

شاہ زمان نے خود ہی سب طے کر لیا۔ ایک پاکستانی لڑکی جو شادی ہو کر ناروے آئی اور دو ماہ بعد ہی بیوہ ہو گئی۔ اس کی ساس اس کی سگی خالہ تھی انہوں نے اسے اپنے پاس ہی رکھ لیا اور اب انہیں کسی مناسب لڑکے کی تلاش تھی۔ نرمین مجھ سے چار سال بڑی تھی۔ بہت سمجھدار اور محنتی لڑکی تھی۔ ہماری اچھی نبھنے لگی۔ وہ ماں کا خیال رکھتی۔ ماں کو نہلاتی۔ لباس تبدیل کرواتی۔ دوائیاں دیتی۔ سب ذمہ داری نرمین نے لے لی۔ ہم ہر اتوار لمبی واک ہر جاتے۔ ایک نہر کے کنارے بطخوں کو دانہ ڈالتے۔ ماں وہاں بہت خوش رہتی۔ ہر بطخ کا نام رکھا اور کہتی وہ انہیں خوب پہچانتی ہے۔ ”یہ پیٹو ہے۔ یہ بہت تیز ہے۔ یہ سست ہے۔ یہ شریر ہے۔ یہ لالچی ہے۔ “ وغیرہ

ابا تین سال بعد ہی رہا ہو گئے۔ مجھے فون کیا ہم ایک کیفے میں ملے۔ ”مجھے دکان بیچنی ہے شاہ زمان سے کہو کاغذات دے دے“ بھائی نے فوری طور پر سب کچھ میرے حوالے کر دیا میں نے ابا کو دے دیا۔ ابا نے بتایا کہ وہ دکان بیچ کر رقم پاکستان لے جایں گے اور دوسری شادی کر لیں گے۔

” مجھے ویلفیئر سے جو رقم ملے گی وہ بنک میں جمع ہوتی رہے گی، میں ہر چھے ماہ بعد آتا رہوں گا بس کسی کو پتہ نہ چلے کہ میں ناروے میں نہیں ہوں“ ۔ ابا ویسے کے ویسے ہی تھے۔

پھر ایک دن ماں بیمار پڑ گئی۔ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔ اسپتال داخل کیا۔ وہاں بے ہوشی کی حالت میں وہ فوت ہو گیں۔ شاہ رخ کو فون کر کے بتا دیا لیکن وہ نہیں آیا۔ میں نے ادھوری تعلیم مکمل کی۔ الیکٹریشن کا ڈپلوما لیا اور کام کرنے لگا۔

چھٹا دور

دو سال اور گزر گئے۔ میں بھی ایک بچی کا باپ بن گیا۔ نرمین نے اس کا نام شاہ گل رکھا۔ کاش اماں بھی اپنی اس پوتی کو دیکھتی۔ ایک دن شاہ زمان ملنے آیا تو بہت اداس اور اجڑا اجڑا سا لگا۔ ”میں اور سلویا الگ ہو گئے۔ وہ بچی کو بھی لے گئی لیکن میں بچی سے ملتا رہتا ہوں۔ “ مجھ پر بجلی سی گری۔ ”کیوں۔ کیسے۔ کیا ہوا؟“

” بس یار میرے غصے کی وجہ سے۔ میں اس پر چیختا چلاتا تھا۔ ایک دو بار میرا ہاتھ بھی اٹھ گیا۔ وہ معاف کرتی رہی لیکن اس بار اس نے معاف کرنے سے انکار کر دیا“

میں شوک میں آ گیا۔ یہ میرا بھائی جو میرا ہیرو تھا میرا آئیڈل تھا۔ جس کے جیسا میں بننا چاہتا تھا۔
” جو کچھ ہمارے باپ نے ہماری ماں کے ساتھ کیا وہی تم اپنی بیوی کے ساتھ کرنے لگے“ میری آواز رندھ گئی۔

” ہم سب بھائیوں نے ابا کی عادات اور خصلتیں ورثہ میں پائی ہیں۔ ہمارے جینز میں ہے یہ سب۔ شاہ میر مجرمانہ ذہنیت کا تھا، شاہ رخ نشے میں لگ گیا۔ میں نے ابا کا مزاج پایا۔ ہم سب ابا کی پیداوار ہیں۔ جب اماں کو مار پڑتی تھی تو ہم چاروں میں سے کسی نے کبھی انہیں بچانے کی کوشش کی؟ ہم سمجھتے تھے کہ یہ نارمل بات ہے۔ عورت پٹتی ہے۔ مرد ہاتھ اٹھاتا ہے۔“

میں کانپ اٹھا۔ کیا یہ سب اگلی نسل میں منتقل ہو گا۔ میرا ذہن ماوف ہو رہا تھا۔ بمشکل میرے منہ سے نکلا
” اور میں؟ میں بھی ابا جیسا؟“
” نہیں تم ماں پر گئے ہو۔ نرم مزاج، ہمدرد اور محبت کرنے والے“
” اور پھر میں ماں کی طرح ایک دن سب بھول جاؤں گا“

اب رات دن مجھے یہی خوف ستاتا ہے کہ کہیں میں ابا جیسا غصیل تو نہیں ہو جاؤں گا؟ شاہ میر کی طرح جرائم پر تو نہیں لگ جاؤں گا؟ شاہ رخ کی طرح نشے لت تو نہیں لگ جائے گی؟ یا پھر ماں کے جیسا ذہنی مریض۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments