عثمان مرزا سمیت پانچ ملزمان کو ای الیون ویڈیو سکینڈل کیس میں عمرقید، دو ملزمان بری

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون کے ایک فلیٹ میں ایک جوڑے کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، ان کی برہنہ ویڈیو بنانے اور انھیں جنسی عمل پر مجبور کرنے کے مقدمے میں عدالت نے مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت پانچ ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر عمرقید کی سزا سنا دی ہے۔

اس مقدمے کا فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے جمعے کی صبح سنایا۔

عدالت نے ملزم عثمان مرزا،محب بنگش، ادارس قیوم بٹ،حافظ عطا الرحمن اور فرحان شاہین کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ دو ملزمان عمر بلال مروت اور ریحان حسین کو بری کر دیا گیا۔

چھ جولائی 2021 کو سامنے آنے والے اس معاملے میں مقدمے کی کارروائی تقریباً ساڑھے پانچ ماہ تک چلی اور گذشتہ برس 28 ستمبر کو سات ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس دوران جنوری 2022 میں متاثرہ جوڑے نے عدالت کے سامنے اپنا بیان بدل لیا تھا اور مقدمے کی مزید پیروی سے انکار کر دیا تھا تاہم حکومت نے متاثرہ جوڑے کی طرف سے بیان حلفی جمع کروانے کے بعد اس مقدمے کو لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔

گذشتہ برس چھ جولائی کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ افراد ایک جوڑے کو زبردستی سیکس کرنے پر مجبور کر رہے ہیں اور ایسا نہ کرنے پر انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔

اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس کے حکام حرکت میں آئے اور انھوں نے اس واقعہ کا مقدمہ تھانہ گولڑہ کے ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کر کے اس مقدمے میں اہم ملزم عثمان ابرار المعروف عثمان مرزا سمیت سات افراد کو گرفتار کر لیا۔

اس واقعہ کا نوٹس وزیر اعظم عمران خان نے بھی لیا اور انھوں نے اس وقت کے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو طلب کر کے اس مقدمے کی تفتیش جلد از جلد اور مقدمے کا چالان متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

وزیراعظم کی طرف سے اس واقعہ کا نوٹس لینے کا اثر یہ ہوا کہ جب تک ملزمان پولیس کی حراست میں رہے اس وقت تک ملزمان کے رشتہ داروں سمیت کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی اور تو اور مقدمے کے مرکزی ملزم سمیت تمام ملزمان دس روز تک پولیس کی تحویل میں رہے اور ان کو نہانے اور کپڑے تبدیل کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی جس کا اظہار ان ملزمان نے متعلقہ عدالت کے سامنے بھی کیا۔

ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیان

متاثرہ جوڑے نے دس جولائی سنہ 2021 کو اپنی رضامندی سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان بھی ریکارڈ کروائے جس میں انھوں نے اس واقعہ کے رونما ہونے کی نہ صرف تصدیق کی تھی بلکہ اس واقعہ میں مختلف ملزمان کے کرداروں کے بارے میں بھی بتایا۔

16 جولائی سنہ 2021 کو متاثرہ جوڑے نے اڈیالہ جیل میں جا کر تین ملزمان کو شناخت کی اور شناخت پریڈ کا یہ عمل مجسٹریٹ کی نگرانی میں مکمل کیا گیا۔

عثمان مرزا پولیس

مقدمے کا چالان

26 ستمبر 2021 کو پولیس نے اس مقدمے کا چالان متعلقہ عدالت میں پیش کیا جس میں اس واقعہ سے متعلق ہوش اڑانے والے انکشافات کیے گئے تھے اور پولیس نے اس چالان میں متاثرہ جوڑے کا اپنی مرضی سے مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا بیان بھی شامل کیا۔

مقامی پولیس کے مطابق متاثرہ لڑکی نے مجسٹریٹ کو دیے گئے بیان میں کہا کہ کس طرح ملزمان نے متاثرہ جوڑے کو ملزمان کی موجودگی میں سیکس کرنے پر مجبور کیا گیا۔

عدالت میں جمع کروائے گئے اس چالان کے مطابق اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا اور ادارس قیوم بٹ نے متاثرہ لڑکی کو مجبور کیا کہ اگر انھوں نے اپنے منگیتر کے ساتھ ملزمان کی موجودگی میں سیکس نہ کیا تو پھر وہ اس کے ساتھ گینگ ریپ کریں گے۔

پولیس چالان کے مطابق متاثرہ لڑکی نے تفتیش کے دوران بتایا تھا کہ چونکہ ملزمان نے ان کی موجودگی میں اس کے منگیتر کا پاجامہ اتارا تھا جس کی وجہ سے وہ ڈر گئی تھی۔

پولیس چالان کے مطابق ملزمان کی موجودگی میں اپنے منگیتر کے ساتھ سیکس سے انکار کرنے پر اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا نے نہ صرف انھیں تھپڑ مارے بلکہ دیگر ملزمان کے سامنے برہنہ گھومنے پر مجبور بھی کیا۔

پولیس کے چالان میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس مقدمے کے ایک ملزم عمر بلال نے مختلف اوقات میں ان کے منگیتر سے بارہ لاکھ روپے حاصل کیے اور یہ کہہ کر یہ رقم وصول کی گئی کہ اگر متاثرہ جوڑے نے یہ رقم نہ دی تو ان کی یہ ویڈیو ان کے گھر والوں کو دکھا دی جائے گی۔

28 ستمبر سنہ 2021 کو تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی تاہم ملزمان نے فرد جرم سے انکار کیا۔

عدالتی سماعت

تین اکتوبر کو اس مقدمے میں عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا اور اس مقدمے میں استغاثہ کے 26 گواہوں کے بیانات قلمبند ہوتے رہے۔

لڑکی

اس مقدمے کی عدالتی سماعت مکمل ہونے کے قریب تھی کہ 11 جنوری سنہ 2022 کو متاثرہ جوڑے نے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں ایک بیان حلفی جمع کروایا جس میں انھوں نے اس مقدمے کے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اس مقدمے کی مزید پیروی نہیں کرنا چاہتے۔

متاثرہ جوڑے نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس مقدمے کی عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تاہم عدالت نے ان کی یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔

متاثرہ لڑکی کی طرف سے اس مقدمے کے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کے بعد ملزمان کے وکلا نے جرح کے دوران متاثرہ لڑکی سے اپنے منگیتر کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ایسے سوالات کیے جس پر عدالت نے ملزمان کے وکلا کو قابل اعتراض سوالات کرنے سے روک دیا۔

اس مقدمے کے سرکار ی وکیل رانا حسن عباس کے مطابق ملزمان کے خلاف جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ354 اے بھی ہے جس کی سزا موت ہے اور یہ قانون کسی خاتون کو پبلک مقام پرزبردستی برہنہ کرنے سے متعلق ہے اور یہ ناقابل راضی نامہ جرم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عثمان مرزا کیس: ’ملزمان نے برہنہ کر کے ڈھائی گھنٹے تک ویڈیو بنائی‘

عثمان مرزا کیس: ’ملزمان نے جوڑے کو زبردستی جنسی عمل کرنے پر مجبور کیا‘

’ہماری اجتماعی ناکامی ہے کہ انصاف کے لیے ویڈیو وائرل ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے‘

انھوں نے کہا کہ اگر متاثرہ فریق ملزمان کو معاف بھی کرنا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ اسی لیے حکومت نے متاثرہ جوڑے کی طرف سے بیان حلفی جمع کروانے کے بعد اس مقدمے کو لڑنے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں گینگ ریپ کی دفعہ بھی لگائی گئی ہے تاہم متاثرہ لڑکی کے متعلقہ عدالت میں بیان حلفی جمع کروانے کے بعد شاید اس قانون کے تحت ملزمان کو سزا نہ مل سکے۔

رانا حسن عباس کے مطابق متاثرہ لڑکی کی طرف سے عدالت میں بیان حلفی جمع کروانے بعد ان پر ہونے والی جرح کے دوران ایسے سوالات کیے گئے ہیں جو کہ ان کے مجسٹریٹ کی موجودگی میں اپنی مرضی سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت دیے گئے بیان سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔

سرکاری وکیل کے مطابق فرانزک رپورٹ کی روشنی میں اس مقدمے میں مرکزی ملزم عثمان بٹ، ادارس قیوم بٹ اور محب خان بنگش کے کردار بڑے واضح ہیں چونکہ نہ صرف وہ اس ویڈیو میں نظر آرہے ہیں بلکہ ایف آئی اے کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں ان ملزمان کی آڈیو بھی میچ کر گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس مقدمے کے ایک ملزم عمر بلال کی ضمانت منظور کر لی جبکہ ایک اور ملزم ریحان حسین کی ضمانت سیشن کورٹ نے منظور کر لی تھی۔

عدالت

ویڈیو کا معمہ جو مقدمے کے فیصلے تک حل نہ ہو سکا

اس مقدمے کی ویڈیو کس کے موبائل سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔

6 جولائی سنہ 2021 کو جب متاثرہ جوڑے کی یہ ویڈیو وائرل ہوئی تھی تو اس کے دس روز بعد پولیس نے ایف آئی اے حکام سے رابطہ کر کے یہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی کہ اصل میں کس کے موبائل سے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی تاہم پولیس کے بقول ایف آئی اے کے حکام کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سات دن کا ڈیٹا موجود رہتا ہے جبکہ اس مدت کے بعد کا ڈیٹا موجود نہیں۔

سرکاری وکیل کے مطابق جس وقت ایف آئی اے کے حکام سے ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا اس وقت تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر دیکھ چکے تھے۔

پولیس کے بقول متاثرہ جوڑے نے اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم کو بتایا تھا کہ ان کی یہ ویڈیو اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا کے موبائل سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

گواہان

اس مقدمے میں استغاثہ کی جانب سے 26 گواہان عدالت میں پیش کیے گئے جن میں متاثرہ جوڑا بھی شامل ہے۔ یہ مقدمہ تھانہ گولڑہ کے ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

اس مقدمے کے سات ملزمان کی طرف سے اپنے دفاع میں ایک بھی گواہ عدالت میں پیش نہیں کیا اور اس مقدمے کے مدعی سب انسپیکٹر عاصم غفار نے اس مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے جج کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس کے پاس اس واقعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں۔

واضح رہے کہ نور مقدم قتل کے مقدمے میں بھی پولیس کے پاس اس واقعہ کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا تاہم فرانزک رپورٹس کی روشنی میں اس مقدمے میں تین ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments