یہ حب الوطنی تو ہرگز نہیں ہو سکتی


وزیراعظم عمران خان صاحب ہم نے مان لیا کہ آپ کو اقتدار میں لانے والوں نے آپ سے برسر اقتدار رہنے کا طویل المدتی معاہدہ کیا ہو گا، ہم نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ آپ کو لانے والوں نے اقتدار آپ کے حوالے کرتے وقت آپ کو یہ یقین، یہ اطمینان بھی دلایا ہو گا کہ آپ کا کوئی نعم البدل نہیں ہے دور تلک بہت دور فلک تک۔

ہم نے یہ بھی مان لیا کہ آپ بہت نیک سیرت ایماندار اصول پرست، بلیک میل نہ ہونے والے، میچ آخری گیند تک لڑنے والے اور آخری لمحے تک کامیابی کی امید نہ چھوڑنے والے کپتان ہوں گے، ہمیں یہ بھی قبول ہے کہ آپ کی 26 سالہ سیاسی جدوجہد ملک کو کرپشن کے ناسور سے نجات دلانے، بھوک، بدحالی، مہنگائی، بیروزگاری، اداروں کی تعمیر نو کرنے، اقربا پروری کے خاتمے، میرٹ کے نفاذ، آزاد داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے ہی ہو گی۔ یہ بھی اعتراف کر لیتے ہیں کہ آپ پاکستان کی امریکی جنگ میں شامل ہونے کے خلاف تھے، آپ امریکی ڈرون حملوں کو پاکستان کی آزادی خود مختاری سالمیت کے خلاف اور ان پہ حملہ سمجھ کر احتجاج بھی کرتے تھے۔

انتہائی محترم وزیراعظم صاحب قوم کی ان تمام تر قبولیتوں کو آپ نے اپنے جوتوں کی نوک پہ رکھا۔ خان صاحب  آپ نے قوم کو دھوکا دیا، جھوٹ بولا منافقت کی، اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتا دیکھ کر آپ نے اپنی ملکی سلامتی، امن اور خودمختاری کو یہ کہہ کر داؤ پہ لگا دیا کہ آپ کے خلاف غیر ملکی سازش ہو رہی ہے، آپ کو قتل کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، خدانخواستہ آپ کی انتہائی قیمتی نگینہ جان کو امریکہ اور پاکستان میں اس کے ایجنٹوں یعنی اپوزیشن سے خطرہ ہے۔ آپ قوم کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں اشتعال دلا کر ملک کو خانہ جنگی اور سیاسی افراتفری میں دھکیلنا چاہتے ہیں صرف اور صرف اپنے اقتدار اپنی کرسی کی خاطر۔

جنرل پرویز مشرف کی جانب سے 9 / 11 کے بعد امریکی جنگ کا حصہ بننے کی سب سے پہلے آپ نے حمایت کی اور کہا کہ ”جنرل مشرف کا ان حالات میں یہ بہترین اور صائب فیصلہ ہے“ مگر آج آپ کہتے ہیں کہ آپ تو امریکی جنگ کا حصہ بننے کے سخت خلاف تھے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ کے سوا کسی نے امریکی ڈرون حملوں پہ کبھی آواز نہیں اٹھائی، لیکن آپ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کا واقعہ شاید بھول گئے جس پہ اس وقت کی پیپلز پارٹی حکومت نے امریکہ سے چھ ماہ تک سفارتی تعلقات منقطع کر دیے، ان سے شہباز ایئر بیس واپس لے لیا، یہاں تک کہ اپنی غلطی تسلیم کر کے معافی مانگنے تک امریکہ سے کسی بھی قسم کی امداد تک لینے سے انکار کر دیا۔

پاکستان کی اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے انتہائی جرت مندانہ اور دو ٹوک موقف ہر فورم پہ رکھا اور اپنی حکومت کی بہترین نمائندگی کی۔ آپ کی آزاد خارجہ پالیسی کا شاخسانہ ہے کہ آج پاکستان کے امریکہ سمیت چین، ایران، ملائیشیا، سعودی عرب اور کئی اہم اسلامی اور یورپی یونین کے ممالک سے تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔ آپ سیاسی تقریبات میں جوش خطابت میں سیاسی، سفارتی اور اخلاقی آداب بھول جاتے ہیں اور آپ کی اس بھول اور چرب زبانی کی قیمت پاکستان اور قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔

آپ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں مگر اپنی ذات کے گرداب میں پھنس کر، خود پسندی کا شکار ہو کر تمام تر سفارتی، اخلاقی بین الاقوامی آداب بھلا بیٹھے ہیں اور پاکستان کو عالمی تنہائی کی گہری کھائی میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں صرف اور صرف اپنے رخصت ہوتے اقتدار کی چاہ میں، کرسی کی محبت میں کہ جس کے لیے آپ نے کہا تھا کہ پچاس لوگ بھی کھڑے ہو کر گو عمران گو کہیں گے میں اقتدار پہ ٹھوکر مار کر چلا جاؤں گا اور آپ کی اسی اصول پسندی پہ اندھا یقین کرتے قوم نے آپ کو مسند اقتدار پہ فائز کیا۔

عمران خان صاحب آپ ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے ہیں، سب سے پہلے تو یہ غلط فہمی دور کر لیں۔ جو بھی آتا ہے وہ جانے کے لیے آتا ہے اور جن قوتوں نے آپ کی اصول پسندی، ایمانداری، حب الوطنی پہ یقین کر کے آپ کے سر پہ اقتدار کا تاج سجایا تھا وہی قوتیں اب جان چکی ہیں آپ نا اہل، نالائق اور ناکارہ شخص ہیں، آپ ملک و قوم پہ ایک ناپسندیدہ بوجھ بن چکے ہیں، آپ اپنے ذاتی اقتدار کے لیے نہ صرف ملکی استحکام سلامتی کو بھی داؤ پہ لگا سکتے بلکہ آپ قوم کو افراتفری انارکی اور خانہ جنگی میں دھکیل سکتے جو آپ اس وقت کر رہے ہیں۔

وزیراعظم صاحب آپ کے مصاحبین اپنے کارکنان کو تحریک عدم اعتماد کے دن اسلام آباد پہنچ کر ہنگامہ آرائی پہ اکسا رہے ہیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ کسی بھی معزز رکن پارلیمان کو ووٹ کے حق سے نہیں روکا جا سکتا مگر آپ اراکین اسمبلی کو ان کے ووٹ کے آزادانہ حق کے استعمال سے روکنے کے لیے فسطائی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، اپنے سیاسی مخالفین کو غداری کے القابات سے نواز رہے ہیں۔ آپ اقتدار کی ہوس میں اتنے حواس باختہ ہو گئے ہیں کہ اپوزیشن کی آئینی جمہوری اور قانونی تحریک سے نمٹنے کے لیے ہر وہ غیر آئینی غیر اخلاقی ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں جو آمریت کا خاصا رہا ہے۔

عمران خان صاحب آپ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اس قدر نیچے آ گئے کہ مذہب کا وہ کارڈ جو جنرل ضیاالحق نے بڑے بھونڈے طریقے سے استعمال کیا تھا آپ اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ سیاسی جمہوری لڑائی کو آپ حق و باطل کا معرکہ قرار دے کر عوامی جذبات بھڑکانے کی مذموم کوشش کرتے رہے۔ آپ اپنے کردار اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پہ حکومت کرنے کے بجائے مقتدر قوتوں کے کاندھے استعمال کر کے حکومت چلانے کے خواہش مند تھے مگر مقتدر قوتیں بھی آپ کا بوجھ اپنے کندھوں پہ کب تک برداشت کرتیں، کب تک آپ کی نالائقی اور نااہلی کی قیمت چکاتیں۔

آپ کی مہم جوئی، آپ کی شدت اور انتہا پسندی، آپ کی ذاتی انا اور آپ کی انتقامی گھمنڈی طبیعت اور انداز حکمرانی اور گفتگو نے آج آپ کو اقتدار سے بے دخلی تک پہنچا دیا ہے اور آپ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ملک و قوم کی ہر چیز، استحکام، امن، سلامتی بھائی چارہ، جمہوریت اخلاق انسانیت سب کچھ تباہ کرنے پہ تل گئے ہیں۔ عمران خان صاحب یہ حب الوطنی ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments