کھوسہ برادران اور عطیۂ فیض


کمپیوٹر کے جدید دور میں جب خطاطی معدوم ہو چکی، ناصر محمود کھوسہ نے مقدس آیات اور صوفیانہ کلام پر مشتمل 393 صفحات کی کتاب ”عطیۂ فیض“ اپنے ہاتھ سے لکھ کر والدین کو منفرد انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان کے والد فیض محمد کھوسہ اور والدہ عطیہ فیض نے گورنمنٹ کالج اور کنیئرڈ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ والد نے قانون کی ڈگری کے بعد ڈیرہ غازی خان سے وکالت کا آغاز کیا۔ آخری عمر میں، خود نوشت، harvest of hope (امید کی فصل) لکھی، جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہین اور فطین بیٹوں کو سب سے لائق اور فائق دیکھنا چاہتے تھے اور اسی ڈھب سے ان کی تربیت کی۔

چاروں بھائی ڈیرہ غازی خان سے گورنمنٹ کالج لاہور آئے۔ ایک بھائی عارف، ایف ایس سی کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی چلے گئے۔ باقی بھائیوں میں طارق، راقم سے دو سال سینئر، ناصر کلاس فیلو اور آصف ایک سال جونیئر تھے۔ نیو ہوسٹل میں چار سو طلباء کے لئے، صرف ایک ٹیلی فون میسر تھا۔ دسمبر ٹیسٹ ہو یا پروموشن کا امتحان، کھوسہ برادران کو ہر پرچے سے پہلے اور بعد میں ڈیرہ غازی خان سے والد کا فون آتا۔ دوسرے طالب علم اس غیر معمولی دلچسپی پر زیر لب مسکراتے، مگر تینوں بھائیوں کو ریموٹ کنٹرول ”رہنمائی“ خوش دلی سے قبول تھی۔

راقم کو رفتہ رفتہ علم ہوا کہ اول آنے کا جذبہ، ہر بھائی کے رگ و پے میں سما چکا ہے۔ طارق کھوسہ نے سی ایس ایس کیا اور پولیس سروس میں اول پوزیشن حاصل کی۔ ناصر کھوسہ میٹرک، ایف اے اور بی اے کے امتحان میں فرسٹ آئے۔ آصف کھوسہ بھی پیچھے نہ رہے۔ ایف اے اور بی اے میں اول آئے اور انگلش لٹریچر میں ایم اے کرنے کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی۔

عملی زندگی میں، طارق کھوسہ آئی جی بلوچستان، ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری نارکوٹکس کنٹرول کے اہم عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد گریڈ بائیس میں ریٹائر ہوئے۔ دوسرے نمبر پرانجینئر عارف کھوسہ کی زیر نگرانی ایکسپو سینٹر لاہور کا شاندار پروجیکٹ مکمل ہوا۔ ناصر کھوسہ، ڈپٹی کمشنر لاہور، کمشنر ملتان کے بعد ، بلوچستان اور پنجاب کے چیف سیکرٹری رہے۔ نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انہیں پرنسپل سیکریٹری کی ذمہ داری سونپی گئی۔

ریٹائرمنٹ کے بعد چار سال ورلڈ بنک میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ آصف کھوسہ وکالت میں نام کمانے کے بعد ہائی کورٹ کے جج بنے اورچیف جسٹس سپریم کورٹ کی حیثیت میں ریٹائر ہوئے۔ طارق کھوسہ اور ناصر کھوسہ نے انتظامی مشینری میں اچھی کارکردگی سے شہرت کمائی اور خودنمائی سے گریز کیا۔ اسی بناء پر حکمرانوں کو عزیز رہے۔ شہباز شریف کے پہلے دور میں، ناصر کھوسہ نے ڈپٹی کمشنر لاہور کی حیثیت میں، شہر کے کونے کھدروں میں چھپی سرکاری زمین کو واگزار کر اکے نیلام کیا۔

کروڑوں کی آمدنی ہوئی، لاہور شہر کا نقشہ تبدیل ہو گیا۔ کمشنر ملتان تعینات ہوئے تو کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر میں جت گئے۔ آغاز حقوق بلوچستان کی اسکیم پر عمل درآمد سے شہرت پانے کے بعد ، چیف سیکریٹری پنجاب تعینات ہوئے۔ ورلڈ بنک پہنچے تو پاکستان کے لئے اپریل 2014 ء میں داسو پروجیکٹ کے لئے مالیاتی انتظام منظور کروایا۔ طارق کھوسہ پولیس سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد انگریزی اخبار میں نیشنل سیکورٹی امور پر کالم لکھنے کے علاوہ، دو کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔

انٹرپول ان کی خدمات سے استفادہ کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب inconvenient truths (پریشان کن سچائیاں ) اپنے مرحوم والدین کے نام منسوب کرتے ہوئے لکھا، والدین نے مجھ میں جرات، سچائی کی حمایت اور ظلم کے خلاف لڑنے کا جذبہ پیدا کیا۔ آصف کھوسہ عدالتی فیصلوں سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے جج کی حیثیت میں جرات مندانہ فیصلے سنائے۔ مگر انہیں زیادہ شہرت، دو وزرائے اعظموں کو عہدوں سے ہٹانے پر ملی۔ یوسف رضا گیلانی سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کے مجرم ٹھہرے۔

چند سیکنڈ کی سزا، انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے محروم کر گئی۔ نواز شریف، غیر ادا شدہ تنخواہ کو الیکشن کمیشن کے گوشوارے میں ظاہر نہ کرنے پر عمر بھر کے لئے سیاست سے نا اہل قرار پائے۔ آصف کھوسہ، ان مقدمات سے علیحدہ ہو سکتے تھے۔ یوسف رضا گیلانی، گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کے ہم جماعت اور ہوسٹل میں ساتھ رہتے تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے، اپنی آپ بیتی ”چاہ یوسف سے صدا“ میں کالج کے زمانے کا تذکرہ کرتے ہوئے، آصف کھوسہ کا ذکر کیا۔

اسی طرح نواز شریف کے خلاف نا اہلی کا فیصلہ، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے حوالے سے تھا۔ آصف کھوسہ، جج بننے سے پہلے عوامی نمائندوں کے لئے صادق اور امین کی شرائط پر پورا اترنے کے خلاف مضمون لکھ چکے تھے جو آج بھی ایک معاصر موقر انگریزی اخبار میں محفوظ ہے۔ بھائیوں میں مسابقت کا جذبہ ایک قدرتی رجحان ہے۔ سرکاری ملازمت کے دوران، طارق اور ناصر کے خیالات میں کبھی کبھار، پولیس اور ڈی ایم جی کی مخاصمت اپنی جھلک دکھلاتی تھی۔

گردش دوراں کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ناصر کھوسہ کو ورلڈ بنک کی پوسٹ پر واشنگٹن بھیجنے والے پرائم منسٹر کو عدالتی فیصلے نے گھر بھیج دیا۔ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف وضع دار سیاست دان ہیں۔ اپنی معزولی کے ایک برس بعد ، والدہ کے انتقال پر یوسف رضا گیلانی اپنی روایتی تہذیب کے ساتھ، تعزیت کے لئے کھوسہ برادران کے پاس آئے۔ مگر اس ملاقات میں زبان پر نہ کوئی حرف شکایت آیا اور نہ برتاؤ میں کسی شکوے کا اظہار ہوا۔ اسی طرح چند ماہ پہلے، ناصر کھوسہ کے بیٹے کو ترکی میں حادثہ پیش آیا تو نہ صرف نواز شریف اور شہباز شریف بلکہ مریم نواز نے بھی فون پر خیریت دریافت کی۔

ناصر کھوسہ، ہاتھ کی خطاطی سے والدین کو منفرد انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، لکھتے ہیں۔ ”اگرچہ آپ کو جدا ہوئے ایک عرصہ ہو گیا، اس دوران ایک لمحہ کے لئے بھی ہم سب آپ کے فیض، آپ کی محبت، دعا اور شفقت سے محروم نہیں رہے۔“ راقم، کھوسہ برادران سے تعلق کی بناء پر شاہد ہے کہ فیض محمد کھوسہ اور ان کی اہلیہ عطیہ فیض نے اپنی زندگی، اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئے وقف کیے رکھی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ناصر کھوسہ کی کاوش قبول فرماتے ہوئے ان کے والدین کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments