اے طائر لاہوتی!


دنیا کے بیشتر پسماندہ ملکوں میں جہاں خاندان حکومت کرتے ہیں، طاقتور قومی افواج کو خاندانی اقتدار کے لئے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ سیرالیون کے اسٹیونز نے انگریزوں سے آزادی کے بعد ملک پر قبضہ کیا تو دو کام کیے ۔ ہیروں کی کانوں کو خاندانی قبضے میں لے لیا اور قومی فوج کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے کمزور کیا۔ خانہ جنگی شروع ہوئی تو اقوام متحدہ کی امن فوجوں کو بلانا پڑا۔

آزادی کے فوراً بعد پاکستان کو دو اطراف سے در پیش سیکیورٹی خطرات کی بنا پر اس وقت کی سول اور عسکری قیادت کا امریکی کیمپ میں شمولیت کا فیصلہ باہم مشترک تھا۔ صدر ایوب کے دور میں امریکی امداد سے ہی ہماری افواج کی تنظیم نو کی گئی۔ برطانوی ڈھب سے نکل کر ’امریکی جنریشن‘ کا دور شروع ہوا تو فوج نے خطے میں ناصرف سیکیورٹی بلکہ خارجہ معاملات میں بھی طاقتور امریکی اتحادی کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔

بھٹو کو اقتدار ملا تو انہوں نے فوج کو خارجہ معاملات میں بے اثر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بظاہر امریکی کیمپ سے نکل کر اسلامی ممالک کا اتحاد بنانے کی کوششوں کا بیڑا اٹھایا۔ فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا تو ہم ایک بار پھر امریکہ کے بے لوث اتحادی بن گئے۔ اقتدار ملنے پر بھٹو کی صاحبزادی کو خارجہ معاملات کے باب میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے دباؤ میں رکھا۔ نواز شریف بے نظیر بھٹو کے خلاف فوج کے اتحادی بن کر ابھرے۔

نواز شریف کو اقتدار ملا تو معمولی فہم و فراست کے مالک، ایک کاروباری خاندان کے چشم و چراغ نوجوان وزیراعظم کو ادارے کے اندر اپنے بندے ’پلانٹ‘ کرنے کا خیال آیا۔ نہ صرف آرمی چیف بلکہ کئی سینئر عسکری کمانڈروں کو قیمتی تحائف اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی گئی۔ اس باب میں جزئیات معتبر کتابوں میں چھپ چکی ہیں۔ اپنے دوسرے دور اقتدار میں نواز شریف نسبتاً پر اعتماد ہو گئے تو اداروں سے بالا بالا غیر ملکی سربراہوں کے ساتھ ذاتی تعلقات استوار کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔

بھارت کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نام پر خفیہ سفارت کاری کا آغاز ہوا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ مل کر اسامہ بن لادن کو اغوا کرنے کا خفیہ منصوبہ براہ راست وزیر اعظم کی ذاتی نگرانی میں تیار کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے ڈی جی آئی ایس آئی کی نگرانی میں ریٹائرڈ کمانڈوز کی ایک ٹیم تیار کی گئی جبکہ عسکری قیادت کو اس خطرناک منصوبے سے قطعی طور پر بے خبر رکھا گیا۔ کارگل کے بعد میاں صاحب نے بھارتی قیادت کو یقین دلایا کہ مہم جوئی ان کی پیٹھ کے پیچھے کی گئی ہے۔ صدر کلنٹن سے تنہائی میں ملاقات پر مصر رہے۔ جنرل مشرف نے تختہ الٹا تو صدر کلنٹن نے ہی ان کی رہائی اور سعودی عرب منتقلی میں اہم کردار ادا کیا۔ کچھ ذاتی مفاد تو کچھ حالات کا جبر، جنرل مشرف کیمپ ڈیوڈ میں ناشتے کا اعزاز حاصل کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔

جنرل مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو پاکستان لوٹنے والے نواز شریف اب یقیناً ادارے کے بارے میں پہلے سے زیادہ بد گمان تھے۔ زرداری صاحب نے اقتدار سنبھالا تو امریکہ اور اس کی روایتی اتحادی عسکری قیادت کے درمیان مخاصمت کے سالوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایک طرف زرداری صاحب کی عسکری قیادت کے ساتھ کش مکش جاری تھی تو دوسری طرف انہی سالوں کو پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی اور بد گمانی کے عروج کا دور کہا جاتا ہے۔ ایک طرف آئی ایس آئی کو بے اثر کرنے کے لئے قانون سازی کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف کیری لوگر بل کے ذریعے پرکشش امریکی امداد کا شوشہ چھوڑا گیا۔

بل میں دی گئی شرائط مگر ایسی تھیں کہ جن کا مقصد سلامتی کے اداروں کو سویلین بالا دستی کے نام پر کمزور کرنا تھا۔ فوج کی طرف سے شدید ردعمل کی وجہ سے منصوبے کو کامیابی نہ مل سکی۔ تاہم اس دوران پاکستان کے سلامتی کے اداروں کے خلاف نہ صرف مغربی ممالک کی ایماء پر منظم پراپیگنڈہ مہم کا آغاز ہو چکا تھا بلکہ بھارت میں بھی پاکستان اور اس کے سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے کے لئے ایک وسیع نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلایا جا چکا تھا۔

خود ہمارے ہاں دو بڑے میڈیا ہاؤسز راتوں رات سویلین بالا دستی کے نام پر متحرک ہو چکے تھے۔ ان میڈیا ہاؤسز سے وابستہ صحافیوں نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر محاذ سنبھال لئے۔ سلامتی کے اداروں کو بے دست و پا کرنے میں زرداری صاحب کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت نواز شریف خود کو اقتدار میں لوٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ تاہم خود نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تو ادارے سے ان کی ناراضگی ان کے چہرے پر صاف عیاں تھی۔

جنرل مشرف کے خلاف بغاوت کے مقدمے اور انہی دو مخصوص میڈیا ہاؤسز کی مدد سے کبھی ایک صحافی پر ہونے والے مشکوک حملے کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف معاندانہ مہم تو کبھی ڈان لیکس کے ذریعے سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ پاکستان دشمن بھارتی قیادت سے خفیہ ملاقاتوں میں اپنی مجبوریوں کا رونا رویا جاتا رہا۔

سال 2014 ء میں عمران خان نے دھرنا دیا تو میاں صاحب دوبارہ اپنے قدموں پر نہ اٹھ سکے۔ دباؤ کے اس ماحول میں عمران خان کی مقبولیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لئے یقیناً اطمینان کا باعث بنی ہوگی۔ عمران خان حکومت میں آئے تو وہ تمام قوتیں ان کے خلاف یکسو ہو گئیں کہ جو پاکستانی افواج کو مغربی ایماء پر بھارت اور افغانستان میں امریکی اہداف کے راستے میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ دونوں بڑے سیاسی خاندان بھی عمران خان کو محض کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اپنے خلاف تمام مقدمات کے پس پشت خفیہ ہاتھوں کو دیکھ رہے تھے۔ سیاسی جماعتوں، انصاف کے سیکٹر اور میڈیا کے اندر موجود انہی عناصر کا گٹھ جوڑ گزشتہ چند سالوں کے درمیان ایک منظم مہم کے ذریعے نہ صرف عسکری قیادت پر کڑی تنقید کے بعد ان کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو چکا ہے، بلکہ عمران خان کی تمام تر غیر معمولی مقبولیت کے باوجود انہیں گرانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

عمران خان اگرچہ ایک بہادر، ایماندار اور مخلص انسان ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی کئی ایک شخصی خامیاں بھی مگر ان کی موجودہ مشکلات کا سبب بنی ہیں۔ تاہم اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں عالمی اسٹیبلشمنٹ خطے میں اپنے اہداف کی راہ میں ان کی ذات کو بوجہ رکاوٹ سمجھتی ہے تو وہیں کرپشن کے سنگین مقدمات میں گھرے ہوئے سیاسی خاندان بھی اپنی بقاء ان کے منظر نامے سے ہٹ جانے میں دیکھتے ہیں۔ نواز شریف کی لندن میں ملاقاتوں میں یقیناً یہ تمام معاملات زیر غور آتے رہے ہیں۔

وزیراعظم کے خطاب کے بعد سے شہباز شریف سمیت تمام نون لیگی رہنماء ہمیں مسلسل بتا رہے ہیں کہ ہمارے وینٹیلیٹر کا سوئچ اور ہمارے عوام کی روزی روٹی امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ احسن اقبال ہمیں کیوبا اور شمالی کوریا کے انجام سے ڈرا رہے ہیں۔ عسکری قیادت کو بھی یقیناً احساس ہے کہ نپولین کے زمانے سے ہی فوجیں بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ پیش قدمی کرتی ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments