لطیفے جو ہزاروں سال سے ہمیں ہنسا رہے ہیں اور شاید اگلے ہزاروں سال تک بھی قہقہ گھونجتا رہے

میٹ کینین - بی بی سی فیوچر


jokes
اپنی پی ایچ ڈی کے لیے قرون وسطیٰ میں لکھے گئے مواد کو پڑھنے میں مہینے گزارنے کے بعد، مارتھا بے لیس نے ایک حیران کن دریافت کی۔

وہ کیتھولک سکالرز کے لاطینی زبان میں لکھے گئے کچھ قدیم ترین لطیفوں کو دیکھ رہی تھیں جن میں کچھ تو ایک ہزار سال سے زیادہ پرانے تھے۔ ان میں سے بہت کم کا پہلے کبھی انگریزی میں ترجمہ ہوا تھا، پھر بھی ان میں سے کئی اب بھی مضحکہ خیز لگتے تھے اور کچھ نے انھیں کھل کے ہنسنے پر مجبور کر دیا۔

اس کے تھوڑی دیر بعد مارتھا اپنی ٹرین کا انتظار کرتے ہوئے ’ٹروئلی ٹیسٹلیس جوکس 3‘ کی ایک کاپی پڑھ رہی تھیں، جو 1983 میں لکھا گیا لطیفوں کا ایک مقبول مجموعہ ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ اس میں تقریباً لفظ بہ لفظ ایک ایسا لطیفہ تھا جسے وہ صرف ایک دن پہلے ہی دیکھ کر لکھ رہی تھی۔

تقریباً ایک ہزار سال پرانا لطیفہ کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے: دو آدمی ایک سڑک پر ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ ایک کہتا ہے کہ ’آپ کا کیا خیال ہے، کس میں زیادہ مزہ آتا ہے، پاخانہ کرنے یا سیکس کرنے میں؟‘

دوسرا آدمی جواب دینے سے پہلے سوال پر غور کرتا ہے۔ میں آپ کو باقی تفصیل نہیں بتاؤں گی، کیونکہ یہ آج کے معیارات کے لحاظ سے تھوڑی گندی ہے، لیکن اس میں جنسی کارکن سے مشورہ لینے کی بات ہوتی ہے۔

مارتھا کو جس چیز نے حیران کیا وہ یہ تھی کہ یہ لطیفہ زبانی منتقل ہونے کی روایت کے ذریعے سنایا جاتا رہا ہے، جو لاطینی ٹیکسٹ سے شروع ہوا اور جدید لطیفوں کی کتاب تک پہنچا، اور اس کے درمیان صدیوں تک کسی کو اسے لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔

اس لطیفے میں واضح طور پر کچھ ہے جس نے اسے آج تک استعمال میں رکھا ہوا ہے، اگرچہ یہ آج کے معیار کے مطابق برا ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن کیا چیز ہے جو صدیوں سے سامعین کو گدگدی کر رہی ہے؟ اور کیا آنے والے ہزاروں سالوں تک بھی کچھ جدید لطیفے مزاحیہ ہوں گے؟

ایسا لگتا ہے کہ ابتدائی تحریری لطیفوں میں بھی قابل شناخت خصوصیات موجود ہیں۔ امریکہ میں نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) نے 2016 میں تجویز کیا کہ سب سے قدیم ریکارڈ شدہ لطیفہ کانسی کے زمانے کے سمیریا دور کا ہے، جو کہ 3300-1200 قبل مسیح کی ابتدائی میسوپوٹیمیا تہذیب ہے۔ لطیفہ کچھ اس طرح ہے: ’کیا ہے جو زمانہ قدیم سے کبھی نہیں ہوا؟ کسی جوان بیوی نے اپنے شوہر کی گود میں پاد نہیں مارا۔‘

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ لطیفہ آج کل کے کامیڈی کلبوں میں پسند کیا جائے گا۔ تاہم، یہ حیرت انگیز ہے کہ سب سے قدیم ریکارڈ شدہ لطیفہ ٹوائلٹ کے مزاح کے بارے میں ہے۔ کسی لگاوٹ بناوٹ کے بغیر جسمانی چیزوں اور پاخانے کے بارے میں مزاح کوئی جدید ایجاد نہیں ہے، بلکہ مختلف ثقافتوں اور وقتوں میں یہ عام رہا ہے۔

مارتھا، جو اب یونیورسٹی آف اوریگون میں لوک داستانوں اور عوامی ثقافت کی ڈائریکٹر ہیں، ابتدائی حس مزاح پر متعدد کتابیں لکھ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ابتدائی لطیفے ذرا گندے لطیفے تھے۔ لوگ ان کو چھوڑ نہیں سکتے تھے۔‘

فن لینڈ کی یونیورسٹی آف ہیلسنکی کی ثقافتی علوم کی پروفیسر انو کورہونن کہتی ہیں کہ ’مثال کے طور پر پیٹ میں گیس بھرنا مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس سے ہماری ’بے قابو جسمانیت‘ نظر آتی ہے۔

انھوں نے یونیورسٹی میگزین کے لیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ابتدائی لطیفوں میں پاد کا کردار ہماری مشترکہ انسانیت اور لوگوں کی مساوات کی نمائندگی کرتا تھا۔ پیٹ میں گیس سے سب متاثر ہوتے ہیں اور کوئی بھی اس کے متعلق کچھ نہیں کر سکتا۔

کچھ محققین کا خیال ہے کہ چونکہ مزاح ہمیں اکٹھا کرتا ہے اس لیے یہ اس کا ارتقائی مقصد بھی ہو سکتا ہے۔

شاید بری صورتِ حال کو ذرا آسان بنانے کی ہماری صلاحیت نے ان پر قابو پانے میں ہماری مدد کی ہے۔ انھیں ہنسی کے ساتھ شامل کرنے نے ہمیں اپنے سماجی بندھن کو مضبوط کرنے کے قابل بنایا ہے۔ کچھ سکالرز کہتے ہیں کہ چمپینزی جیسے جانوروں میں چھیڑ چھاڑ کرنے والا طرز عمل انسانوں میں مزاح کی ابتدا کا ارتقائی ثبوت لگتا ہے۔ تاہم، قید کیے ہوئے جانور ہمارے طرز عمل کی نقل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

لیکن تمام بدتمیز اور بد تہذیب لطیفے ایک ثقافت سے دوسری ثقافت میں ضروری نہیں کہ مزاحیہ سمجھے جاتے ہوں اور پسند کیے جائیں۔ یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر میں مارکیٹنگ اور نفسیات کے پروفیسر پیٹر میک گرا کہتے ہیں کہ ثقافتی اصول اتنے وسیع پیمانے پر مختلف ہوتے ہیں کہ عالمی سطح پر مضحکہ خیز لطیفہ تلاش کرنا مشکل ہے۔

’یہاں تک کہ ڈکار جیسی چیز کا بھی اپنا ایک ثقافتی عنصر ہوتا ہے۔ کچھ ثقافتوں میں دسترخوان پر ڈکار مارنا انتہائی ناگوار ہے۔ اگر آپ کا بچہ ایسا کرتا ہے، تو آپ ہنس سکتے ہیں کیونکہ وہ اس سے بہتر کچھ نہیں جانتا۔ دوسری ثقافتوں میں، اس کا مطلب ہو سکتا ہے کہ ’شکریہ، کھانا بہت شاندار تھا۔‘

قرون وسطی کے دور تک اکثر لطیفے گندے یا بدتمیز ہوتے تھے، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ابتدا بیہودہ سراؤں اور معاشرے کے کم قابل احترام گوشوں سے ہوئی تھی۔ بے لیس کہتی ہیں لیکن حقیقت اس سے ذرا مختلف تھی اور ہر طرح کے لوگ لطیفے سناتے تھے۔

بے لیس کہتی ہیں کہ بہت سے قدیم تحریری لطیفے ابتدائی لاطینی بائبل کے حاشیے پر لکھے گئے تھے۔ ایک ایسی ثقافت میں بھی جہاں صرف علمی اور مذہبی اشرافیہ ہی پڑھ لکھ سکتی تھی، چرچ کے سکالرز ایک دوسرے کو گندی باتوں سے محظوظ کرتے تھے۔

قرون وسطی کے طاقتور بادشاہوں کے زمانے میں لطیفے بنانا اور سنانا ایک خطرناک کام بھی تھا۔ بے لیس ایک کہانی سناتی ہیں جہاں انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ اول کو اپنے بارے میں ایک لطیفہ برا لگ گیا۔

’دو شرابی ایک جگہ بادشاہ کا مذاق اڑا رہے تھے، بادشاہ کو ان پر غصہ آیا اور اس نے ان دونوں کو بلایا۔ صاف ظاہر تھا کہ ان پر عذاب آنے والا ہے، لیکن پھر ان میں سے ایک نے کہا ’ہو سکتا ہے ہم نے یہ باتیں کی ہوں، لیکن اگر شراب ختم نہ ہوتی تو ہم یہ نہیں کہنے والے تھے!‘

آج کل کسی بادشاہ کے غصے کی وجہ سے کہیں دور پھینکے جانے کا خطرہ کم ہے، لیکن ابھی بھی مزاح نگار کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ پہلے سامعین کو سمجھے۔ میک گرا کہتے ہیں کہ موثر لطیفے ایک ’بے ضرر بدتمیزی‘ ہوتے ہیں جو ہمیشہ بہت نرم اور بہت سخت کے درمیان ایک نازک توازن کے عمل پر چلتے ہیں۔

بے ضرر خلاف ورزیوں یا بدتمیزیوں کا مقصد بیک وقت ہنسی اور نفرت پیدا کرنا ہے، جو شاید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ بیہودہ موضوع اتنا عام کیوں ہوتا ہے۔

میک گرا کہتے ہیں کہ ’یہ ان دو طریقوں کی وضاحت کرتا ہے جن سے لطیفہ ناکام ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ کہ بہت بے ضرر اور بہت بیزار کرنے والا ہو سکتا ہے، جیسا کہ کسی بچے کا ’نوک نوک‘ والا لطیفہ۔ یا یہ بہت زیادہ بیہودہ ہو سکتا ہے۔

یہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ لطیفہ سنانا کتنا نازک کام ہے کیونکہ کامیاب ہونے کے مقابلے میں ناکام ہونا آسان ہے۔‘ لہٰذا، لطیفے سنانا ایک سنجیدہ کام ہے، اور اس کے لیے سامعین کو سمجھنے کے لیے مضبوط صلاحیت درکار ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ہم لطیفے بنا کر ہنستے ہیں، کامیڈی ہمارا سیلف ڈیفینس میکینزم ہے‘

کیا مزاح کی آڑ میں شائستگی کی حد عبور ہو رہی ہے؟

’لکھتے لکھتے قلم رک جائے تو آگے نہیں لکھنا چاہیے‘

میک گرا کہتے ہیں کہ حقیقت میں خام ذہانت اس بات کا سب سے مؤثر اشارہ ہے کہ کوئی شخص مزاحیہ ہے یا نہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد کے مزاح سے پتہ چلتا تھا کہ انھیں اپنے ارد گرد کے بارے میں کتنا علم ہے. یہ لطیفے کم متوقع زندگی اور خطرناک دنیا کے تناظر میں بنائے گئے تھے۔

لیکن یہ بنیادی باتیں جدید دور میں بھی رشتوں کے حوالے سے ہمارے نقطہ نظر میں موجود ہیں، اور میک گرا کے مطابق ’یہ جاننا اہم ہے کہ کسی ایسے شخص کے ساتھ وقت گزارنا کتنا خوشگوار ہوتا ہے جو مزاحیہ ہو، کیونکہ وہ صلاحیت رکھتا ہے کہ دنیاوی مشکلات سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں ہمارح مدد کرے۔‘

مثال کے طور پر، لطیفے جذباتی کیفیتوں کو بدلنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ مشکل موضوعات سے نمٹتے وقت ایک مضحکہ خیز پنچ لائن منفی جذبات سے ہماری توجہ ہٹا سکتی ہے۔

اور کامیڈی میں ’کینسل کلچر‘ یا لوگوں سے قطعۂ تعلق کے متعلق عصری گھبراہٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میک گرا کے لیے یہ تاریخ کا کوئی انوکھا لمحہ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ رجحان تب سے ہو رہا ہے جب سے سٹینڈ اپ کامیڈی شروع ہوئی ہے۔‘ جیسا کہ رچرڈ اول کے دور کے دو افراد سے پتہ چلتا ہے کہ کامیڈی ہمیشہ ہی خطرناک رہی ہے، اور طاقت ہمیشہ بالآخر سامعین کے پاس ہی ہوتی ہے۔

میگرا کہتے ہیں کہ ’کیا غلط ہے اور کیا ٹھیک ہے اس کا تعین کرنے والا بتانے والا نہیں ہوتا، بلکہ سامعین، وصول کنندہ، اور وہ وہاں کس موڈ میں ہیں، کس سیاق و سباق میں ہیں، انھوں نے کتنی شراب پی ہے، ان کی ثقافت، ان کے شناخت ہوتی ہے۔‘

اگر طاقت سامعین کے پاس ہے تو مزاح نگار کے لیے انھیں خوش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ سٹینڈ اپ کامیڈین کیتھرین بوہارٹ اس کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سامعین کی نفسیات واقعی دلچسپ ہوتی ہے کیونکہ اگر آپ ٹھیک نظر آتے ہیں تو وہ آپ پر بھروسہ کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن اگر آپ ذرا بھی کمزور ہوئے تو وہ اس اضطراب اور کمزوری کو محسوس کر سکتے ہیں۔‘

اتنے لمبے عرصے تک اتنی توجہ حاصل کرنا ایک غیر معمولی کام ہے، اور سامعین چاہتے ہیں کہ ان کے پیسے پورے ہوں۔ بوہارٹ میک گرا سے اتفاق کرتی ہیں کہ اگرچہ ہزاروں سالوں پر محیط کامیڈی کے موضوعات مشترک ہو سکتے ہیں، لیکن سٹینڈ اپ مواد کا کوئی ایک حصہ بھی ایسا نہیں جو سو فیصد ہر وقت کارگر ثابت ہو۔ سٹینڈ اپ کامیڈی اس لیے رسکی ہے کیونکہ کامیڈین کو ہر بار کامیاب ہونے کے لیے سامعین کے ایک نئے سیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بوہارٹ کہتی ہیں کہ سامعین کی ہنسی بھی پیچیدہ ہوتی ہے۔ ’صدمے کا لمحہ ہنسی کو دبا سکتا ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز جس پر ہمیں ہنسنا نہیں چاہیے: موت، ذہنی صحت اور سفاکانہ خود فرسودگی۔ لوگ اونچی آواز میں ہنسنے سے کتراتے ہیں۔‘

حالیہ برسوں میں سٹینڈ اپ کامیڈی کا بڑی تیزی سے ارتقا ہوا ہے۔ کائلی بریک مین ایک نئی قسم کی مشاہداتی کامیڈی کرنے والوں میں سے ایک تھیں جو وبائی امراض کے آغاز میں سامنے آئی تھیں۔ ان کی ٹویٹر ویڈیوز کو لاکھوں مرتبہ دیکھا گیا ہے اور ان میں ایسے دور کا آغاز کیا گیا جس میں ایک دن کے واقعات کی منٹوں میں پیروڈی کی جا سکتی ہے۔

بریک مین کہتی ہیں کہ ’یہ پاگل پن ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں روزانہ کا ٹی وی بہت سست ہے۔‘ آن لائن مزاح نگار طنز کے چاقو کے نوک پر ہیں۔

’اگر خبروں میں کچھ ہوتا ہے تو آپ نے اس پر فوراً چھلانگ لگانی ہے۔ یہ ایک برتری ہے جو آن لائن مزاح نگاروں کو حاصل ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ لیٹ نائٹ شو کے لیے بھی لکھ رہے ہیں تو شو کے نشر ہونے سے پہلے ہی یہ مذاق ٹوئٹر پر 17 بار دہرایا جا چکا ہو گا۔‘

اس قسم کی جدید کامیڈی جس کی عمر منٹوں تک ہوتی ہے لاطینی متن کے حاشیے میں لکھے گئے لطیفے سے بہت مختلف ہے، جسے جب بھی کوئی اگلا سکالر دیکھتا تو اسے بھی وہ مضحکہ خیز ہی لگتی۔

اس تیز رفتاری کے ساتھ خطرات بھی آتے ہیں۔ لیکن سکرین کے پیچھے لاکھوں سامعین کو آن لائن لطیفے سنانا پھر بھی کم تباہ کن لگتا ہے۔

بریک مین کہتی ہیں کہ ’اگر لوگوں کو یہ پسند آتا ہے، تو انھیں پسند ہے۔ اور اگر وہ نہیں آتا، تو وہ واقعی اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے۔ میرے خیال میں یہ سٹیج پر ’بومبنگ‘ سے کہیں کم خطرناک چیز ہے، کیونکہ اس میں صرف یہ ہے کہ لوگ اسے لائیک (پسند) نہیں کرتے۔‘

کسے پتا ہے کہ ہزاروں سالوں بعد اگر مستقبل کے سامعین کو عصری مزاح نگاروں کی ویڈیوز ملیں تو وہ ان کے بارے میں کیا سوچیں گے۔

ہوسکتا ہے کہ وہ آج کی جدید ترین کامیڈی کو میسوپوٹیمیا کے پادنے کے مذاق کی طرح دیکھیں، جس میں کچھ باریک ثقافتی تفصیلات کا فقدان تو ہو، لیکن بنیادی چیزیں وہی ہوں جن کا وقت کچھ نہیں بگھاڑ سکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments