ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان


اپوزیشن نے جب عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو کپتان نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اپوزیشن کو علم ہی نہیں تھا کہ اس طرح کپتان ”خطرے ناک“ بن جائے گا اور نقصان اپوزیشن کا ہی ہو گا۔ چنانچہ وہی ہوا۔ اگرچہ پی ڈی ایم  نے کپتان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے گستاخی کی تھی لیکن کپتان نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں زندان میں ڈالنے کی بجائے فوری طور پر جلسے کیے اور اپوزیشن کے رہنماؤں کو شو باز، چیری بلاسم اور ڈیزل کے خطابات سے نوازا، حالاں کہ وہ اس کے اہل نہیں تھے۔

کپتان چوں کہ خود یہ چاہتے تھے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئے اس لیے انہوں نے اعلان کیا کہ اپوزیشن کے اراکین کو ان کے دس لاکھ ”پروانوں“ سے گزر کر ووٹ دینا ہو گا۔ یہ پروانے پھولوں کی پتیاں لے کر دو رویہ کھڑے ہوں گے اور ووٹ دینے کے لیے جب پی ڈی ایم کے اراکین اسمبلی جائیں گے تو ان پر گل پاشی کریں گے۔ اس حسن سلوک کی باتیں سن کر اپوزیشن گھبرا گئی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی۔ چودھری پرویز الٰہی پی ڈی ایم کے ممکنہ امیدوار تھے۔ کپتان کے پاس اس کا توڑ بھی موجود تھا۔ انہوں نے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا اور پرویز الٰہی کو اپنی طرف سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا۔ اس طرح پی ڈی ایم اس ’شکست‘ پر اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔

اپوزیشن نے ایک اور چال چلی اور کپتان کی ٹیم کے کچھ ممبران کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ ان ممبران نے انٹرویوز بھی دے ڈالے کہ ہم کسی لالچ میں نہیں ضمیر کی آواز پر منحرف ہوئے ہیں۔ کپتان نے میدان نہ چھوڑا اور بغیر کسی لگی لپٹی کے انہیں ضمیر فروش، بکاؤ اور غدار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا۔ انہیں تا حیات نا اہل کروانے کی دھمکی دی اور انہیں باور کرایا کہ ان کے بچوں سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔ لیکن کپتان چونکہ انتہائی نرم خو اور ہمدرد انسان ہیں اس لیے اگلے ہی روز یوٹرن لے کر ان اراکین کو پیغام بھجوایا کہ وزیر اعظم بھی باپ کی طرح ہوتا ہے وہ اراکین واپس آ جائیں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ انعامات بھی دیے جائیں گے۔ مگر وہ ہنوز واپس نہیں آئے شاید پی ڈی ایم نے ان تک پیغام پہنچنے نہیں دیا۔

اپوزیشن کی ریشہ دوانیاں بڑھتی جا رہی تھیں اور وہ فوراً ووٹنگ کروانا چاہتے تھے لیکن کپتان ڈٹے رہے۔ سپیکر صاحب نے کپتان کی محبت سے سرشار ہو کر اجلاس بلانے میں اتنی تاخیر کی جتنی تاخیر ہو سکتی تھی اسی طرح ووٹنگ کے لیے بھی آخری دن کا آخری گھنٹا مقرر کیا۔ کپتان نے اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر ایک فقید المثال جلسے کی کال دی۔ دس لاکھ کے مجمعے کا ٹارگٹ سیٹ کیا اور اعلان کیا کہ وہ اس جلسے میں ایک بہت بڑا سر پرائز دیں گے۔

چناں چہ ملک کے طول و عرض سے ان کے تیس چالیس ہزار ”پروانے“ جلسہ گاہ پہنچے، باقی ساڑھے نو لاکھ نے آن لائن شمولیت اختیار کی۔ اس طرح دس لاکھ کا کامیاب جلسہ ہوا۔ اسی جلسے میں کپتان نے سرپرائز دیا اور ایک ”خطری خط“ لہرایا۔ اپوزیشن اس خط کے لہراتے ہی کانپ گئی۔ کیونکہ کپتان نے بتایا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد ایک عالمی سازش ہے۔

ساری قوم بشمول قوم یوتھ یہ جاننے کے لیے بے قرار ہو گئے کہ اس عالمی سازش کے پیچھے کون ہے۔ تاہم کپتان نے بتایا کہ دھمکی آمیز خط امریکا سے آیا ہے، پھر کہا کہ نہیں نہیں کسی اور ملک سے آیا ہے۔ یوں اپوزیشن کو کنفیوز کرنے کی کوشش کی۔ امریکا نے تردید کی، پتا چلا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر نے دفتر خارجہ کو خط لکھا تھا کہ آپ کی حکومت ہمارے خلاف جذبات بھڑکا رہی ہے۔ مگر کپتان امریکا کو امریکا سے زیادہ جانتا ہے چنانچہ دھمکی دینے والی یو ایس انڈر سیکریٹری کو دو ہفتے بعد او آئی سی کے اجلاس میں بلا کر کھانا کھلایا تا کہ وہ نمک حلال رہے اور آئندہ ایسی بات نہ کرے۔

کپتان نے اسی طرح اپوزیشن کو الجھائے رکھا تا کہ وہ تحریک عدم اعتماد بھول بھال جائیں۔ اس دوران کپتان نے ”بڑوں“ سے مشورہ کیا کہ اگر اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لے تو وہ غیر نیوٹرل ایمپائرز کے ساتھ میچ دوبارہ کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ اپوزیشن اڑ گئی ہے کہ نیوٹرل ایمپائرز کے ساتھ ہی کھلیں گے۔ اب اتوار کو ووٹنگ کا مرحلہ ہے جس کی کامیابی کا اپوزیشن کو صد فی صد یقین ہے لیکن شاید اپوزیشن یہ نہیں جانتی کہ کپتان نے کبھی ہار نہیں مانی۔ اگر ہار ماننی ہوتی تو تحریک عدم اعتماد کا شور سنتے ہی استعفیٰ دے دیتے۔ کپتان کے پاس آج بھی اپوزیشن کو شکست دینے کے لیے پلان اے، بی، سی اور ڈی موجود ہیں۔

بے خبر ذرائع کے مطابق پلان اے یہ ہے کہ شہباز شریف کو حکومت کی طرف سے وزیراعظم کا امیدوار نامزد کر دیا جائے اس طرح اپوزیشن کو اصلی سر پرائز مل جائے گا۔ پلان بی کے مطابق قومی اسمبلی میں لوڈ شیڈنگ کر دی جائے۔ اراکین اسمبلی گرمی سے گھبرا کر ڈی چوک کی کھلی ہوا میں چلے جائیں گے اور ووٹنگ نہیں ہو سکے گی۔ پلان سی بھی تیار ہے اگر ایسا نہ ہوا تو سپیکر صاحب بہانہ بنا دیں کہ اسمبلی کے تمام سپیکر یعنی پورا ساؤنڈ سسٹم خراب ہو گیا ہے لہٰذا ساؤنڈ سسٹم ٹھیک ہونے تک اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے۔

اس کے باوجود اگر کسی طرح ووٹنگ ہو گئی تو پلان ڈی بھی موجود ہے۔ اور پلان ڈی ہر صورت میں کامیاب ہو گا۔ اپوزیشن کو شاید معلوم نہیں کہ کپتان کے ساتھ روحانی طاقتیں بھی ہیں۔ بس ان کے اشارہ کرنے کی دیر ہے یہ طاقتیں متحرک ہو جائیں گی اور بیلٹ باکس ہی غائب ہو جائے گا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری۔ ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments