عمران خان اور سپورٹس مین سپرٹ


کھیلوں میں سپورٹس مین سپرٹ یا فیئر پلے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ خاص طور پر کرکٹ جیسے مقبول کھیل میں اکثر کھلاڑی سپورٹس مین سپرٹ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ بعض اوقات ایمپائر کے آؤٹ قرار دینے سے پہلے ہی کریز چھوڑ دی جاتی ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز اوپنر ماجد خان جو عمران خان کے قریبی عزیز ہیں، کا نام بھی ایسے کھلاڑیوں میں شامل ہے۔ جنہیں بعض اوقات شک کا فائدہ بھی ملا۔ مگر انہوں نے آؤٹ قرار نہ دیے جانے کے باوجود بھی پویلین کی راہ لی۔ بعض کھلاڑی آؤٹ ہونے کے باوجود بھی کریز پر ڈٹے رہتے۔ یہ اس دور کی بات ہے۔ جب تھرڈ ایمپائر کا آپشن دستیاب نہیں تھا۔ بعض اوقات ایمپائر سے بھی فیصلہ کرنے میں غلطی ہو جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے بعض بیٹسمین فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے۔

وزیراعظم عمران خان جب قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ اس دور میں میزبان ملک کے ایمپائر میچ سپروائز کراتے تھے۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات تنازعات بھی جنم لیتے۔ لہذا اس صورت حال سے بچنے کے لیے نیوٹرل امپائرنگ کی ضرورت محسوس کی گئی۔ خان صاحب کرکٹ میں نیوٹرل امپائرنگ متعارف کرانے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔

بدقسمتی سے مگر سیاست میں انہوں نے اس فلسفے کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے ایمپائر کو ساتھ ملا کر کھیلنے کو ترجیح دی۔ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر متعارف کرانے کا کریڈٹ لینے والا اپنے بل بوتے پر سیاست میں کامیاب کیوں نہ ہو سکا۔ یہ انتہائی اہم سوال ہے۔

درحقیقت جب انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ تو عوام کی اکثریت نے خان صاحب کو بطور سیاستدان قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر ان کے کان میں کسی نے یہ بات ڈال دی۔ اگر اقتدار کے ایوان تک رسائی حاصل کرنی ہے۔ تو اس کا واحد راستہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ پر بیعت ہے۔ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔ انہوں نے فٹ طاقت کے مراکز کی طرف رجوع کر لیا۔ ”انہیں“ بھی ایک پپٹ حکمران کی ضرورت تھی۔ لہذا ایک ہائبرڈ نظام ترتیب دیا گیا۔ جو نومبر 2021 میں زمین بوس ہو گیا۔

خان صاحب کی دوسری بڑی سیاسی غلطی جارحانہ انداز سیاست تھا۔ جس کی گنجائش پارلیمانی سسٹم میں بالکل نہیں ہوتی۔ کیوں کہ پارلیمانی جمہوریت میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو باہمی مشورے کے ساتھ بعض اہم نوعیت کے امور نمٹانا پڑتے ہیں۔ مگر عمران خان ایک ضدی بچے کی طرح اپنے موقف پر اڑے رہے۔ اور اپوزیشن لیڈر کے ساتھ بیٹھنے سے ہمیشہ انکار کیا۔ جس کو آئین سے انحراف کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان اگر اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرتے۔ تو ان کو اس کا سیاسی فائدہ پہنچتا۔ لیکن انہوں نے اس بات کی کبھی ضرورت ہی محسوس ہی نہیں کی۔ اور میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے رہے۔

اب وہ سیاسی تنہائی کے سفر پر روانہ ہو چکے ہیں۔ یہ ان کی خام خیالی ہے۔ کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وہ زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئیں گے۔ کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر عوام میں گئے۔ تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ کیوں کہ اپوزیشن کی سیاست جیل اور عدالتوں کی سیاست ہے۔ اپوزیشن کی سیاست کانٹوں کی سیج ہے۔ جو عمران خان کے مزاج سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی۔

اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر سیاست کرنے کا نقصان خان صاحب کو مستقبل میں کافی عرصے تک برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر وہ مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ پر انحصار نہ کرتے۔ اور محنت کے ساتھ ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے۔ تو اس وقت ان کی کشتی منجدھار میں نہ پھنسی ہوئی ہوتی۔

انہوں نے صرف پیپر ورک، شہد، بھنگ جیسے تجربات اور اجلاسوں پر ہی اکتفا کیا۔ ایک مشہور صحافی کا کہنا ہے۔ خان صاحب ہیلی کاپٹر پر بنی گالہ سے دفتر اڑان بھرتے اور اسی طرح ان کی واپسی ہوتی۔ انہوں نے کبھی بھی عوام کی سیاست نہیں کی۔ وہ اپنے آپ کو قوم کا باپ کہتے ہیں۔ مگر جب قوم کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ انہیں اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے بلایا گیا۔ تو عمران خان نے انہیں بلیک میلر قرار دے کر ان کی پکار پر لبیک کہنے سے انکار کر دیا۔ کیا باپ ایسے ہوتے ہیں۔

میں نے اپنے پچھلے مضمون میں وزیراعظم کو ملنے والے دھمکی آمیز مراسلے کا ذکر کیا تھا۔ دراصل میرا تجزیہ چار دن سے جاری اس سرکاری مہم کا احاطہ کرتا تھا۔ جس میں بڑے زور شور سے اس بات کا تذکرہ کیا جاتا رہا۔ کہ ایک دھمکی آمیز خط حکومت کو موصول ہوا ہے۔ میں نے جب اپنا مضمون ادارے کو ارسال کر دیا۔ تب صورت حال اس وقت یکسر تبدیل ہو گئی۔ جب سرکاری طور پر یہ بتایا گیا کہ مبینہ خط یا مراسلہ کسی ملک نے نہیں بلکہ اس ملک میں تعینات پاکستانی سفیر نے بھیجا تھا۔ جو ایک میٹنگ کے منٹس پر مبنی تھا۔ کئی دن تک عالمی سازش کا ذکر کر کے عوام کو اکسانے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد حکومت کی طرف سے فوری طور پر موقف تبدیل کر دیا گیا۔

چار دن تک وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا۔ جیسے ملک کے خلاف بہت بڑی سازش ہو گئی ہو۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس مراسلے میں انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔ اور یہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر بہت بڑا حملہ ہے۔ عوام کے ذہنوں میں یہ بات کوٹ کر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ کہ چونکہ عمران خان آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دے رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی طاقتیں اپوزیشن کو ساتھ ملا کر اسے اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہیں۔

ملک کے بعض سابق سفارت کار وزیراعظم کے اس دعوے کو مکمل طور پر رد کر رہے ہیں۔ بقول ان کے کسی ملک کی جانب سے ایسی غیر سفارتی زبان استعمال کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ دو بدترین دشمن ملک بھی خط و کتابت کے دوران تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس حوالے سے ایک عالمی چارٹر بھی موجود ہے۔ جس کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایک دوسرے کو پیغام رسانی کی جاتی ہے۔

ایک ٹی وی پروگرام میں ممتاز اینکر پرسن اور صحافی حامد میر نے مجوزہ مراسلے کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو سات مارچ کو اس کا علم ہوا۔ جب کہ 22 مارچ کو او آئی سی کے اجلاس میں امریکہ کے انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ امریکہ سے انتہائی سخت زبان میں دھمکی آمیز پیغام کے ملنے کے بعد انہیں او آئی سی اجلاس میں بلانے کا کیا جواز تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک روٹین کے پیغام کو تحریک عدم اعتماد کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور اپوزیشن کی ٹاپ قیادت کو غدار قرار دینے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔

ایک باخبر اینکر پرسن نے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا ہے۔ کہ وزیراعظم کی آرمی چیف سے پانچ مرتبہ ملاقات ہو چکی ہے۔ اگر مراسلے میں کوئی قابل اعتراض بات ہوتی۔ تو عسکری قیادت آئی ایس پی آر کے ترجمان کے ذریعے ایک بھرپور موقف قوم کے سامنے پیش کرتی۔ جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔

یہ بات بھی بڑی اہم اور قابل توجہ ہے۔ کہ مراسلہ سات مارچ کو موصول ہوتا ہے۔ اور تقریباً ́ 22 روز تک اس معاملے پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ وزیراعظم صاحب کے پاس اس غیر ضروری تاخیر کا کیا جواز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments