بابا عالم سیاہ پوش کے شاگرد گیت نگار، ہدایت کار اور موسیقار محمد یوسف ڈسکوی


مسلسل پچھلے کچھ سالوں سے پاکستانی فلمی صنعت کو زبوں حالی کا سامنا کرنا پڑا۔ رہی سہی کسر کورونا کی پہلی لہر نے پوری کر دی۔ کیا ہوا، کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔ پھر سہی۔ اس وقت ایک صاحب یاد آ گئے جنہوں نے آندھی میں دیا روشن کر رکھا ہے۔ جو کام فلم اسٹوڈیو اور سنیما گھروں میں ہونا چاہیے تھا موصوف چھوٹے پیمانے پر کیبل ٹیلی وژن پر کر رہے ہیں۔ یہ محمد یوسف ڈسکوی صاحب ہیں۔ مجھے کسی نے ان کے بارے میں بتایا کہ یہ ڈسکہ شہر، ضلع سیالکوٹ میں رہتے ہیں۔ میرے چچازاد بھائی بھی ڈسکہ میں ہوتے ہیں میں نے ان سے رابطہ کیا اور یوں پچھلے دنوں یوسف صاحب سے ایک دلچسپ نشست ہوئی۔ اس میں میرے چچا زاد بھائی خواجہ تنصیر شاہی اور ان کے پیٹے خواجہ بصیر احمد شامل تھے۔ نگار کے پڑھنے والوں کے لئے وہ بات چیت حاضر ہے :

” میں ڈسکہ شہر میں پیدا ہوا اسی مناسبت سے میرا نام محمد یوسف ڈسکوی ہے۔ میرا مزدور گھرانے اور مغل برادری سے تعلق ہے۔ میرے والد محترم محمد علی مغل مشقت کرتے تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے ہمارا لکڑی کا کام تھا۔ مجھے شروع سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔ میاں محمد بخش صاحب فرماتے ہیں : ’ہر کوئی آکھے راہ دے راہ دے تے میں وی آکھاں راہ دے، پر بن مرشد تینوں راہ نہیں لبنا مر وے سی وچ راہ دے‘۔ پھر چوں کہ مجھے خود شاعری اسکرپٹ لکھنے اور فلم کی کہانی لکھنے سے لگاؤ تھا۔

میری لگن شاید تھوڑی بہت سچی تھی کچھ قسمت مہربان ہوئی اور میں پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک مایہ ناز شخصیت تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ ہستی پاک و ہند کی مایہ ناز فلمی شخصیت بابا عالم سیاہ پوش ہیں۔ وہ بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ میں اکتوبر 1968 کی 04 تاریخ کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس رات 11 : 00 بجے میں نے ان کی شاگردی اختیار کی۔ مجھے آج تک یاد ہے وہ جمعہ کا دن تھا۔ میرے استاد محترم بابا عالم سیاہ پوش 1970 میں وفات پا گئے۔ میں جو بھی لکھتا انہیں دکھاتا۔ وہ مجھے بتاتے اور راہنمائی کرتے کہ ایسے لکھتے ہیں۔ پھر استاد تو میرا ساتھ چھوڑ گئے لیکن آج 52 برس ہو گئے ہیں، میں نے پھر کوئی اور استاد نہیں پکڑا۔ بس میرے وہ ایک ہی استاد تھے ان ہی کے صدقے آج یوسف ڈسکوی کا نام۔ چینل اور اخبار میں چلتا ہے“۔

موسیقی اور گلو کاری:
” آپ کے متعلق سنا ہے کہ لکھنے کے علاوہ موسیقی اور گلوکاری سے بھی شوق رکھتے ہیں؟“۔

” فلم انڈسٹری میں ہماری لائن گیت نگاری کی ہے۔ آپ اچھے گیت نگار تب تک نہیں بن سکتے جب تک آپ سر اور لے کو نہ سمجھیں۔ اس لئے سر اور لے کو بھی سمجھنا پڑا۔ پھر کسی کرم فرما کے ذریعہ میں لاہور میوزیکل ٹریننگ کالج، واقع شاہ عالم مارکیٹ لاہور پہنچا۔ وہاں کے استاد ماسٹر فیروز گل خود بھی فلمی موسیقار تھے اور پاکستانی فلمی دنیا کے نامور موسیقار ماسٹر غلام حیدر کے شاگرد تھے اور موسیقی میں بھائی لال کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔

یوں میرا لاہور میوزیکل ٹریننگ کالج میں آنا جانا شروع ہو گیا۔ میں نے کوئی با قاعدہ موسیقی کی تعلیم تو نہیں لی لیکن 17 سال مستقل ان کے ہاں ڈسکہ سے لاہور جاتا رہا۔ 17 سال۔ بس ایک ہی جگہ۔ ان کے ساتھ فلم کا کام بھی کیا، موسیقی کی سمجھ بھی آئی۔ پھر مولا نے ایسا کرم کیا کہ جتنی میری بساط ہے میں خود گانوں کی کمپوزیشن کر نے لگا۔ ماشاء اللہ میرے لکھے ہوئے گیت اور ان کی کمپوزیشن کافی گلوکاروں نے گائی ہیں۔ جن میں رفعت سعید صاحبہ، پاکستان کی معروف گلوکارہ عذرا جہاں، صائمہ جہاں، حمیرہ چنا اور گلوکار رجب علی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فوک میں عبد الوہاب لوہار، عبدالمجید شیخ اور کئی دوسروں کو میں نے گوایا۔ اس کام کے ساتھ ساتھ صدا کاری بھی کر رہا ہوں! میں پنجابی کا پروگرام ’پپلاں دی چھاں‘ کرتا ہوں اور اس کا میزبان بھی ہوں۔ پھر ایک بچوں کا پروگرام ’چھوٹی دنیا‘ بحیثیت ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر بھی کرتا ہوں“۔

فلموں کے گیت لکھنا:

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ”سب سے پہلے میں نے 31 دسمبر 1973 میں ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں ایک گانا ریکارڈ کیا۔ ’سن سکدے ہو سن لو لوکو میری درد کہانی، بے درداں دی نگری وچ اج نچ کے پئی سنانی۔ ‘۔ 1974 کا سورج طلوع ہونے کے قریب تھا جب وہ گانا او کے ہوا۔ گیت میں نے لکھا اور دھن ماسٹر فیروز گل صاحب نے بنائی تھی۔ یہ مجرا تھا۔ ہدایتکار داؤد بٹ صاحب کی پنجابی فلم“ دادا ” ( 1977 ) کے لئے میرا ایک گیت ’میری وائل دی قمیص اج پاٹ گئی اے۔

‘ بہت مقبول ہوا۔ لیکن گراموفون ریکارڈ پر گیت نگار کا نام خواجہ پرویز لکھا گیا۔ کوئی بات نہیں! وہ بھی ہمارے سیالکوٹ ہی کے رہنے والے تھے۔ اس کے علاوہ ہدایت کار یونس بٹ صاحب کی فلم ’اک دن موت کا‘ کے لئے بھی میں نے گیت لکھا۔ پھر ’مولا جٹ تے نوری نتھ‘ ( 1981 ) کے لئے بھی لکھا : ’آ مو لیا لائیے ٹھمکا اٹھ نوری لائیے ٹھمکا اج ہو جائے راضی ساڈی بہن پیاری پاویں ہو جائے ویری اے دنیا ساری‘۔ اس فلم کے مشترکہ فلمساز مبارک بٹ صاحب ہمارے شہر ڈسکہ کے تھے“۔

اسکرپٹ لکھنا:
” آپ نے پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان کے لئے بھی کچھ لکھا؟“

” جی ہاں! میں نے ریڈیو پر زیادہ لکھا۔ 1973 میں ریڈیو پاکستان لاہور سے میرا لکھا ہوا ترانہ بہت چلا: ’چیوے میرا پاکستان، جیوے میرا پاکستان، میں ایدا اے میری عزت ایس توں واراں میں جند جان‘۔ اسے آصف جاوید، علی رضا اور ساتھیوں نے گایا تھا۔ اس ترانے کی موسیقی خان صاحب تصدق حسین نے ترتیب دی تھی۔ خان صاحب کا تعلق موسیقی کے گھرانے شام چوراسی سے تھا۔ اس زمانے میں یہ شیزان ہٹ پریڈ میں اول نمبر پر آتا رہا۔ فوجی بھائیوں کے پروگرام میں بھی نشر ہوتا تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن پر بھی میں نے پروگرام ’سجرے پھول‘ لکھا۔ میں اس کا اسو سی ایٹ پروڈیوسر تھا۔ میں شکر گڑھ تک یہ پروگرام کر کے آیا ہوں“۔

بحیثیت موسیقار:
” ابھی گفتگو ہو رہی تھی کہ آپ کو ہارمونیم بجانا نہیں آتا؟“۔

” جی ہاں یہ صحیح ہے کہ مجھے ہارمونیم بجانا نہیں آتا لیکن بجوانا آتا ہے! میں بتا سکتا ہوں کہ یہ سر کم لگا رہے ہو۔ یہ یہاں لگنا تھا۔ پاکستان کے تین موسیقار ہیں جو کوئی ساز نہیں بجاتے تھے : پہلے پاک و ہند کے نامور موسیقار خواجہ خورشید انور صاحب۔ وہ ہارمونیم کے بجائے ماچس کی ڈبیہ پر دھن تیار کرتے تھے۔ دوسرے ہمارے ریڈیو پاکستان لاہور کے صفدر نیاز صاحب تھے۔ وہ بھی ہارمونیم نہیں بجا سکتے تھے اور تیسرا یہ یوسف ڈسکوی ہے۔ ( ہم سب کے قہقہے ) میں نے عذرہ جہاں اور حمیرہ چنا کے فلمی گانوں میں 18 سازوں کو یکجا کیا ہے۔ اس میں وائلن، گٹاریں اور دیگر ساز شامل تھے“۔

” آپ نے پہلا گیت کب لکھا اور کہاں ریکارڈ ہوا؟“۔

” میں نے سب سے پہلے 18 اپریل 1971 کو ایک لوک گیت لکھا۔ یہ 1973 میں ای ایم آئی، مال روڈ لاہور میں شیخ مجید کی آواز میں ریکارڈ ہوا“۔

پروگرام ’پپلاں دی چھاں‘ :

” میں نے فن و ثقافت کی ترویج کے لئے ایک تنظیم ’ڈسکہ آرٹس سوسائٹی پاکستان‘ کے نام سے بنائی ہے۔ اس کے تحت میں پروگرام کرتا ہوں۔ میں نے اپنی تحصیل میں کیبل سروس مہیا کرنے والوں سے کیبل پر دو گھنٹے کا وقت لے رکھا ہے۔ اس میں پروگرام ’پپلاں دی چھاں‘ اور بچوں کا پروگرام ’چھوٹی دنیا‘ نشر ہوتا ہے۔ لوگ شوق سے پروگرام ’پپلاں دی چھاں‘ دیکھتے ہیں۔ یہ پروگرام دیہاتوں میں رات آٹھ بجے گھر گھر ہوتا ہے۔ نہ تو اب وہ ’بوہڑ‘ رہے نہ ’پپل‘ نہ ہی وہ ’ثقافت‘۔

انہیں پرانی ثقافت یہاں ملتی ہے۔ افسوس ہے کہ موجودہ نوجوان نسل میں بزرگوں کا ادب و احترام نظر نہیں آتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم خود ہی انجینیئر، پائلٹ اور خود ہی سب کچھ ہیں۔ اس لئے مجھے ان بزرگوں کو بتانا ہے کہ آپ مایوس نہ ہوں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ کیوں کہ انہیں آج بھی وہ صبح شام گھر سے کھانا لے کے کنویں پہ جانا یاد آتا ہے۔ وہ لوگ بالخصوص ہماری مامیاں، چاچیاں، تائیاں، ضعیف اور بزرگ بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ پروگرام ان کی زبان اور لہجے میں پیش کرتا ہوں“۔

پروگرام ’چھوٹی دنیا‘ :

” بچوں کا پروگرام ’چھوٹی دنیا‘ شروع کرنے کا پس منظر یہ ہے کہ میں نے 2000 سے لے کر 2007 تک پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے بچوں کے 50 پروگرام کیے۔ یہ 25 : 00 منٹ دورانیے کے ہوتے تھے۔ جب وہ پروگرام ختم ہوا تو مجھے خیال آیا کہ فلم انڈسٹری میں کام تو کر ہی رہا ہوں مجھے بچوں سے میل جول ختم نہیں کرنا چاہیے۔ آج ان کی صحیح راہنمائی کی جائے، کوئی مثبت چیزیں بتائی جائیں تو کل یہ بہت مفید پاکستانی بنیں گے۔ پروگرام ’چھوٹی دنیا‘ میں بچوں کو نعت خوانی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔

ان میں سے کئی ایک بچے خاصے بہتر نعت خواں ہو گئے ہیں۔ پھر حوصلہ افزائی کے لئے اور بہت سے میدان بھی ہیں۔ ماشاء اللہ میرے جو شاگرد نعت خوانی کر رہے ہیں ان میں محمد نعمان ارشد غوری، سلیمان اقبال، حمزہ سلیم قادری اچھے نعت خواں ہیں۔ اس کے علاوہ میرے دو شاگردوں نے نعت خوانی کے قومی مقابلے جیتے۔ 1999 میں سلیمان اقبال نے پندرہ سال کی عمر میں ’آل پاکستان مقابلۂ نعت‘ جیتا۔ 2001 میں میرے شاگرد محسن بغدادی نے بھی ’آل پاکستان مقابلۂ نعت‘ جیتا۔

اور بھی بہت شاگرد ہیں۔ آج کل بچی رمشہ ناز بہت اچھی ثناء خواں ہے۔ پھر ایک اور ثناء خواں ہے جس کا آج کل طوطی بول رہا ہے۔ کیو ٹی وی ہو، کوئی اور ٹی وی ہو، رمضان یا ربیع الاول کی محفل ہو تمام چینل والے اسے بلاتے ہیں وہ محمد نعمان ارشد غوری ہے۔ یہ 1998 میں میرا شاگرد ہوا تھا۔ سلیمان اقبال بھی اسی سال میرا شاگرد ہوا تھا“۔

” کیا آپ نے ڈسکہ شہر اور اطراف میں ہونے والی کسی ثقافتی یا سماجی تقریب میں باصلاحیت افراد دریافت کیے ؟ کیا یہاں فن کے جراثیم ہیں؟“۔

” خواجہ صاحب! ( مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے ) آپ نے فن کے جراثیموں کی بات کی ہے۔ صرف جراثیم ہونے ہی کافی نہیں! جب تک کسی شوق میں لگن اور لگاؤ نہ ہو کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ شاگرد تو بہت آتے ہیں کوئی دو مہینے رہا کوئی چار مہینے۔ لیکن کامیاب وہ ہی ہوتا ہے جو لگن اور توجہ کے ساتھ سیکھتا ہے اور پھر اسی کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا سمجھتا ہے! میری ایک بہت با صلاحیت شاگردہ شمسہ حیدر نے پاکستان کے کئی ٹی وی چینلوں پر میزبانی کی ہے۔

میں نے اسے 2000 میں پی ٹی وی کے پروگرام ’سجرے پھل‘ میں متعارف کروایا تھا۔ اس کا ڈسکہ کلاں سے تعلق ہے۔ اس نے کمال لگن سے کام کیا۔ اے ٹی وی کی نشریات عید شو میں صبح آٹھ بجے بیٹھی تو شام پانچ بجے تک پروگرام کیا۔ اب وہ ہی شخص اتنا لمبا عرصہ کیمرے اور مائکرو فون کے سامنے بیٹھ سکتا ہے جس کے ذہن میں ایک بہت ضخیم اور دلچسپ مواد بھی ہو۔ اس کے ساتھ وہ ناظرین سے براہ راست گفتگو کرے اور اپنے مہمانوں کے ساتھ بھی“۔

” اتنا بڑا کام کر رہے ہیں کیا کوئی این جی او فنڈنگ وغیرہ میں آپ کے ساتھ ہے؟“۔
” نہیں بالکل بھی نہیں! وہ جو کہاوت ہے : ’اپنے دکھ آپ ہی سہنا اچھا ہوتا ہے‘ مجھ پر فٹ آتی ہے“۔

” شہروں میں آرٹس کونسلیں ہوتی ہیں کیا اس قسم کا یہاں کوئی ادارہ ہے یا آپ اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے ہیں؟“۔

” خواجہ صاحب! میں نے آج تک جتنے بھی پروگرام کیے ہیں وہ اپنی مدد آپ ہی کیے۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی دوست احباب 14 اگست یا 23 مارچ کے پروگرام، یا محفل نعت کے حوالے سے ساتھ مل گئے لیکن حکومت کی بات کریں تو اس کو خود اپنا نہیں پتہ وہ ہماری کیا مدد کرے گی! یہاں آرٹس کونسل نام کی کوئی چیز نہیں تو فنکار کہاں سے ڈھونڈیں گے! “۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا : ”اسکرپٹ لکھنا! چاہے فلم کا ہو، کسی ٹی وی پروگرام کا یا پھر آپ کے اپنے کیبل پروگرام کا ہو تخلیقی کام ہے۔ گیت نگاری، میوزک کمپوزیشن بھی روح کی گہرائیوں سے ہوتی ہے“۔

” کیا آپ اپنے ادارے میں آن کیمرہ اداکاری، نعت و ثناء خوانی کی تربیت دیتے ہیں؟“۔

” جی ہاں! نعت کے بولوں کی مناسبت سے آواز کے زیر و بم کے ساتھ چہرے کے تاثرات بھی سمجھائے جاتے ہیں۔ صرف باجے پر دھن یاد کروا کر مطلوبہ تاثر اور نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ مالک کا اپنے حبیب کے صدقے مجھ پر خاص طور پر کرم ہے کہ جیسے میں لکھتا ہوں ویسے مجھے آواز اور سمجھ بھی عطا کی ہے کہ کسی شاگرد کو کیسے بتانا ہے“۔

پروگرام ریڈیو میلہ:

” رہی اداکاری تو عرض ہے کہ اداکاری میرا میدان نہیں ہے۔ البتہ ڈائریکٹر کی حیثیت سے میں یہ اسٹیج اور ٹی وی کے لئے کروا سکتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی وژن کا پروگرام ’سجرے پھل‘ میں اسی حیثیت سے کرتا رہا ہوں۔ ایک بات یاد آئی۔ جب 2007 میں یہ پروگرام ختم ہو گیا تو مجھے ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک بڑا معروف پروگرام ’سوہنی دھرتی‘ مل گیا جو نظام دین (م) ، اصغر ملک اور سید رشید کرتے تھے۔ میں وہ پروگرام لاہور سے نکال کر یہاں ڈسکہ لے آیا۔ میں نے یہاں 22 پروگرام کیے۔ نامور فنکار خالد عباس ڈار اور معروف فنکار غیور اختر ڈسکہ میں میرے دفتر میں آئے۔ میں نے انہیں گاؤں گاؤں پھرایا اور ’ریڈیو میلہ‘ کے نام سے ان کے پروگرام کیے جو میرے لکھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ میں نے 2021 کا پورا سال ایف ایم ریڈیو 101 پر بھی پنجابی پروگرام کیے ’‘۔

اخبارات کا اجراء:
” اب کچھ اپنے اخبارات کے بارے میں بتلائیے“۔ خواجہ بصیر احمد نے سوال کیا۔

” ہوا یوں کہ میں رائل پارک لاہور میں معروف ادارے بھٹی پکچرز میں اپنی کہانی لے کر گیا اور کہا کہ میں کہانی نویس ہوں، مجھ سے کوئی فلم لکھوائیں۔ وہاں قیصر ملک صاحب ملے جو رائٹر اور یہاں کے آفس منیجر تھے۔ ان کا ملتان سے تعلق تھا۔ انہوں نے پاکستان کی پہلی سرائیکی زبان میں بننے والی بھٹی پکچرز کی فلم“ دیھاں نمانیاں ” ( 1973 ) لکھی تھی۔ وہاں جب ہم بیٹھے تھے تو مجھے کہنے لگے کہ آپ ڈسکہ میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا ہاں تو کہا کہ ہم نے لاہور سے ایک روزنامہ ’آفتاب‘ شروع کرنا ہے آپ اس میں کام کریں۔

میں نے کہا کہ میں تو اس سلسلے میں متوقع استبداد نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہاں تو کریں آگے کا کام ہم سکھا دیں گے۔ تو وہ مجھے پکڑ کر ڈیلی آفتاب کے دفتر لے گیا۔ یہ 1983 کی بات ہے۔ انہوں نے مجھے ڈسکہ میں اخبار کا نمائندہ بنا دیا۔ وہاں اس کام کے لئے ڈسکہ سے میرے جاننے والوں کی بھی درخواستیں گئی ہوئی تھیں۔ تو میرا میل ملاپ ادھر ہو گیا۔ مجھے صحافت کا شوق وہیں سے ہوا اور روزنامہ آفتاب کے ساتھ میں نے بہت کام کیا۔

پھر روزنامہ ’مغربی پاکستان‘ ، ’آفاق‘ ، روزنامہ ’حیدر‘ راولپنڈی کے ساتھ بھی منسلک رہا۔ پھر مرتضیٰ پویا نے مجھے اپنے انگریزی روزنامہ ’دی مسلم‘ کا نمائندہ بنا دیا اس کے علاوہ لاہور کے کئی ایک اخبارات کی بھی نمائندگی کرتا رہا۔ یہ وہ حالات تھے جن کو دیکھتے ہوئے میں نے خود اپنا اخبار ہفت روزہ ’صدائے امن ڈسکہ، سیالکوٹ‘ نکالنے کی درخواست دے دی۔ اس وقت نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ کافی تگ و دو کے بعد مجھے 1989 میں ڈیکلیریشن ملا۔ یہ 33 سال سے مسلسل شائع ہو رہا ہے“۔

” پھر میں نے سوچا کہ ڈسکہ چھوٹا شہر ہے اس لئے اب گوجرانوالہ سے بھی نکالنا چاہیے۔ تب گوجرانوالہ سے ’قومی شباب‘ کے نام سے 1999 میں ایک نیا ڈیکلیریشن لے لیا جو پچھلے 23 سال سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ تو اس طرح کہانی، شاعری، موسیقی کے ساتھ صحافتی دنیا میں بھی طبع آزمائی کر لی۔ اب صداکاری بھی ہو رہی ہے۔ بچوں کے اسٹیج شو میں بچوں کے انتخاب، سے لے کر فائنل پرفارمنس میں خود کرتا ہوں۔ لیکن خود اداکاری نہیں کر سکتا“۔

” اپنے شہر کی انتظامیہ کو کبھی اپنے پروگراموں میں شریک ہونے کے لئے راغب کیا؟“۔

” ( ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے ) کبھی پاکستان ٹیلی وژن میں ایک اشتہار چلتا تھا ایک عورت دوسری کو کہتی ہے کہ سناؤ بہن! بچوں کا کیا حال ہے؟ وہ جواب دیتی ہے کیا بتاؤں ایک کو دست لگے ہیں پہلی کہتی ہے کہ او آر ایس پلاؤ۔ دوسری کہتی ہے دوسرے سے جان چھوٹے گی تو پلاؤں گی۔ یہاں کی انتظامیہ خود او آر ایس پر ہے۔ اپنے چکروں سے فرصت ملے تو کچھ اور کرے۔ اس نے میرے ساتھ مل کر کیا کرنا ہے! ہاں ڈسکہ میں اسسٹنٹ کمشنر خواجہ صاحب، ملک عبد الرزاق اور ریزیڈنٹ مجسٹریٹ ملک عابد اعوان ایسے افسران ضرور گزرے جنہوں نے ڈسکہ میں آرٹ کی کچھ حوصلہ افزائی کی مجھے بھی ساتھ ملا کر مشورے دیتے کہ یوسف ڈسکوی فن و ثقافت کی ترویج کے لئے کچھ کرو! “۔

” ڈسکہ شہر میں رہتے ہوئے کیا آپ اپنے اس کام سے مطمئن ہیں؟“

” اپنی ذات کی حد تک میں اپنے کام سے مطمئن ہوں۔ میرا تو اس بات پر یقین ہے کہ جب بھی آپ کسی کے سہارے کام کریں گے وہ ادھورا رہ جائے گا“۔

یوسف ڈسکوی صاحب نے مجھ کو پروگرام ”پپلاں دی چھاں“ اور پروگرام ”چھوٹی دنیا“ کے لنک فیس بک پر بتائے۔ میں نے سکون کے ساتھ یہ دیکھے۔ ان پروگراموں کو اسکرپٹ، پروڈکشن، روشنی، کیمرہ اور آواز غرض ہر ایک شعبہ کے لحاظ سے پرکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوسف ڈسکوی صاحب کے پروگرام کسی بھی فلم اسٹوڈیو کی عکس بندی اور ڈبنگ سے کم نہیں۔ مزے کی بات یہ کہ پاکستان کے اکثر بڑے ٹی وی چینل پر جب کوئی اشتہار آتا ہے تو آواز اتنی بڑھا دی جاتی ہے کہ دماغ پر بوجھ بننے لگتی ہے۔

یوسف ڈسکوی صاحب کے پروگراموں میں اس قسم کی بات نہیں ملی۔ بچوں کے پروگرام میں عام طور پر آڈیو کا یکساں لیول قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے لیکن مجھے ان کے پروگراموں میں آواز کا شعبہ بہت پیشہ ورانہ محسوس ہوا۔ پروگرام ”پپلاں دی چھاں“ میں زیادہ تر بیرونی عکس بندی ہوتی ہے۔ یہاں بھی کیمرہ، روشنی اور آواز مجھے مثالی نظر آئی۔ گویا یوسف ڈسکوی صاحب نے بابا عالم سیاہ پوش سے جو ابتدائی سبق حاصل کیے اور جو تجربات انہوں نے فلمی صنعت، پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز اور ریڈیو پاکستان لاہور میں حاصل کیے ، ان کا عملی مشاہدہ کیبل ٹی وی پر ان کے دونوں پروگراموں میں دکھائی دیتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ یوسف ڈسکوی صاحب اسی طرح اپنے استاد محترم کا نام روشن کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).