جديد سياسی حروف تہجی اور نئی سياسی لغت


 

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں حکومت ہو خواہ اپوزیشن، دونوں کی بے یقینی سے بھرپور صورتحال دیدنی ہے، جس کو دیکھ کر ان کی پریشانی کے عالم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ رہی بات عوام کی، تو ان کا ’خواص‘ نے، بالخصوص صاحبان اقتدار نے ہمیشہ ہی سے خون چوسا ہے۔ چاہے وہ ’پرانا پاکستان‘ ہو یا پھر ’نیا پاکستان‘ ! تو یہ تو ان کو بھی یقین ہے کہ ان کے حالات بدلنے والے نہیں ہیں۔ ہاں البتہ ان کو کچھ دنوں کے لئے ایک مشغلہ ضرور مل گیا ہے۔ ’پی اس ایل 7‘ کے بعد عوام ویسے بھی بوریت کا شکار تھے، تو اب کچھ ہفتوں سے آئندہ ہفتے ڈیڑھ تک ٹیلی وژن اسکرینز پر رونق لگی ہوئی ہے۔ تو اس صورتحال سے عام پاکستانی کو کم از کم اتنا فائدہ تو ہوا ہے۔

اس غیر یقینی سے بھرپور صورتحال میں اگر کوئی سب سے زیادہ مزے لے رہا ہے، تو وہ یا تو اتحادی ہیں اور یا پھر پاکستانی میڈیا۔ اتحادی، دو فریقین کی کسی ایسی ’مشترکہ محبوبہ‘ کی طرح اپنے دونوں مشتاقوں سے فرمائشیں کر کر کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف و مگن ہیں، اور دونوں فریقین کو آخری وقت تک آسرے میں رکھے ہوئے ہیں، کہ انہوں نے آخری لمحے میں دراصل کس کے پیار کی پیشکش کو ’سوئیکار‘ کرنا ہے، یہ تو عدم اعتماد کی ووٹنگ والے دن ہی پتا چلے گا۔

البتہ پاکستانی میڈیا (جس کا ہم سب بالواسطہ یا بلا واسطہ حصہ ہیں) کو آج کل روز کا ٹھیک ٹھاک ’مصالحہ‘ مل رہا ہے۔ اور ہم ایسے خستہ حال، جن کو عام دنوں میں اتوار کے روز نیوز بلیٹنز میں ہیڈ لائن تک کے لئے خبریں نہیں ملتی، اور باقی دنوں میں بھی پورے گھنٹے والے (دن کے آٹھ) بلیٹنز کو کھینچ تان کے پورا کرنا پڑتا ہے، ان دنوں ان کا ہر بلیٹن اس حد تک خبروں اور رپورٹس سے بھرپور ہے، کہ ہمیں بعض اوقات کئی اہم خبریں بھی ڈراپ کرنی پڑ رہی ہیں اور ٹاک شوز میں روزانہ کی بنیاد پر موضوعات ڈھونڈنے کی تگ و دو نہیں کرنی پڑ رہی۔

ویسے تو طفلان مکتب سیاست کے سیاسی و معاشرتی نطق کا انتہائی برا حال ہے۔ اس حد تک کہ وہ جس ایوان میں بیٹھ کر قانون سازی کرتے ہیں، اس عمل کی کلیدی رہنما دستاویز، ’آئین پاکستان‘ کا مطالعہ کتنے فیصد پارلیمنٹیرینز کرتے ہیں، یہ بہرحال ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب بہت مایوس کن ہے۔ اور تو اور، وہ معزز اراکین اسمبلی جس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کے آتے ہیں، اس کا چند صفحات پر مشتمل منشور ان ممبران میں سے کتنوں نے پڑھا ہوتا ہے، یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔

آپ تمام تر باتوں کو چھوڑ کر اگر ہر ایوان کی راہداری میں ایک کیمرا اور مائکروفون لے کر کھڑے ہو جائیں اور ہر معزز رکن سے صرف لفظ ’جمہوریت‘ ، صحیح تلفظ کے ساتھ کہلوا کر دکھائیں، تو آپ کو پتا چل جائے گا، کہ جمہوریت کے کتنے فیصد پاسداروں کو صرف لفظ ’جمہوریت‘ کہنا بھی آتا ہے۔ (یہ ایسے ہی ہے، جیسے ’ریاست مدینہ‘ کے نام نہاد نقیب کو مختصر ترین درود پاک ﷺ پڑھنا تک نہ آتا ہو۔ )

تو ان طفلان مکتب سیاست کے لئے آج کل کے ملکی سیاسی حالات کے تناظر میں اگر کوئی بنیادی درسی کتاب (پرائمر) ترتیب دی جائے، تو شاید اس کی ممکنہ الفابیٹ کچھ اس طرح سے ہو سکتی ہے :

۔ ’الف‘ سے الیکشن، ’الف‘ سے الیکشن کمیشن، ’الف‘ سے ’ای وی ایم‘ (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) ، ’الف‘ سے اتحادی، الف سے ’ادارے‘ ، ’الف‘ سے اسٹیبلشمنٹ اور ’الف‘ سے انہی کی بنائی گئی اسمبلیاں۔

۔ ’ب‘ سے بلیک میلنگ، ’ب‘ سے بلین ٹری سونامی سکینڈل
۔ ’پ‘ سے پی ڈی ایم
۔ ’ت‘ سے تخت اور ’ت‘ ہی سے تختہ، ’ت‘ سے توشہ خانہ ریفرنس، اور اہم ترین ’ت‘ سے تحریک عدم اعتماد
۔ ’ٹ‘ سے ٹرمپ کارڈ
۔ ’ث‘ ثبوت (فارین فنڈنگ کے )
۔ ’ج‘ سے جمہوری روایات، ’ج‘ سے جہانگیر ترین
۔ ’چ‘ سے چیف الیکشن کمشنر
۔ ’چھ‘ سے ’چھانگا مانگا‘ کی سیاست
۔ ’ح‘ سے حزب اختلاف
۔ ’خ‘ سے خرید و فروخت
۔ ’د‘ سے دھاندلی، ’د‘ سے دھونس دھمکی
۔ ’ڈ‘ سے ’ڈی‘ چوک، ’ڈ‘ سے ڈویلپمنٹ فنڈز
۔ ’ذ‘ سے ذاتیات فی السیاست، ’ذ‘ سے ذی اقتدار
۔ ’ر‘ سے ریاست مدینہ، ’ر‘ سے ’آر ٹی ایس سسٹم‘ فیلوئر، اور ’ر‘ سے رگنگ
۔ ’ڑ‘ سے ’وڑ جانڑی دیا۔‘ (مختاریا! )
۔ ’ز‘ سے زبان درازی
۔ ’ژ‘ سے ژولیدگی
۔ ’س‘ سے سلیکٹڈ، ’س‘ سے سرکاری وسائل
۔ ’ش‘ سے شیم ڈیموکریسی
۔ ’ص‘ سے صدارتی آرڈیننس، ’ص‘ سے صوابدید
۔ ’ض‘ سے ضمیر فروشی
۔ ’ط‘ سے طاقت، ’ط‘ سے طاعت گزار
۔ ’ظ‘ سے ظل الٰہی، ظل کرپشن

۔ ’ع‘ سے عدم اعتماد، ’ع‘ سے عوامی مارچ، ’ع‘ سے عمران، ’ع‘ سے عثمان، ’ع‘ سے علیم خان، ’ع‘ سے علیمہ باجی، ’ع‘ سے عبدالقیوم نیازی (وزیر اعظم، آزاد کشمیر)

(دراصل ’ع‘ کا ہی تو سارا رولا ہے۔ ہر زائچہ ’ع‘ کے گرد ہی تو گھومتا ہے۔ )
۔ ’غ‘ سے غریب عوام، ’غ‘ سے غلغلہ
۔ ’ف‘ سے فلور کراسنگ، ’ف‘ سے فارین فنڈنگ کیس
۔ ’ق‘ سے قبل از وقت انتخابات
۔ ’ک‘ سے کرپشن، ’ک‘ سے ’کانپیں ٹانگنا‘
۔ ’گ‘ سے ’گیٹ نمبر چار‘ ، ’گ‘ سے گالم گلوچ برگیڈ
۔ ’ل‘ سے لولی لنگڑی جمہوریت، ’ل‘ سے لوٹا کریسی، ’ل‘ سے لانگ مارچ

۔ ’م‘ سے مقتدر حلقے، ’م‘ سے مذاکرات، ’م‘ سے مذہبی کارڈ، ’م‘ سے مائنس ون، ’م‘ سے منحرف ارکان، ’م‘ سے مالم جبا اسکینڈل

۔ ’ن‘ سے نا اہل، ’ن‘ سے نالائق، ’ن‘ سے نابلد
۔ ’و‘ سے ووٹ، ’و‘ سے وزارت، ’و‘ سے ’وسیم اکرم پلس‘
۔ ’ھ‘ سے ہارس ٹریڈنگ
۔ ’ی‘ سے یو ٹرن اور ’ی‘ سے یوٹوپیا

اسی طرح اگر موجودہ سیاسی ٹرینڈز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سیاسی اصطلاحات پر مشتمل کوئی لغت تیار کی جائے، تو اس میں کئی ایک الفاظ کے معٰنی اس طرح سے تبدیل ہوں گے ، کہ اگر ایک ہی کام ہمارے حق میں ہو رہا ہو، تو اس کی تعریف و معٰنی کچھ اور ہوں گے اور اگر وہی کام کسی اور کے حق میں ہو رہا ہو، تو پھر اس کی تشریح یکسر مختلف ہوگی۔ مثلا:

۔ اگر کوئی منتخب نمائندہ کوئی اور پارٹی چھوڑ کر ہماری جماعت میں آئے، تو کہیں گے کہ ”اس کا ضمیر جاگ گیا۔“ اور اگر وہی یا کوئی اور ہم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، کسی اور پارٹی میں چلا جائے، تو وہ ”غدار“ اور ”ضمیر فروش“ کہلاتا ہے۔

۔ اگر ہم انتخابات سے پہلے ٹکٹوں کی بندر بانٹ میں مختلف پارٹیوں کے ’الیکٹیبلز‘ کو مخلتف نوع کے لالچ دے کر اپنی پارٹی میں بھرتے جائیں، تو وہ ’وکٹیں گرانا‘ کہلاتا ہے۔ اور اگر وہی عمل ہمارے مخالفین کریں، تو وہ ”ہارس ٹریڈنگ“ ۔

۔ اگر ہم انتخابات کے بعد ، جہاز بھر بھر کے مختلف آزاد امیدواروں کو اپنے گھر بلوا کر گلے میں مفلر ڈالتے جائیں، تو وہ ”قبول ایمان سیاست“ اور اگر حزب مخالف والے ایسا کچھ کریں، تو وہ ”سیاسی خرید و فروخت“ ۔

۔ اگر ادارے جائز نا جائز طور پر ہمارا ساتھ دیں، تو وہ ”ایک پیج“ اور اگر وہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنا کام کریں، تو وہ ”اللہ نے نیوٹرل ہونے کا حکم نہیں دیا۔“ اور ”نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔“ کے منترے اور الزامات کی زد میں۔

۔ اگر ہم ’ان‘ کی گود میں بیٹھیں، (یا بقول چوہدری پرویز الہی کے ) ان سے ’ڈائپر چینج کروائیں‘ ، تو ”ادارے ہمارے ساتھ ہیں۔“ اور اگر ’کسی اور‘ سے ملاقات کر لیں، تو وہ ”بوٹ پالش کرنا“ بن جاتا ہے۔

یہ پرائمر اور لغت کسی اور کی نہیں، بلکہ عوام کی تالیف کردہ ہے۔ شاید اب عوام اس قدر بیوقوف نہیں رہے، اور ان سب سیاسی کھلاڑیوں نے ان سب کو اپنے جعلی بیانیوں اور سیاسی قلابازیوں سے سیاسی طور پر کم از کم اتنا باشعور تو کر ہی دیا ہے، کہ اگر اب کبھی بھی پاکستان میں غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات ہوئے (جس کی امید مستقبل قریب میں تو کم نظر آتی ہے۔ ) تو عوام ان تمام سیاسی ڈرامے بازوں سے اپنی لاتعلقی کا برملا اظہار کریں گے۔ مگر یہ خواب کب شرمندۂ تعبیر ہو گا، اس سوال کا جواب کسی کو نہیں معلوم۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments