بابا جی اور دیسی لبرل


جب سے پردیس آیا ہوں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ میری ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے مجھے ”دیسی لبرل“ ہی کہہ دیا۔ میں پہلے پہل تو بہت حیران و پریشان ہوا، سر پیٹ لیا۔ بار بار اٹھ کر آئینے میں اپنا منہ ملاحظہ فرمایا اور سوچا ”یہ منہ اور دیسی لبرل؟“ شکر کیا کہ کسی دل جلے نے ”خونی لبرل“ نہیں کہہ دیا۔ دیار غیر میں کیا کیا نہیں سنا اور دیکھا، سوچ کر آنکھیں بھر آئیں۔ یقین کیجئے کہ میں ایک نالائق آدمی ہوں۔ تلاش ”علم“ کا بھوت نہ سوار ہوتا تو اپنا وطن، گھر بار، اپنے یار، اور اپنا گلی محلہ کون چھوڑتا ہے جناب؟

پاکستان میں اپنی کتنی لاٹ صاحبی تھی۔ شادی ہونے تک ماں نے، اور شادی کے بعد بیوی نے میرے کام کر دیے۔ پردیس آ کر بہت کچھ پہلی بار کیا۔ کھانا پکایا، برتن دھوئے، کپڑے دھوئے، اپنے غسل خانے اور گھر کی صفائی کی۔ پھر پڑھائی بھی کی، واللہ کمر ٹوٹ گئی۔ اتنی مشقت کرنے کے بعد مجھے عورتوں کی عظمت کا اس قدر شدت سے احساس ہوا کہ سوچا کہ فیمنسٹ ہو جاؤں لیکن پھر ”بابا جی“ سے ملاقات ہو گئی۔ بابا جی کی عمر تو مجھ سے کئی برس کم ہے لیکن مزاج میرے سے کئی برس بڑا ہے۔

بابا جی اور میں دونوں پاکستانی ایک ہی یونیورسٹی میں ایک ہی کلاس میں علم سیاسیات کے رسیا ہیں۔ کتابیں کھا پی کر اگر گزارا کر سکتے تو بابا جی اپنے بستر سے کبھی نہ اٹھتے۔ ان کا بس چلے تو علمی و روحانی طاقت سے بازار سے شاپنگ کر لیا کریں، اور گھر گرہستی کے کام کاج نمٹا لیا کریں۔ ان کی اسی سستی و ہڈ حرامی کو دیکھتے ہوئے ہم نے ان کا نام پیار سے ”حضرت پیر لبرل امام بابا یونس کتابی کیڑے والی بڑی ہڈ حرام سرکار“ رکھ دیا ہے یعنی کہ مختصراً بابا جی۔

بابا جی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اسلام آباد کے فارغ التحصیل ہیں۔ جی پی اے کے میدان میں دبا دب چوکے چھکے رسید کرتے سکالر شپ پر امریکہ تشریف لائے ہیں۔ سچ پوچھئے تو کلاس میں اپنی گاڑی بھی بابا جی کے دھکے پہ ہی چلتی رہی ہے۔ بابا جی رج کے سیاسی طور پر لبرل خیالات کے مالک ہیں، فیمنسٹ اور ”موم بتی مافیا“ بھی ہیں۔ دین، دھرم، ریاست، سیاست، ثقافت اور عسکری کون سا ایسا موضوع ہے جس پر ہماری گفتگو نہ ہوئی ہو اور چند ایک باتوں کو چھوڑ کر کون سی ایسی بات ہے جس پر ہمارا اختلاف نہیں ہوا۔ ”چوئی صاحب“ سے مل کر بابا جی کو ان کے موم بتی مافیا ہونے پر ہم نے بہت غیرت دلائی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔

بابا جی کے ساتھ دس ماہ رہ کر ایک اچھے دوست اور چھوٹے بھائی کی مانند ان سے بڑا انس ہو گیا۔ ہر وقت کا ساتھ، ایک تعلیمی فیلڈ اور ملتے جلتے تحقیقی موضوعات اور ہر بات کی کھال اتارنے والی گفتگو۔ چند ہفتے تحمل سے ان کی باتیں سن کر احساس ہوا کہ یہ ہم نے جو لیبل بنا لئے ہیں ”لبرل“ ، ”بنیاد پرست“ ”موم بتی مافیا“ ”شدت پسند“ ان سب کے پیچھے دراصل ہم سب انسان ہیں۔ اگر ہمارے اندر حقیقی معنوں میں علم اور امن دوستی ہو تو ہم خط کا لفافہ دیکھ کر خط کی تحریر بھانپنے کی کوشش نہ کریں۔ ایک دوسرے کو نفرت انگیز لیبل سے نواز کر ”کافر“ اور ”غدار“ کہہ کر علم اور تحمل کے دروازے کو خود پر بند نہ کر لیں۔

بابا جی سے ہر گفتگو بے حد علمی اور علم دوست ماحول میں ہوتی رہی۔ ماہ رمضان کی آمد ہوئی تو فیصلہ کیا کہ سحر و افطار کا بندوبست بابا جی کے فلیٹ پر کیا جائے۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اپنی اپنی نماز پڑھنے کے بجائے باجماعت نماز پڑھ لی جائے۔ مسئلہ امامت درپیش ہوا تو اپنی عمر کے حساب سے گناہوں کی زیادتی کا سوچ کر میں نے تو امامت سے معذرت کرلی۔ بابا جی، جو کہ ایک ہونہار طالبعلم کی طرح کلاس میں ہر کام میں سب سے آگے ہوتے ہیں، نے امامت کا بیڑہ اٹھا لیا۔ وقت نماز آیا تو ان کی خوش الحان قرآت میں نماز پڑھ کر بہت ہی روح پرور تصور قائم ہوئے۔ اور بہت دیر تک یہ سوچ کر دل کٹتا رہا کہ ہائے ایسے کتنے ہی نوجوانوں کو ہم ”لبرل“ کی گالی دے کر گولی مار دیتے ہیں۔

سچ اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ حقائق اظہر من الشمس ہوتے ہیں۔ وہ کسی دلیل کے محتاج نہیں ہوتے۔ ہمارے ماننے یا نہ ماننے سے حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ جبکہ سچ سب کا ذاتی ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کو اپنے سچ پر قائل کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ گولی اور گالی کی نہیں۔ اسی لئے اللہ نے قرآن کو بھی دلیل کہا ہے۔ جہاں نوبت گولی اور گالی کی آ جائے تو جان لیجیے کہ آپ کی دلیل ہار چکی ہے۔ آپ کا سچ ادھورا ہے۔ اور ادھورا سچ منافق کا ہتھیار اور جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہے۔ کاش اللہ ہم سب کو بابا جی کی طرح علم دوست اور تحمل اور برداشت سے دوسرے کے دلائل اور سچ کو سننے والا بنا دے چاہے اس کے لئے ہم سب کو تھوڑا سا دیسی لبرل اور موم بتی مافیا ہی کیوں نہ بننا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments