’مذہب ترپ کا پتہ‘: کیا سیاسی مقابلہ اب اس بنیاد پر ہوگا کون زیادہ سے زیادہ مذہب کا استعمال کرسکتا ہے؟

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور سڑکوں پر جلسے جلوسوں نے جہاں سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کیا ہے وہاں وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے مذہبی حوالے اور اصطلاحات بھی استعمال کیے جارہے ہیں، جس پر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سیاست میں ایک بار پھر مذہب کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ پہلی بار ہوا ہے یا اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے؟

کولمبیا یونیورسٹی میں اپنے ریسرچ پیپر ’پاکستان کے سیاسی ارتقاء میں مذہب کا کردار‘ میں بی ایم چنگاپا لکھتے ہیں کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا جو 11 اگست 1947 کو اپنی مطابقت کھو بیٹھا تھا، جب قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک عوامی بیان دیا کہ مذہب کسی بھی فرد کا ذاتی معاملہ ہے بعد میں احمدیہ مخالف فسادات، قرارداد مقاصد، بنیادی اصول کمیٹی کی رپورٹ اور 1962 کے آئین نے پاکستان کے سیاسی ارتقاء میں مذہب کے کردار کو اجاگر کیا۔

پچھتر سالوں سے مذہب کا استعمال

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے منسلک، تاریخ کے پروفیسر علی عثمان قاسمی کہتے ہیں کہ جب ریاست کی بنیاد اسی پر ہے کہ مسلم قومیت ایک علیحدہ سے شناخت رکھتی ہے اس کے تانے بانے چاہے تہذیبی کیوں نہ ہو لیکن کسی نہ کسی طرح مذہب سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اگرچہ بحث اس پر رہی اس کی وہ کونسی تشریح ہے جس کی بنیاد پر پاکستان بنا، کس بنیاد پر پاکستان کی آئین کی یا وفاق کی تشکیل کی جائے، کن معنوں میں اس کی تعبیر کی جائے۔

’پچھلے ستر پچھتر سالوں سے مذہب کا استعمال رہا ہے۔ وہ قرار دادا مقاصد سے شروع ہوجاتا ہے۔ آگے چلتا ہے تو پھر ایوب خان کے زمانے میں ایک نئی شکل اختیار کرلیتا ہے جس میں ایک ماڈرن اسلام کی سیاست چلتی ہے۔ اس میں ایوب خان خود کو کمال اتاترک کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ وہ ایک ماڈرن اسلام اور ملا کے اسلام کی جنگ بنا کر اپنے اقتدار کو مستحکم کرتے ہیں اور مذہب کو ریاست سازی اور قوم سازی میں شامل کرتے ہیں‘

بنگلہ دیش کی علیحدگی اور شدت پسندی

علی عثمان قاسمی کے مطابق بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک اور رجحان آتا ہے۔ پاکستان تو برصغیر میں مسلمانوں کے اپنے گھر کے طور پر بنایا گیا تھا بعد کی صورتحال میں مسلمانوں کی اکثریت بنگلہ دیش کی صورت میں الگ ہوگئی، اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد انڈیا میں ہے جس کے بعد یہ شناخت آئی کہ یہ اچھے مسلمانوں کا گھر ہے اور اس بیانیئے میں شدت آئی۔

’1971 کی جنگ میں جو ہار ہوئی اس نے سویلین اور فوج میں نفسیاتی بحران بھی ڈالا ہے، جس میں وہ سمجھتے تھے کہ اسلام کی دوری کی وجہ سے ذلت آمیز شکست ہوئی کیونکہ ہم نے مذہب کو چھوڑ دیا تھا۔ ان دنوں کے جنگی قیدیوں کی سوانح حیات پڑہیں تو وہ ان دنوں میں مذہب کا مطالعہ کر رہے تھے تو وہاں سے کافی شدت آئی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سنہ 71 کے بعد مذہب کا حوالہ اور اس کا کارڈ زیادہ مستحکم ہوا ہے، پھر چاہے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا ہو، جمعے کی چھٹی ہو، شراب پر پابندی ہو۔‘

بھٹو

ضیا الحق اور بھٹو

پاکستان میں منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی برطرفی اور جنرل ضیاالحق کے اقتدار کے قابض ہونے کے بعد اسلامی قوانین نافذ کیے گئے۔

ڈاکٹر پروفیسر محمد وسیم جن کی حال ہی میں ’پاکستان میں سیاسی تنازعات‘ کے عنوان سے کتاب آئی ہے کہتے ہیں کہ جنرل ضیاالحق کو ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت اور آئینی بالادستی کا سامنا تھا لہذا وہ مقابلے میں مذہب کو طاقت کے طور پر لائے۔ اس کے بعد قانون بنائے گئے اور مارشل لا اتھارٹی نے اس پر عمل کرایا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سن 1977 کے انتخابات دھاندلی کے باعث متنازع ہو گئے تھے اور ان کے خلاف تحریک شروع ہو گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے رکن مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ‘ اور لائن کٹ گئی’ میں لکھا ہے کہ خالص سیاسی اختلاف کی وجہ سے شروع ہونے والی یہ تحریک جلد ہی مذہبی رنگ اختیار کر گئی۔

مولانا کوثر نیازی کے مطابق یہ کریڈٹ مولانا شاہ احمد نورانی کی جمیعت علمائے پاکستان کو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس تحریک کا عنوان سیاسی نہ رہا بلکہ تحریک نظام مصطفیٰ ہو گیا۔

تحریک کی شدت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا تو اس موقع پر مولانا کوثر نیازی نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مشورہ دیا: ‘جس تحریک میں مذہب کا عنصر شامل ہو جائے، اس میں لوگ بے دریغ جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں’۔

انھوں نے اپنے مشورے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دھماکا خیز صورت حال کے باعث ضروری ہے کہ حکومت کچھ ایسے فیصلے کرے جن کی وجہ سے اسلام کے نعرے کی ملکیت پاکستان قومی اتحاد کے ہاتھ سے نکل کر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں چلی جائے۔

مولانا کوثر نیازی کے خیال میں سیاسی مقاصد کے لیے اس قسم کے اعلانات کی فوری ضرورت تھی لیکن یہ معاملہ کٹھائی میں ڈال دیا گیا۔ اس تاخیر کی وجہ انھوں نے اس طرح بیان کی ہے:’ بدقسمتی سے وزیر اعظم اب بھی اس مسئلے کو مولویالوجی کا ایک مسئلہ سمجھ رہے تھے’۔

ضیا الحق

لیکن مئی کے آتے آتے صورت حال بدل گئی۔ مولانا کوثر نیازی کے مطابق تحریک کی شدت میں اضافہ ہو گیا اور وزیر اعظم کے لیے سیاسی گنجائش محدود ہونے لگی۔ بدلے ہوئے حالات میں ' مولویالوجی ' کے سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو میں لچک بھی پیدا اور وہ اس ضمن میں کچھ ٹھوس اقدامات کی ضرورت بھی محسوس کرنے لگے۔ مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب میں اس تبدیلی کا ذکر اس طرح کیا ہے:

‘انھوں نے خود ہی اوقاف کو مرکز کی تحویل میں دینے سے مسلسل گریز کیا تھا اور اب اس تحریک کی شدت کو دیکھتے ہوئے وہ اس کے خواہاں تھے کہ میں صوبائی وزرائے اوقاف اور علما پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کر کے مولوی حضرات کو حکومت کے حق میں ہموار کروں’۔

بھٹو نے جن اقدامات کا اعلان کیا ان کے بارے میں مولانا کوثر نیازی نے’ اور لائن کے گئی’ میں لکھا ہے: ‘لاہور گورنر ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے انھوں نے شراب اور جوئے پر پابندی کا اعلان کر کردیا۔

مشرف کے روشن خیالی

نائن الیون کے بعد جب دنیا بھر میں تبدیلیاں آئی ، پاکستان کے پڑوس میں طالبان حکومت کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے حملہ کیا اور جہادی سرگرم ہوئے تو پرویز مشرف حکومت نے اس کو الگ رکھا۔

علی عثمان قاسمی کہتے ہیں کہ سنہ 2000 کے بعد پرویز مشرف کا روشنی خیالی کا نظریہ آیا ہے جس نے سنہ 71 کے بیانیے کو بریک لگایا اور نظریاتی ریاست کے بجائے ایک قومی ریاست بنانے کا عمل شروع ہوا۔

پرویز مشرف

’2008 اور 2013 کے انتخابات دیکھ لیں۔ زرداری اور میاں نواز شریف حکومتوں میں مذہب کارڈ استعمال نہیں ہوا۔ ایک سیاسی پختگی نظر آئی کہ پاکستان میں اس پر اتفاق رائے ہوچکا ہے کہ اب اس قسم کے نعرے بازی کی ضرورت پیش نہیں آرہی۔ لیکن جب ختم نبوت کے نعرے پر تحریک لبیک شروع ہوئی اس کے پیچھے مقصد یہ ہی تھا کہ جو رائٹ ونگ ووٹر ہے اس کو توڑا جائے اور نواز شریف کے خلاف استعمال کیا جائے۔‘

عمران خان مذہب کارڈ واپس لے آئے

جب سنہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ریاست کو ریاست مدینہ کی طرز پر بنانے کے اعلانات کیے اور اپنے تقاریر میں وہ اس کے حوالے بھی دیتے رہے۔

علی قاسمی کہتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے مذہب کو ایک نئے رنگ و انداز میں پاکستان کی سیاست میں کھڑا کر دیا ہے۔ اب کسی جماعت کے بس میں نہیں رہا اور عمران خان پر تنقید ہی کیوں نہ ہو ان کے مخالف بھی ریاست مدینہ کی اصطلاح استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے استاد حسن الامین کا کہنا ہے کہ عمران نے پہلے کچھ اور بیانیہ دیا، اس کے بعد مذہب کے استعمال کی طرف منتقل ہوگئے۔ ’یہ بہت گمراہ کن ہے، کیونکہ قلیل مدتی مفادات کے لیے اس کا استعمال کیا جارہا ہے۔‘

’بڑا جذباتی نوجوان طبقہ ہے اور بہت کم لوگ ہیں جو تنقیدی نکتہ نگاہ سے سوچتے ہیں۔ جب وہ ایسے نعرے سنتے ہیں تو اس سے وہ اشتعال میں آتے ہیں کہ اس وقت ہم امر بن معروف اور حق کی طرف جبکہ دوسری طرف شیطان اور باطل ہے اور بالاخر یہ بحث مباحثہ اسلام اور کفر کی طرف چلا جاتا ہے۔‘

عمران

حسن الامین کے مطابق مذہبی جماعتیں جب مذہب کارڈ استعمال کر رہی ہیں تو ان کا ایک ایجنڈہ ہے ان کا ایک منشور و پروگرام ہے جبکہ تحریک انصاف نہ اس کام کے لیے بنی ہے اور نہ ان کا مرکزی مقصد یہ ہے۔ یہ قلیل مدتی مفادات کے لیے لوگوں کو بھڑکایا جا رہا ہے جس کی شدت اور نقصان بہت زیادہ ہے۔

مذہب ترپ کا پتہ ہے

پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک کے دوران وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمان و دیگر مذہبی حوالے دے رہے ہیں۔ کیا اس کے آنے والے انتخابات میں بھی اثرات ہوسکتے ہیں جبکہ مذہب کی بنیاد پر تحریک لبیک گزشتہ انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرچکی ہے۔

علی قاسمی کا کہنا ہے کہ ہم دوبارہ اس راستے پر چل پڑے ہیں جس میں مقابلہ اس بنیاد پر ہوگا کون زیادہ سے زیادہ مذہب کا استعمال کرسکتا ہے آئندہ الیکشن میں بھی یہ بیانیہ حاوی رہے گا۔

محقق اور مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ مذہب ترپ کا پتہ ہے پھر چاہے کسی کے بھی ہاتھ میں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چھوڑتی ہے نا سیاسی جماعتیں چھوڑتی ہیں، جس کو آگے بڑھنا ہے اسے سیڑھی پر بناکر آگے بڑھتے ہیں۔

’پاکستان کی سیاست کی یہ فطرت ہے کیونکہ اس کے علاوہ تو عوام کو اور کچھ تو پیشکش نہیں کرسکتے سوائے مذہب کے جہاں پاکستان کا گیم کھیلا جاتا ہے وہاں مسلم لیگ نون بھی جے یو آئی اور تحریک انصاف پاکستان بھی مذہب کا استعمال کرتی ہے۔‘

پروفیسر وسیم احمد کہتے ہیں کہ جو تین چار سال سے ریاست مدینہ کی اصطلاح جاری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی مقبولیت کم ہوتی جارہی تھی اور اس اصطلاح کے استعمال سے اس میں کمی نہیں ہوئی۔

دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کارڈ کو استعمال کرکے مذہب کو پھیلا رہے ہیں لیکن کوئی بھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا لوگ سمجھتے ہیں یہ ان کے بقا کا مسئلہ ہے اس لیے وہ مذہب کا سہارا لے رہے ہیں۔

فضل

’مذہب کے حوالے سے جو تقاریر آرہی ہیں اس میں پالیسی کے حوالے سے کوئی چیز نظر نہیں آرہی، جب تک اس کی پیروی نہ کی جائے اور حکومت کوئی قانون نے پاس کرے اس وقت تک یہ بس نعرہ ہے۔ اس وقت اجتماعی ایشو نہیں ہے، جس سے سارے مسلمان متحرک اور سرگرم ہوجائیں صاف نظر آرہا ہے کہ سیاسی جھگڑا ہے اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ‘

حسن امین کہتے ہیں جو مقبول ووٹ ہے وہ مذہبی جماعتوں کو نہیں پڑتا ، ان کے پاس یقیناً سٹریٹ پاور ہے اور مذہب کا جذباتی استعمال ہوجاتا ہے لیکن پوری بحث اس طرف منتقل ہوگئی ہے ایسا خیال درست نہیں۔

’جس طرح بھٹو یا اردوگان نے کیا، ہوسکتا ہے کہ انھیں (عمران خان ) اپنے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوگئی ہو کہ میں اردگان بننے کی کوشش کروں جس نے مغرب کے خلاف ترکی میں خلافت یا اس طرح کی اصطلاحات استعمال کیں۔ میرا نہیں خیال ہے کہ اس کی پاپولر اپیل ہے جو ووٹ میں ڈھل جائے۔‘

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے صحافیوں اور دانش وروں کے خیال میں سیاسی سرگرمیوں میں دینی اصطلاحات کے استعمال یہ کوشش ماضی کی روایت کا تسلسل ہی ہے۔ کیا اس بار یہ کوشش ماضی سے مختلف رہے گی؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments