تقدیر کا انتقام (سچی کہانی)۔


یہ ستر کی دہائی کی بات ہے، ان دنوں ٹیلی ویژن بلیک اینڈ وائٹ اور لوگ بڑے رنگین ہوا کرتے تھے۔ میل جول اور دوستیاں نبھانا اپنے عروج پر تھا۔

ہم ایک قدرے متمول لوگوں کے علاقے میں رہتے تھے، جہاں عموماً لوگ خوشحال، اور آسودہ زندگی گزار رہے تھے، لوگوں کے ایک دوسرے سے بہت ہی اچھے تعلقات تھے، کسی کے گھر جو کوئی اچھا سالن بن جائے یا کوئی سوغات آ جائے تو بنا ہمسائیوں کے گھر بھیجے بنا لوگ کھاتے نہ تھے، رمضان میں روز کسی نہ کسی ہمسائے کے گھر افطاری بھیجنا اور لوگوں کے گھروں سے افطاری آنا معمول کی بات تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بچے اپنے عید کے کپڑے اور جوتے دوستوں کو دکھاتے نہ تھکتے تھے، غرض راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا تھا، ہمارے گھر کے سامنے محلے کے سب سے خوشحال لوگ رہتے تھے۔

ان کے گھر کی خاص بات ان کے صدر دروازے پر لگی ایک لکڑی کی تختی تھی جس پر بالترتیب تین بھائیوں کے نام لکھے تھے، سب سے بڑے بھائی کا نام سب سے اوپر لکھا تھا، اور وہ گھرانے کے سربراہ بھی تھے۔ وہ بڑے قسمت کے دھنی تھے، اللہ نے انہیں آٹھ بیٹوں سے نوازا تھا، ان کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ باقی دو چھوٹے بھائی پیشے کے اعتبار سے انجینئرز تھے، گھر میں دولت کی خوب ریل پیل تھی، آسودہ حالی ان کی ہر ہر بات سے ظاہر ہوتی تھی، لہذا بچے بھی ذرا کچھ مغرور اور نخریلے تھے، آسانی سے وہ ہر ایک سے دوستی بھی نہیں کرتے تھے۔

دونوں چچا جو ساتھ ہی رہتے تھے بڑے منکسر المزاج اور رحمدل تھے وہ ہر شام اپنے بھتیجوں کو پڑھاتے تھے اور قریب کے گھرانوں کے بچوں کو بھی بلایا کرتے تھے کہ وہ بھی بلا معاوضہ آ کر ان سے پڑھ لیا کریں۔ دولت کی ریل پیل نے اس گھرانے کو جو سب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ لڑکے تعلیم کی طرف زیادہ راغب نہ ہو سکے، بس چچا کے ڈر سے پڑھنے بیٹھ جایا کرتے تھے مگر وہ اسکول میں کچھ اچھے طالب علم نہیں مانے جاتے تھے۔

ان کے والد جو گھر کے سربراہ بھی تھے ان کا یہ حال تھا کہ مٹی کو ہاتھ لگاتے تو سونا بن جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب فارمی مرغی اور فارمی انڈے عام نہیں ہوئے تھے۔ ایسے میں انہوں نے پی آئی اے شیور سے چوزے لا کر اپنے گھر کی چھت پر ایک پولٹری فارم بنایا، جو شروع میں تو لگا کہ ناکام ہو جائے گا مگر پھر وہ ایسا چلا کہ کامیابی اور پیسہ جیسے ہاتھ باندھے اجازت کے منتظر رہتے تھے، ایک کے بعد ایک کاروبار بڑھتا گیا، اور حالات بدلتے گئے، نخرے اور غرور بھی ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔

دونوں چچا ابھی تک غیر شادی شدہ ہی تھے۔ اس گھرانے میں جو پہلی دراڑ پڑی وہ یوں کہ جانے کس اختلاف کی وجہ سے بڑے بھائی نے دونوں چھوٹے بھائیوں کو گھر سے نکال دیا۔ ان دونوں نے بہت واویلا کیا، التجائیں کیں مگر، بات نہ بن سکی اور انہیں گھر چھوڑ کر جاتے ہی بنی۔ اب وہ کبھی کبھی ملنے آتے تھے اور بڑے بھائی سے معافی تلافی کی کوشش کرتے تھے مگر ان کی بھابھی بات بننے نہیں دیتی تھیں، لہذا ہر بار ناکام و نامراد لوٹ جاتے تھے۔

وقت بڑی تیزی سے گزر رہا تھا، لڑکے بڑے ہو رہے تھے۔ لڑکے تعلیم کے میدان میں بھلے ہی زیادہ کامیاب نہ تھے مگر باپ سے کاروبار کی زبردست صلاحیت ورثے میں ملی تھی، آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے سارے بھائی والد کے الگ الگ کاروبار سے منسلک ہوتے چلے گئے۔ اب وہ اور باغی اور خودسر ہو گئے تھے چچاؤں کو تو وہ اب گھاس بھی نہیں ڈالتے تھے، گو کہ چچا بھی کم نہ تھے وہ بھی گورنمنٹ ملازم تھے اور بہت اچھے عہدوں پر فائز تھے۔ مگر ان پر دولت کا جادو تو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

اب تک یہ سارے بھائی ایک ہی چھت تلے رہتے تھے۔ اور فائدہ نقصان سب کا سانجھا تھا۔ ایسے میں والد کا انتقال ہو گیا، مگر اب تک بڑے بھائی اچھے خاصے تجربہ کار کاروباری ہوچکے تھے تو چھوٹے بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر کام آگے بڑھا دیا، ابھی والدہ حیات تھیں اور سارے بھائی ایک ہی بڑے سے گھر میں مل جل کر رہتے تھے۔ سب سے بڑے بھائی کی شادی ہوئی تو خوب خوشیاں منائی گئیں، بھابھی کے بڑے ناز اٹھائے گئے۔ مگر یہ سب کچھ اس وقت تک رہا جب تک ماں حیات تھیں، والدہ کے انتقال تک آٹھ میں سے پانچ بھائیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور گھر کا ماحول کچھ بدل گیا تھا، اب وہ پہلے والی چاہ اور یاری بھی نہیں رہ گئی تھی، گاہے گاہے کسی نہ کسی بات پر بھائیوں میں تلخ کلامی ہونے لگی اور کبھی بیوی اور کبھی بچوں کو لے کر اختلافات ہونے لگے، والدہ کے انتقال کے بعد سب سے بڑے بھائی نے یہ فیصلہ کیا کے الگ گھر لے کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہاں شفٹ ہو گیا۔

اسی طرح کچھ اور بھائی بھی الگ گھروں میں شفٹ ہو گئے۔ رشتوں میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب سب سے بڑا بھائی دل کے عارضے میں مبتلا ء ہو کر انتقال کر گیا، اور جب اس کی بیوہ نے جائیداد میں سے حصہ مانگا تو اس کو پہلے تو ٹال دیا گیا اور بعد میں منع ہی کر دیا۔ شومئی قسمت کہ حادثاتی طور پر ایک منجھلے بھائی کا بھی انتقال ہو گیا، اب اس کے اہل خانہ کی باری تھی، ان کو بھی ٹال دیا گیا، اس دوران اب جو سب سے بڑا تھا نمبر دو اس نے ساری جائیداد پر بالکل اسی طرح قبضہ کر لیا تھا جیسے کے ان کے والد نے کیا تھا، تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی پہلے تین بھائی تھے اب آٹھ تھے۔

اب باقی بھائیوں کو بھی معاملے کی سنگینی کا احساس ہو گیا تھا اور وہ دھیرے دھیرے اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے بات کرنے لگے تھے جس پر اکثر انہیں پیار بھری بھپکی دے کر ٹال دیا جاتا تھا۔ اسی طرح کچھ اور وقت گزر گیا تو قبضہ گیر بھائی نے چند چھوٹے بھائیوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے ساتھ کر لیا اور جو بھائی اپنے حق کے لئے آواز اٹھا رہے تھے ان کے خلاف ایک محاذ سا بنا لیا۔ اب سگے بھائی دو دھڑوں میں بٹ چکے تھے اور ساری مروت بھائی بندی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔

کچھ اور وقت گزرا تو بھائیوں نے مل کر مشورہ کیا کہ یہ معاملہ تو اب دشمنی تک آن پہنچا ہے اور بڑا بھائی کسی قسم کی رعایت کرنے کو تیار ہی نہیں۔ آخرکار متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ قانون کا سہارا لیا جائے۔ ایک کیس داخل کیا گیا، اور بھائیوں کی بھائیوں کے خلاف عدالت میں پیشیاں ہونے لگیں اس نے جو رہی سہی کسر تھی وہ بھی پوری کردی، اب تو کھلی دشمنی تھی۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس جو پیسے پر قابض تھا وہ قانون کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہونے لگا۔

نتیجتاً باقی بھائیوں کے کاروبار متاثر ہونے لگے، ان کے حالات کورٹ کچہریوں کے چکر لگا لگا کر اور وکیلوں کی بھاری فیس بھر بھر کر بالکل دگرگوں ہو گئے۔ وہ جو کبھی شہزادوں کی سی شان بان والے تھے اب، چھوٹے چھوٹے کرائے کے فلیٹس میں آ بسے۔ ان کے بچے تعلیم اور سہولیات کی شدید ترین کمی کا شکار ہو گئے۔ آج ہر بھائی دوسرے بھائی سے نالاں اور متنفر نظر آتا ہے، ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ شدید مالی پریشانی کا شکار ہے۔

جو لوگ ان کو قریب سے جانتے ہیں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ آسودہ ترین گھرانے کے لوگ اتنے ناآسودہ و کسم پرسی کی حالت تک پہنچ جائیں گے۔ شاید یہ ان کے چچاؤں کی کوئی آہ تھی یا آسمان والے کا فیصلہ کے جو کچھ ان کے گھر میں چند دہائی پہلے ان سے بڑوں کے ساتھ ہوا تھا بالکل ویسا ہی آج ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments