آگرہ قلعہ: جہاں ایک عظیم مغل بادشاہ نے قید میں آخری سانس لیے


1999 ء میں دہلی کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

تاج محل کے شمال مغرب میں دریا کے ساتھ آگرہ کا قلعہ موجود ہے۔ تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ سولہویں صدی کے آغاز میں سکندر لودھی نے اپنا پایہ تخت دلی سے آگرہ منتقل کیا تھا۔ جب بابر نے پانی پت میں لودھی کو شکست دی تو اس نے دلی میں رہنے کی بجائے آگرہ میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت یہاں پر بہت زیادہ عمارتیں موجود نہیں تھیں۔ بابر نے اپنی ضرورت کے مطابق کچھ عمارات تعمیر کیں لیکن انھیں قلعے کی بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ قلعے کی شکل و صورت اکبر کے دور میں بنی۔ بابر کے بعد ہمایوں کو جم کر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کی وفات کے بعد جب اکبر کو بادشاہت ملی تو اس نے آگرہ میں اس قلعے کی بنیاد رکھی۔

کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر کے لیے چار ہزار لوگوں نے آٹھ سال تک کام کیا۔ اس قلعے کا رقبہ ایک سو ایکڑ کے قریب ہے۔ لاہور کے شاہی قلعے کا رقبہ تقریباً پچاس ایکڑ ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ قلعہ کتنا بڑا ہے۔

ہم تینوں دوست قلعے کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ قلعہ تاج محل سے تقریباً دو کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ میں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ آپ اس قلعے میں کون سی چیز سب سے پہلے دیکھنا چاہیں گے۔ دونوں حضرات کا جواب تھا کہ ہم وہ کمرہ دیکھنا چاہیں گے جس میں شاہجہاں نے اپنی زندگی کے آخری سال گزارے۔ میری دلچسپی بھی اسی کمرے سے تھی۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہ تھی لیکن اس قلعے میں اس کمرے سے بڑھ کر وہاں اور کوئی جگہ بھی نہیں ہے، جس کے ساتھ داستان غم جڑی ہوئی ہو۔

اس وقت آگرہ کے قلعے میں داخل ہونے کا ایک ہی بڑا گیٹ ہے جس کا نام امر سنگھ گیٹ ہے۔ اس گیٹ کو شاہجہاں نے یہ نام دیا تھا۔ میرے خیال میں اکبر نے جو عمارتیں بنائیں ان میں سب سے بڑی عمارت یہ قلعہ ہے یا پھر فتح پور سیکری کا پایہ تخت ہے۔ علامہ ابوالفضل نے لکھا ہے کہ اس قلعے میں پانچ سو چھوٹی بڑی عمارتیں بنائی گئی تھیں، جن میں سے اس وقت صرف تیس موجود ہیں۔ قلعے کا کچھ حصہ ابھی بھی بھارتی فوج کے پاس ہے۔ وہاں پر عام لوگوں کا جانا ممنوع ہے۔

شاہجہاں نے اس میں سے بہت سی عمارتیں ختم کیں اور اس کے بعد بھارت پور کے جاٹوں نے بھی اسے شدید نقصان پہنچایا وہ تیرہ سال تک یہاں قابض رہے۔ بعد ازاں انھوں نے بھی یہاں پر حکمرانی بھی کی۔ جب انگریزوں نے مراٹھوں کو شکست دے کر اس قلعے پر قبضہ کیا تو انھوں نے بھی یہاں پر موجود بہت ساری عمارات گرا کر اپنی فوج کے لیے بیرکس بنائیں۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قلعہ اصل حالت میں اب ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔

یہاں پر ایک وضاحت بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں لکھی گئی کتابوں میں مراٹھوں کے لیے مرہٹوں لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ ہندی، گجراتی اور مقامی زبانوں کے علاوہ انگریزی میں بھی اسے مراٹھا لکھا جاتا ہے۔ میں نے اس کتاب میں مراٹھا کا لفظ ہی استعمال کیا ہے جو کہ اردو کے علاوہ ہر زبان میں لکھا جاتا ہے۔

اس سے پہلے کہ میں آپ کو قلعے کے بارے میں کچھ بتاؤں میں چاہوں گا کہ یہاں موجود چند مشہور مقامات سے متعلق کچھ تفصیلات آپ کے سامنے رکھوں جن میں سب سے اہم تین بڑے گیٹ ہیں۔ ہر گیٹ کی اپنی ہی شان ہیں۔ امر سنگھ گیٹ سب سے بڑا دروازہ مانا جاتا ہے۔ اسی سے قلعے کے اندر داخل ہوا جاتا ہے۔ اس گیٹ تک جانے کے لیے دو دیواروں کے درمیان سے ایک راستہ ہے۔ فوجی نقطۂ نظر سے یہ ایک اہم مقام ہے۔

جب میں نے اس قلعے کو غور سے دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ شاہی قلعہ لاہور اور لال قلعہ دہلی میں بنیادی طور پر ایک فرق ہے۔ لاہور اور دہلی کے قلعے فوجی نوعیت کے کم اور رہائشی نوعیت کے زیادہ محسوس ہوتے ہیں جب کہ آگرہ کا قلعہ دریا کے کنارے پر ایک سیمی سرکل شکل میں بنایا گیا ہے۔ ایک طرف سے اسے دریا کی وجہ سے محفوظ بنایا گیا اور باقی اطراف اونچی دیوار بنائی گئیں اور راستہ بھی کافی ڈھلوانی بنایا گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہوں کی رہائش بھی اسی قلعے میں تھی لیکن یہ قلعہ فوجی نقطۂ نظر سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹک کا قلعہ، شاہی قلعہ لاہور، لال قلعہ اور آگرہ کا یہ قلعہ چاروں ہی دریا کے کنارے پر بنائے گئے ہیں۔

اس وقت اس قلعے میں موجود چند مشہور مقامات کے نام یہ ہیں۔ جہانگیر کا نہانے کا ٹب، جہانگیر پیلس، انگوری باغ، خاص محل، دیوان عام، شاہ برج، روشن آراء پالکی، سردیوں کا محل، گرمیوں کا محل، نگینہ مسجد اور مچھلی پیلس۔ ان سب مقامات کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تقریباً اًسی طرح کی چیزیں ہمیں لال قلعہ دہلی اور شاہی قلعہ لاہور میں بھی ملتی ہیں۔ خوبصورتی، بناوٹ اور وسعت میں فرق ضرور موجود ہے لیکن دیکھنے میں بہت زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔

یہاں ایک بہت بڑا پیالہ ملا جو کہیں اندر پڑا ہوا تھا اور اب اٹھا کر باہر ایک لان میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ پیالہ پانچ فٹ اونچا ہے جس کا قطر آٹھ فٹ ہے۔ اسے جہانگیر کا باتھ ٹب کہتے ہیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ جہانگیر کے بچپن میں اس کے نہانے کے لیے ٹب بنایا گیا تھا۔ مختلف عمارتوں کو دیکھتے ہوئے ہم آگے کی طرف چل پڑے۔ ہماری منزل وہ کمرہ تھا جہاں پر شاہجہاں نے اپنے آخری دن گزارے۔

قلعے کے شمال مشرقی حصہ کے پاس ایک محل ہے جسے شاہجہاں کی برجی یا شاہ جہاں کا محل بھی کہا جاتا ہے۔ اگر آپ اس محل کی انتہائی خوبصورت بالکونی پر کھڑے ہوں تو آپ کو تاج محل کا مکمل نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس بالکونی سے ملحقہ کمروں میں ہی شاہجہاں نے اپنی زندگی کے آخری سال بسر کیے۔

قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس عورت کی یاد میں تاج محل بنایا گیا اسی عورت کے بڑے بیٹے داراشکوہ نے شاہجہاں کو بیماری کے دنوں میں یہ کہہ کر خود بادشاہ بن گیا اب آپ حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ شاہجہاں کی پہلی قید تھی جب اسے ایک کمرے تک محدود کر دیا۔ اس دوران اورنگزیب عالمگیر کو پتا چلا تو اس نے آگرہ پر حملہ کر دیا اور داراشکوہ کو شکست دے کر خود حکمران بن گیا۔ اس وقت تک شاہجہاں بیماری سے نجات پا چکا تھا لیکن اورنگزیب عالمگیر نے اس کی قید کو برقرار ہی رکھا۔

اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے دلی کے بارے میں لکھتے ہوئے بتایا تھا کہ چاندنی چوک کا ڈیزائن بنانے والی خاتون شاہجہاں کی بیٹی تھی جس کا نام جہاں آراء تھا۔ اسی بیٹی نے اپنی زندگی اپنے والد کے نام کردی اور زندگی کے آخری آٹھ سال اپنے والد کے ساتھ رہیں۔ اس کے علاوہ کسی کو بھی شاہ جہاں سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔

بیٹوں کی خواہش کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ضرورت کے وقت بیٹیاں ہی ماں باپ کی زیادہ خدمت کرتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب شاہجہاں کی سانسیں اکھڑنے لگیں تو اس نے کہا کہ اسے اٹھایا جائے اور اس کا چہرہ تاج محل کی طرف کیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اس کی آنکھ نے جو آخری نظارہ دیکھا وہ تاج محل کا تھا۔ ایک بوڑھے آدمی سے اورنگزیب عالمگیر کو کیا خطرہ ہو سکتا تھا؟ یہ تو وہ خود ہی جانتا ہو گا!

جب تک تاریخ لکھی جائے گی یہ ضرور لکھا جائے گا کہ والد کی بیماری کو بہانہ بنا کر پہلے دارا شکوہ نے اپنے باپ کو قیدی بنایا اور پھر اورنگزیب عالمگیر نے بھی ایسا ہی کیا۔ شاہجہاں کی وفات کے بعد بھی اورنگزیب اتنا ڈرتا تھا کہ اس نے جنازے پر بھی عام لوگوں کو شریک نہیں ہونے دیا۔

اسے آپ دنیا کی بے ثباتی، بے وفائی اور تاریخ کا ایک سبق بھی کہہ سکتے ہیں۔

میں بہت دیر تک اپنے آپ کو اس منظر سے باہر نہ لا سکا۔ میں دوسری بالکونی میں چلا گیا، جہاں سے مجھے تاج محل اور شاہ جہاں، دونوں کی بالکنی نظر آ رہے تھے۔ وہ ایک عجیب و غریب منظر تھا۔ ایک طرف دیکھتا تو تاج محل اور دوسری طرف دیکھتا تو تصور میں شاہ جہاں نظر آتا۔

یہ حقیقت ہے تاج محل دنیا کا ایک عجوبہ ہے اور اس کے بنانے والے نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرنے سے پہلے اس دنیا کی آخری چیز جو دیکھی وہ یہی تاج محل تھا۔ یہ اعزاز اس کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔

تاج محل اور آگرہ کا قلعہ دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال نے جنم لیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ تاج محل سے محبت تھی جس کی وجہ سے یہ بنا؟ یا تاج محل بنانے کے لیے شاہ جہاں کو ایک محبوبہ کی ضرورت تھی؟

آپ کا کیا خیال ہے۔ آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments