مولانا دین محمد وفائی


مولانا دین محمد وفائی، برصغیر کی ایسی جامع صفات شخصیت تھے جنہوں نے علم، ادب، صحافت، سیاست اور مذہبی حوالے سے یادگار خدمات سر انجام دیں۔ ان کی زندگی جدوجہد اور اصول پرستی کا ایک نمونہ تھی۔

مولانا دین محمد وفائی 4 اپریل 1894 ع کو سندھ کے تاریخی شہر شکارپور کے گاؤں گڑھی یاسین میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد حکیم گل محمد سے حاصل کی۔ ان کے والد اپنے وقت کے فارسی زبان کے مشہور استاد تھے۔ مولانا دین محمد کی ابھی تعلیم جاری ہی تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اس ناگہانی صدمے کی وجہ سے وہ پریشان تو کافی ہو گئے تھے لیکن باوجود اس کے انہوں نے حصول تعلیم کے جذبے کو ختم نہیں ہونے دیا۔ ان کی تعلیمی تربیت ان کے ایک عزیز مولانا محمد عالم نے کی۔ اس کے بعد وہ لاڑکانہ کے قریب سونا خان جتوئی کے مدرسے سے مولانا غلام عمر جتوئی سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ سندھ مدرستہ الاسلام میں معلم مقرر ہوئے، جہاں ان کی ملاقات برصغیر کی بڑی بڑی سیاسی و مذہبی شخصیات سے ہونے لگی۔

اس وقت تک مولانا دین محمد وفائی کی علمی حیثیت کا شہرہ پوری سندھ میں ہو چکا تھا جس کے نتیجے میں ان کی خدمات رانی پور کے پیران اور راشدی خاندان کے امام الدین شاہ نے حاصل کیں۔ اس دوران ان کی علمی، ادبی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ اسی دوران مولانا دین محمد نے تحریک پاکستان میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان کی علمی و تاریخی تقاریر نے تحریک کو بھرپور تقویت دی۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے علمائے کرام، مذہبی و سیاسی رہنما تحریک میں شامل ہوتے گئے، تحریک شدت اختیار کرنے لگی اور انگریز حکمرانوں کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ چنانچہ برصغیر پاک و ہند میں تمام تحریکوں کی طرح سندھ میں بھی خلافت کا زور توڑنے کے لئے انگریزوں نے اپنے پٹھوؤں کے ذریعے انتشار پھیلانا شروع کر دیا۔ اس کام میں بعض نام نہاد دینی رہنماؤں سے بھی تحریک کے خلاف فتوے حاصل کر کے خوب تشہیر کی جس سے اس تحریک کو بھرپور نقصان پہنچا۔

مولانا دین محمد وفائی نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا، اس سے مقابلہ کرنے اور حکمت عملی تیار کرنے کے لئے وہ سکھر سے جاری ہونے والے اخبار ”الحق“ کے مالک شیخ عبد العزیز سے جا ملے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس وقت کے ایک اور نامور مذہبی عالم مولانا تاج محمد امروٹی بھی اس جہاد میں ان کے ساتھ مل گئے۔

انگریزوں کے گمراہ کن پروپیگنڈا کا جواب دینے کے لئے پہلا کتابچہ انہوں نے 1925 ع میں لاڑکانہ میں منعقدہ خلافت کانفرنس کے موقعہ پر تقسیم کیا گیا جس میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبد الباری لکھنوی اور مولانا شوکت علی نے بھی شرکت کی تھی۔ اس کے بعد مولانا دین محمد وفائی کو جمیعت علمائے اسلام سندھ کا ناظم مقرر کیا گیا تھا۔ وفائی صاحب آخری وقت تک اس عہدے پر خوش اسلوبی سے فائز رہے۔ انہوں نے اپنے دور میں جمیعت کو فعال کیا، نشر و اشاعت کی وجہ سے وہ کراچی میں قیام پذیر ہو گئے۔

مارچ 1920 ع میں ”الوحید“ اخبار جاری ہوا۔ اس میں مولانا وفائی بطور نائب مدیر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے 1923 ع میں رسالہ ”توحید“ جاری کیا۔ اس رسالے میں علمی، تاریخی اور مذہبی مضامین شایع ہوتے تھے۔ 1935 ع میں روزنامہ ”الوحید“ کے مدیر مقرر ہوئے۔ یہ اس وقت کا پراثر اور بڑا سندھی اخبار تھا، انگریزوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتا تھا۔ ہر خبر، اداریہ، مضمون وہ بغور مطالعہ کرنے کے بعد اخبار پر پابندی کا جواز تلاش کرتے تھے۔ وہ کچھ عرصہ ”آزاد“ اخبار کے بھی مدیر رہے۔

مولانا دین محمد وفائی نے ”توحید“ رسالے کو بھی اسی طرح شعوری اور فکری انداز سے جاری کیا۔ وہ صحافتی فرض بے انتہا ایمانداری سے ادا کرتے رہے۔ انگریز حکمران بھی ان کی ایمانداری کے معترف تھے۔ وہ ایسے مضامین اور تجزیے شامل کرتے تھے کہ مطالعہ کرنے والے کو اپنی رائے سے قائل کر لیتے تھے۔ مولانا صاحب نے اس رسالے کو آخری دم تک سنبھالا اور اس کا معیار برقرار رکھا۔

مولانا دین محمد وفائی نے لاتعداد مضامین تحریر کیے ، کئی تقاریر لکھیں جبکہ مجموعی طور پہ 60 کتب بھی تخلیق کیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

تاریخ محمد مصطفیٰ صہ، فاروق اعظم رضہ، صدیق اکبر رضہ، سیرت عثمان رضہ، حیدر کرار رض، خاتون جنت، قرآنی صداقت، ہندو دھرم اور قربانی، اظہارالکرامت، لطف اللطیف، شاہ نے رسالے جو مطالعو، تذکرہ مشاہیر سندھ، الہام الباری، خلفاء راشدین، مقصد زندگی، راحت الروح تذکرہ مخدوم نوح ہالائی۔

امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی جب 1939 ع میں جلاوطنی کے بعد واپس آئے اور سندھ میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کا تعلیمی مرکز کھولا تو مولانا دین محمد وفائی بھی ان کے ساتھ رہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے ساتھ انہوں نے سندھ ساگر پارٹی میں بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ وفائی صاحب متعدد بار گرفتار ہو چکے تھے مگر انہوں نے جدوجہد نہیں چھوڑی۔ وہ شعوری اور بیداری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کی تحریروں نے جس طرح تحریک آزادی میں جان ڈالی شاید ہی سندھ میں کوئی ایسے عالم اور دانا ہوں۔ مولانا وفائی 10 اپریل 1950 ع میں سندھ کے تاریخی شہر سکھر میں انتقال کر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments