مظلوم کون، عورت یا مرد؟


اس سال بھی عورت مارچ کا موسم گزر گیا، ان دنوں اس موضوع پر لکھنے کا بڑا من تھا مگر وقت اور حالات کے پیش نظر لکھ نہ پایا، اتفاق سے آج پھر (ہم سب) پر ایک خاتون کی گلوں شکووں سے بھرپور تحریر دیکھی تو لکھنے بیٹھ گیا۔ دیر سے لکھنے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مزید کچھ مشاہدات کا بھی موقع مل گیا، جیسا کہ عورت مارچ کے بعد بھی ہماری کچھ لکھاری خواتین نے جی بھر کر کے دل کی بھڑاس نکالی اور مردوں کے خلاف زہر اگلا، انہیں پڑھا اور ان کے خیالات کو مزید جانا۔

سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز دیکھنے کو ملیں جن کا مختصر خلاصہ یوں کہ ایک اینکر لڑکا ایک خاتون سے سڑکوں پر احتجاج کا سبب پوچھتا ہے تو محترمہ سات دن کی بچی کے قتل کا حوالہ دے کر کہتی ہیں کہ جہاں عورت کو جینے کا حق نہیں وہاں آواز اٹھانے نکلی ہیں (بائیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں کسی ایک شخص نے یہ غلیظ حرکت کی) مگر وہیں ایک عورت یہ بھی بتا رہی تھی کہ پاکستان کی آبادی میں عورتوں کی آبادی کا تناسب پچاس فیصد ہے (حیرت ہے ابھی جینے کا حق نہیں)۔ ایک اور ویڈیو میں ”سکن ٹائٹ جینز اور سلیو لیس شرٹ میں ملبوس“ لڑکی کہہ رہی تھی کہ ہم سڑکوں پہ نکلی ہیں وہ حقوق مانگنے جو ”اسلام نے عورت کو دیے ہیں“ (اسلام کے دیے حقوق کا علم ہے فرائض کا نہیں)۔

اب گزارش یہ ہے کہ اس تحریر کو ٹھنڈے دماغ اور انصاف کی رو سے پڑھنا اور تجزیہ کرنا کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ ایک مشہور محاورہ ہے کہ ”ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے“۔ اس بات پہ خواتین متفق بھی ہیں اور خوش بھی کیونکہ مرد کی کامیابی کا کریڈٹ عورت کو ملتا ہے، لیکن اسی فارمولے کے تحت یہ بات بھی منطقی ہے کہ ناکام مرد کے پیچھے بھی عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ کیونکہ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اگر مرد کامیاب عورت کی وجہ سے ہے تو ناکامی کا ذمہ دار بھی اسے اکیلے نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

اب ایک نظر حقائق پر بھی کہ عورت کی مظلومیت کا رونا کہیں چور مچائے شور کے مترادف تو نہیں؟ کیونکہ میں بھی اسی معاشرے میں پلا بڑھا ہوں، اپنے گھر سے لے کر گرد و پیش کے ماحول کو قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے، شادی شدہ لائف کے بھی آٹھ دس سال گزار لئے اور نتیجہ یہ نکالا کہ ہر گھر میں ہوتا وہی ہے جو منظور نسواں ہوتا ہے، اور بیوی سے ڈرنا، رن مریدی گھر گھر کی کہانی ہے۔ پھر بھی کچھ خواتین کے لئے پدر سری نظام بہت بڑا مسئلہ ہے اور ان کی خواہش ہے مادر سری نظام۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گھر میں بہو لانے کی بجائے بیٹا رخصت کرنا کیا عورت کے لئے ہی قابل قبول ہو گا جو بیٹے کو رن مرید ہونے کا طعنہ دیتی ہیں؟ ذرا غور فرمائیں کہ ساس بہو کا جھگڑا مشہور ہے یا سسر بہو کا؟ نند بھاوج کا جھگڑا مشہور ہے یا دیور بھابی کا؟ چاند جیسی بہو سسر کو چاہیے ہوتی ہے یا ساس کو؟ بیٹے کے لئے بہو دیکھنے جائیں تو لڑکی میں سے کیڑے مرد نکالتے ہیں یا عورتیں؟ بہو کو جہیز نہ ملنے کے طعنے سسر دیتا ہے یا ساس، نندیں دیتی ہیں یا دیور؟

بیٹے کو بیٹی پر زیادہ ترجیح باپ دیتا ہے یا ماں؟ یہ کہانی تفصیل طلب ہے، مختصراً اتنا ہی کہوں گا کہ عورت خود عورت ہی حقوق حاصل کر لے تو یوں سڑکوں پہ آ کے مرد سے حقوق مانگنے کی زحمت نہ کرنی پڑے کیونکہ کہتے ہیں کہ ہر انسان کی پہلی درسگاہ ماں ایک عورت ہی ہوتی ہے اور اس مرد کی تربیت اسی عورت کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے، اور اگر عورت چاہے تو بیٹے کی ایسی تربیت کرے کہ مستقبل کا ایسا مرد بنے کہ کسی کی بھی بیٹی کو کوئی دکھ نہ دے۔ اس کے برعکس یہ بات سب جانتے ہیں کہ عورت جو چاہتی ہے کر گزرتی ہے تو اگر عورت کو مرد سے اتنی نفرت ہے تو بیٹا پیدا ہی نہ کریں۔

رہی بات عورت مارچ کے سلوگنز کی تو بچپن سے آج تک میرے مشاہدے کے مطابق ماں بیٹے کے لئے، بیٹی باپ کے لئے، بہن بھائی کے لئے، بیوی شوہر کے لئے کھانا دینا فرض اور محبت کی علامت سمجھتی ہیں تو پھر یہ کس رشتے والی خواتین ہیں جو سڑک پہ آ کے اور کس سے کہتی ہیں کہ اپنا کھانا خود پکاؤ؟ یوں سڑکوں پر آ کر نعرے بازی کی بجائے گھر میں خود ہی باپ، بھائی اور شوہر کو انکار کر دو کہ ہم نہیں کر سکتی یہ کام تمہارے لئے۔

الغرض میں تو اتنا ہی کہوں گا کہ یوں سڑکوں پہ آ کر مرد کے خلاف احتجاج /مارچ عورت اور مرد کے حسین تعلق میں دراڑ ڈالنے کی سازش ہے۔ کیونکہ جب تک تصویر کے دونوں پہلو نہ دیکھے جائیں تو کسی بھی ایک فریق کو مورد الزام ٹھہراتے رہنا دانائی نہیں، اور جی ہی جی میں کڑھتے رہنا ہڈیوں کا جلاتا ہے، کیونکہ مرد کے منفی پہلو دیکھ دیکھ کر کڑھتی رہیں گی تو حاصل وہی کچھ ہے جو ہو چکا اور اوپر والی ذات نے دے دیا۔ بہتر یہی ہے کہ مرد کی ذات کے دوسرے پہلو کو ذہن میں لا کر دل کو تسلی دے لیں کہ مرد باپ کی صورت میں بیٹی پر جان نچھاور کرتا ہے، بھائی بہن کی عزت کے لئے گھر میں بٹھا کر پردیس کا نوالہ کھاتا اور تعلیم دلواتا اور شادی کرتا ہے، اور یہ بات یاد رکھیں کہ بیوی اپنی سہیلیوں میں شوہر کے ”کردار“ پر اکثر بات کر کے اسے گندا کرتی ہے، مگر ایک شوہر اپنے دوستوں میں بیوی کے کردار کو کبھی ڈسکس نہیں کرتا بلکہ اگر کچھ غلط بھی ہو تو اپنے اندر پی جائے گا مگر اس کی عزت نہیں اچھالتا۔

کہنے کو بہت کچھ ہے مگر ایک تحریر میں سب کچھ سمیٹا نہیں جا سکتا کیونکہ میں مرد اور عورت کے تعلقات، شادی، طلاق اور اس کی وجوہات، خاندانی نظام وغیرہ پر ایک مفصل کتاب لکھ چکا ہوں۔ اس لیے آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ یوں ایک دوسرے سے مقابلہ بازی کی فضا پیدا کر کے یوں بگاڑ نہ پیدا کریں کیونکہ مرد عورت کے بغیر ادھورا ہے اور عورت مرد کے بغیر ادھوری۔ اور یہ جو سڑکوں پر آ کر عورتوں کے حقوق کے لئے نعرے مارتی ہیں بالکل ایسا ہی ہے جیسے سیاستدان جلسوں میں غریبوں کے حق میں بولتے ہیں۔

دراصل سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے والی وہ عورتیں ہیں جنہوں نے گھر میں اپنے لئے کبھی کھانا خود نہیں بنایا، جن کی اپنی عمریں ماڈلنگ اور اداکاری کرتے گزریں، بچوں کو سکول بھیجنے کے وقت سرخی پاؤڈر لگا کر ٹی وی چینلز پر آ کر گھرداری کے بھاشن دے رہی ہوتی ہیں۔ تو قابل احترام خواتین سے گزارش ہے کہ مرد مخالف ذہنیت سے چھٹکارا پا کر اپنے بیٹوں کی ایسی تربیت کر دیں کہ آنے والے نسل کی بیٹیوں کو مرد سے یوں سڑکوں پر آ کر حقوق نہ مانگنے پڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments