پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی نورا کشتی ختم، شکریہ عمران خان
یہ دہشتگرد ہیں۔ انہوں نے روشنیوں کے شہر کراچی کو تباہ کر کے کراچی کو تاریکیوں میں بری طرح دھکیل دیا تھا۔ یہ سندھ دھرتی کے دشمن اور ہم سندھ کے محافظ ہیں یہ سندھ کو توڑنا چاہتے ہیں لیکن ہم ان کے ان ارادوں کو مٹی میں ملا دیں گے یہ اقلیت میں ہیں، انہیں کراچی کے لوگوں نے گزشتہ انتخابات میں یکسر مسترد کر دیا ہے یہ ٹھگ ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ سب باتیں میں کیوں اور کن کے لیے کہ رہا ہوں؟ تو جناب یہ تمام فرمودات متحدہ قومی موومنٹ کے نئے سیاسی اتحادی پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کے ہیں وہ بھی کسی اور کے بارے میں نہیں بلکہ ان کی اپنی نئی سیاسی دوست اور پرانی حریف متحدہ قومی موومنٹ کے متعلق۔ جو کہ اب عمران خان کو شکست دینے کے لیے حریف سے ایک دوسرے کے حلیف بننے تک کا سفر کر چکی ہیں۔
جبکہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے متعلق کیا کچھ کہتی رہی ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہر قسم کا الزام ایم کیو ایم پیپلز پارٹی پر لگاتی رہی ہے اور دنیا کی ہر برائی کو ثواب دارین سمجھ کر پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈالتی رہی ہے۔
ایم کیو ایم نے لسانیت کی بنیاد پر متعصبانہ سیاست کو پروان چڑھا کر اردو اور سندھی بولنے والے سندھیوں کے درمیان نفرت کے خطرناک بیج بوئے۔ کراچی میں خون کی خطرناک آگ لگا کر کروڑوں شہریوں کے سکون اور چین کو تباہ کر دیا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے کرتوتوں پر نظر ڈالیں تو سندھ میں ان کی 15 سالہ بدترین حکمرانی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
پیپلز پارٹی کے وڈیروں نے سندھ کے ہزاروں اسکولوں کو کہیں اپنی ذاتی اوطاقوں میں تبدیل کر دیا ہے تو کہیں اسکولوں کی عمارتوں میں اپنے بھینسوں کے باڑے بنا دیے ہیں اور کہیں گدھے بندھے ہوئے ہیں۔ الغرض سندھ کے لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر تعلیم سے محروم ہیں۔ صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے سندھ کے صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے فرمایا کہ سندھ میں ہم نے 5 ہزار اسکولز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کا مطلب واضح ہے کہ پیپلز پارٹی جان بوجھ کر نئی نسل کو تعلیم سے محروم کرنا چاہتی ہے تا کہ آئندہ نسل جاہل ہو اور اپنے حقوق کے متعلق بے خبر ہو کر سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کے وڈیروں کی بادشاہت کے تحت ان کے اچھے بچے بن کر رہیں۔ ان کی غلامی کریں۔ انہیں ووٹ دے کر ان کے سروں پر بار بار سندھ کی حکمرانی کا تاج رکھیں۔
سندھ کے ہسپتالوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں کے لوگوں کے حالات قابل رحم ہیں جنہیں بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم نے خواتین کو اپنے چاند جیسے بچوں کو ان کی جھولیوں میں علاج نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھا ہے۔ غریب لوگوں کی میتوں کو ایمبولینسز کے بجائے گدھا گاڑیوں پر اٹھایا جاتا ہے کیونکہ سرکاری ایمبولینسز بھی بھاری کرایہ وصول کرتی ہیں اور لوگوں کو اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ اپنے پیاروں کی میتوں کو عزت کے ساتھ ایمبولینس میں لے کر جائیں۔
سندھ کے ہاریوں مزدوروں محنت کشوں کی غربت کا یہ عالم ہے۔ سندھ کے تھر پر لگے ہوئے کون سے زخم کا تذکرہ کریں۔ تھر کے بچوں اور خواتین کی اموات دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان جوگیوں اور سانگیوں کی سانسوں کی روانی کو آسان بنانے کے بجائے سندھ کے عوام کے پیسوں کی بوریاں بھر کر سندھ ہاؤس اسلام آباد میں ایم این ایز کو خرید کر کے اپنے ساتھ ملایا جا رہا ہے تاکہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے اتارا جائے۔ تھر کے مسکین آدمی بھوکے پیاسے مر رہے ہیں اور تین سال قبل کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بلاول ہاؤس کے کتے بھی سندھ کے عوامی خزانہ کے پیسوں سے گوشت کھا کر عیاشی کرتے ہیں۔ تھر کا مقدمہ کون سنے گا؟ یہاں وہ ہی منصف ہیں جو مجرم ہیں۔ کوئی شنوائی نہیں ہے۔
سندھ خواتین کے لئے مقتل گاہ بن چکا ہے۔ غیرت کے نام پر گزشتہ ایک سال میں 100 سے زیادہ عورتوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن کے کیسز دبا دیے گئے۔ کیا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ اس جدید اور بدلے ہوئے ترقی یافتہ دور میں معصوم بچیوں کو خون بہا (قتل کے جرمانہ) میں ونی کیا جاتا ہے؟ جی ہاں! سندھ میں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مختلف دیہی علاقوں کے وڈیرے آج بھی اپنے ڈیروں پر جرگے کرتے ہیں اور جرگہ میں جس پر کوئی جرم ثابت ہوتا ہے اس مجرم کو معاوضہ میں اپنی بچیاں مدعی فریق کے حوالے کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔
مجرم اس سزا پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ وڈیروں نے ریاست کے اندر اپنی ریاستیں قائم کی ہوئی ہیں اور حکومت کی مکمل سرپرستی کے بغیر یہ اجارہ داری مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ سندھ میں پولیس کا نظام تو انتہائی ظالمانہ ہے۔ جھوٹے مقدمات داخل کر کے لوگوں کے پورے خاندانوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ آئے روز چند ٹکوں کے عوض قتل کے مقدمات کا سودا کر کے لوگوں کے ناحق خون کا سودا کر دیا جاتا ہے۔ یہ یہاں معمول کی بات ہے۔ سچ بولنے والے صحافیوں کو قتل کروا دیا جاتا ہے صحافی عزیز میمن اور صحافی اجے لالوانی اس پریکٹس کی تازہ مثالیں ہیں۔ یہ سب جمہوریت کی چیمپیئن پیپلز پارٹی کی مہربانیاں ہیں۔ بہرحال کون کون سے محکمہ کی بات کی جائے۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
اب آتے ہیں اصل عنوان کی طرف۔ سوال یہ ہے کہ جب سندھ میں لوگوں کی زندگیاں اتنی مشکل اور بامشقت ہیں تو پھر لوگ بار بار پیپلز پارٹی کو ہی کیوں ووٹ دیتے ہیں لوگوں کا جینا اجیرن بنانے والوں کو انتخابات میں مسترد کیوں نہیں کر دیتے؟ اس سوال کے بہت سارے جواب ہوسکتے ہیں۔ وڈیرہ شاہی نظام کے اندر ووٹ کے حق کے آزادانہ استعمال میں مختلف رکاوٹوں کی بات کریں یا لوگوں کی معاشی مجبوریوں کی یا پھر ذوالفقار بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ لوگوں (جو یہ نہیں جانتے کہ اب پیپلز پارٹی بھٹو سے منتقل ہو کر زرداری کی پارٹی بن چکی ہے ) کی والہانہ محبت کی۔
پیپلز پارٹی کو زیادہ ووٹ ملنے کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ان میں سے ہم ایک نہایت اہم وجہ سندھ کارڈ پر بات کریں گے جو ہمارے عنوان کے ساتھ منسلک ہے۔ پیپلز پارٹی کو جب عوامی حلقوں میں نفرت و بغاوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ لوگ اب بیزار ہوچکے ہیں اب انہیں لوگ ووٹ نہیں دیں گے تب ان کے پاس لوگوں کو سندھ کارڈ کے ذریعے جذباتی کر کے ان کے جذبات سے کھیلنے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔
پھر پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی متعصبانہ سیاست کا فائدہ پورے سندھ میں اٹھاتی ہے اور سندھ کے سادہ لوح مخلص لوگ اپنی دھرتی کی مٹی کے ساتھ بے پناہ پیار کرنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی شاطرانہ سیاست سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی یہ تاثر دے کر ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی ہار گئی تو ایم کیو ایم والے کراچی کو سندھ سے الگ کر کے نیا صوبہ بنا کر سندھ دھرتی کو تقسیم کر دیں گے اس لیے سندھ کو تقسیم ہونے سے بچانے کا واحد راستہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر کامیاب کرنا ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی ہی سندھ کی محافظ پارٹی اور سندھ دشمن ایم کیو ایم کی راہ میں واحد رکاوٹ ہے۔
یعنی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنی کوئی کارکردگی دکھا کر اس کی بنیاد پر الیکشن کمپین چلانے کے بجائے دونوں پارٹیاں تفریق اور دو مستقل آبادیوں کی درمیان دراڑیں ڈالنے کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی عادی بن چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی حلقوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ پیپلز پارٹی جعلی قوم پرستی دکھا کر ووٹ حاصل کرتی ہے دراصل سندھ کی تباہی کی ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے لیکن پھر بھی لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر موجود تھا کہ ایم کیو ایم کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے۔
اب جب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے اور عمران خان سے ہر صورت میں جان چھڑانے کے لیے محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہو کر بندہ اور بندہ نواز میں تفریق مٹا چکے ہیں یعنی آصف زرداری نے ایم کیو ایم کے تمام تر مطالبات کو من و عن تسلیم کر لیا ہے تو سندھ کے عوام میں ایک اشتعال پھیل گیا ہے۔ لوگ سمجھ گئے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں نے واقعی صرف انتخابات میں کامیابی کے حصول کے لیے اپنے اپنے علاقوں میں قومی اور لسانی کارڈ کھیل کر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
ایک دوسرے کی کٹر دشمن سمجھی جانے والی اور ایک دوسرے کے خلاف مخصوص بیانیہ بنا کر لوگوں سے ووٹ لینے والی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد سے لوگوں کے ذہن کھلے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کارڈ کھیل کر پورے سندھ کو تباہ کیا ہے اور ایم کیو ایم نے مہاجر کارڈ کھیل کر نفرت کی سیاست کر کے سندھ کی دل کراچی شہر کو تباہ کیا ہے۔ ان دونوں کو عوام کے مسائل کے حل سے کبھی کوئی سروکار تھا ہی نہیں۔ بلکہ یہ بہروپیے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے اردو اور سندھی بولنے والے سندھی بھائیوں میں نفرت کے بیج بو رہے تھے۔ اردو اور سندھی بولنے والوں کے مسائل اور ان کے مفاد تو ایک ہیں لیکن ان کے مسائل کو کبھی حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
بغض عمران خان میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے۔ اس کے تحت تقریباً آدھے سندھ کی حکمرانی ایم کیو ایم کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد شاید ان دونوں پارٹیوں نے جعلی قوم پرستی اور لسانیت پرستی کا کارڈ کھو دیا ہے اور لوگوں کو پیپلز پارٹی اور کیو ایم کی نورا کشتی سمجھ میں آ گئی ہے۔ اور بلاشبہ اتنا بڑا معمہ حل کرنے کے پیچھے آصف زرداری کی عمران بیزاری اور بغض عمران کا مرض ہے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام لیکن ان دونوں پارٹیوں کی اداکاری کو بے پردہ کرنے میں غیر ارادتاً اہم کردار ادا کرنے پر سندھ کے عوام کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ تو بنتا ہے۔ شکریہ عمران خان۔
- جمہوریت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے - 11/03/2023
- قہر میں ڈوبے دیس کے باسی ”زین شاہ“ اور ان کے ساتھیوں کا سفر - 27/02/2023
- انصاف سے محروم کالے کوٹ والا - 21/01/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).