یمن اور افغانستان میں کیا ہو رہا ہے؟


سرمایہ دارانہ نظام جہاں بہت سے مواقع پیدا کرتا ہے وہاں دوسری طرف بہت سے مواقع چھین لیتا ہے۔ شاید اسی لئے کارل مارکس نے کہا تھا کہ ”آخری سرمایہ کار جس کو ہم پھانسی دیں گے وہ ہو گا جس نے ہمیں دیگر لوگوں کو پھانسی پر چڑھانے کے لئے رسی فروخت کی ہو گی۔“ ایک طرف یہ نظام معاشی مواقعوں کی بہتات پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف یہ نظام اپنے فائدے کے لئے پورے پورے ملک اجاڑ دیتا ہے۔ شام، لیبیا، عراق، افغانستان، یمن، کانگو، ایتھوپیا اور یوکرائن تو حالیہ مثالیں ہیں۔

اس سے قبل کیپٹل ازم لاطینی امریکہ کے کم و بیش ہر ملک کو جنگوں میں دھکیل چکا ہے۔ اکیسویں صدی میں اگرچہ انسانی تہذیب و ترقی اپنے معراج کو پہنچ چکی ہے اور دنیا سمٹ کر گلوبل ویلج بن چکی ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی بھوک اور غربت کا شکا رہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف لوٹ مار کا دور دورہ ہے تو دوسری طرف اتنی سخاوت نظر آتی ہے کہ حاتم طائی کی روح بھی شرمندہ ہو جائے۔ اس پہ مستزاد کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی (CSR) ماڈل کے تحت کاروباری اداروں کا منافع کی ایک مخصوص رقم کا فلاحی کاموں پر خرچ کرنا بھی عالمی قوانین کا حصہ ہے لیکن پھر بھی دکھی اور ضرورت مند لوگوں کی ہر طرف بھرمار نظر آتی ہے۔

اس کی وجہ امیر ممالک اور عالمی معاشی اداروں کا غریب ممالک کو صارفین کی منڈی بنانے کے لئے مستقل طور پر بحرانوں کی کیفیت میں یا اپنی پالیسیوں کے تابع رکھنا ہے تاکہ یہ ممالک یا تو اپنے پاؤں پہ کھڑے نہ ہو سکیں اور اگر ہوں تو عالمی سیٹھوں کی شرائط پر کھڑے ہوں۔ پوسٹ ماڈرنزم کے بعد اب پوسٹ پوسٹ ماڈرنزم کے عظیم بیانئے کا نقارہ بج رہا ہے جس میں دنیا کو پیش بہت سے دیگر چیلنجز کے علاوہ غربت کے چیلنج پر بھی سیر حاصل مباحث اور عملی کارروائیاں ہوں گی۔

اگر ہمارے نصیب میں ہوا تو شاید اچھے دن اور اچھی خبریں سن پائیں لیکن انسانی تاریخ ازل سے ہی متضاد سوچوں اور مفادات کے ٹکراؤ کے زیر اثر رہی ہے اور شاید ابد تک یہی سلسلہ چلتا رہے۔ سر دست یوکرائن، یمن اور افغانستان میں انسانی تاریخ کا نوحہ لکھا جا رہا ہے۔ یوکرائن خوش نصیب ہے کہ اسے مغربی دنیا کی توجہ حاصل ہے اور وہ انسانی المیہ یہاں پر نظر نہیں آتا جس سے یمن اور افغانستان دوچار ہیں۔ اس پہ مستزاد یورپی یونین کی امداد تو ایک طرف صرف امریکہ نے یوکرائن کے لئے تیرہ ارب ڈالر کا امدادی پیکج حال ہی میں منظور کیا ہے جبکہ یمن اور افغانستان کا کوئی والی وارث نظر نہیں آ رہا، مسلمان ممالک تو اجتماعی بے حسی کا شکار ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے او سی ایچ اے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یمن میں جاری بحران اور سنی شیعہ دھڑوں کی لڑائی میں اب تک چار سے پانچ لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ لاکھوں یمنیوں کو انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ یمن کی آدھی سے زائد آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یمن اپنی خوراک کی بیشتر ضروریات درآمدات سے پوری کرتا ہے لیکن وہاں جاری بحران سے یمنی کرنسی اپنی قدر کھو چکی ہے اور شدید مہنگائی کے باعث لوگوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔

لاکھوں لوگ اپنی بنیادی ضرورتیں تک پوری کرنے سے قاصر ہیں جبکہ چالیس لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس بحران میں تمام مقامی متحارب فریق اور ان کے سرپرست بشمول سعودی عرب اور ایران انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور بے گناہ سویلین پر بمباری اور مخالفین کا قتل عام ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مخالفین کو غذا، پانی اور ادویات کی فراہمی کی روک تھام جیسے ہتھکنڈے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

رہائشی علاقے، سکولوں اور ہسپتالوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ یہ متحارب گروپ امدادی اداروں کو بھی کام سے روک رہے ہیں جس سے صورتحال مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت یمن کی آدھی آبادی کو فوری طور پر خوراک کی مد میں امداد درکار ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک تہائی سے زیادہ بچے جبکہ بے گھر ہونے والوں میں سے پندرہ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ کئی علاقوں میں بارودی سرنگیں نصب ہیں جس سے نو ہزار سویلین اب تک مارے جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ غیر قانونی حراست، تشدد اور جبری گمشدگی جیسے واقعات عام ہیں۔ خواتین کے حقوق کی پامالی روٹین کی بات ہے۔ پیدائش کے دوران زچہ و بچہ کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یمن میں شادی کی کم از کم عمر کی حد متعین نہیں ہے، اس لئے مالی ضرورت پوری کرنے کے لئے والدین کم سن بچیوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اس تمام صورتحال کے ذمہ دار نہ صرف مقامی متحارب فریق اور گروپ ہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، سپین، جرمنی، آسٹریلیا اور دیگر ممالک بھی ہیں جو لڑائی جاری رکھنے کے لئے وہاں مختلف گروپوں یا ان کے سرپرست ممالک کو تواتر کے ساتھ اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔

افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بھی بہت تشویشناک ہے اور یمن سے مختلف نہیں۔ طالبان اور امریکہ کی ضد کی وجہ سے وہاں بھی آدھی سے زیادہ آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اشرف غنی کی کرپٹ حکومت کے برعکس ایماندار طالبان کا دور افغانوں پر بہت بھاری ثابت ہوا ہے کیونکہ ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے افغانستان پر طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کی جس کے سبب کاروبار زندگی معطل ہیں۔ ہسپتال ناکافی خوراک کے شکار مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں، معاشی پہیہ جمود کا شکار ہے اور سرمایہ کاری ندارد۔

حکومت کی تبدیلی اور معاشی بندشوں کے باعث بے روزگاری اور مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے پیسے نہیں جبکہ بینکاری اور حکومت سازی کے دیگر تمام شعبہ جات تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ حالات کی ابتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ نے کسی بھی بحران کے شکار ملک میں خوراک کی کمی سے نمٹنے کے لئے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی اپیل کی ہے جس کے مطابق فوری طور پر چار ارب ڈالر درکار ہیں۔

اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے مدد کا جو وعدہ چار ماہ پہلے کیا تھا وہ بھی فائلوں تک ہی محدود ہے۔ یمن اور افغانستان میں اس وقت مجموعی طور پر پانچ کروڑ انسان خوراک کی شدید کمی سے زندگی اور موت کے درمیان لٹک رہے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگرچہ ایک مضبوط اور طاقتور فوج کی موجودگی میں ممکن نہیں لیکن پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات بھی سول وار اور مزید معاشی تباہی کی طرف اشارہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ افغان جنگ میں طالبان کی سپورٹ کے تناظر میں پاکستانیوں کی اکثریت کی ذہنی استعداد کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

ایسے میں اگر سیاسی بحران شدت اختیار کرتا ہے تو پہلے سے جاری شدید مہنگائی میں اضافہ ہو گا، ڈالر مزید مہنگا ہو گا اور صورتحال تیزی سے سول وار کی طرف بڑھ سکتی ہے جسے فوج بھی کنٹرول نہیں کر سکے گی۔ اس لئے ملک کے ذمہ داروں کو فوری نوعیت کے اقدام اٹھاتے ہوئے سیاسی استحکام کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے ورنہ پہلے سے جاری معاشی بحران سنگین صورتحال اختیار کر جائے گا اور شاید پاکستان کو اسی سمت دھکیلنا ہی ایک بین الاقوامی سازش ہو۔

یاد رہے ایک غیر مستحکم پاکستان عالمی قوتوں کے لئے بھی خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ افغانستان، عراق، یمن، شام، لیبیا کے برعکس پاکستان ایک ایٹمی ملک بھی ہے۔ اس لئے امید ہے کہ معاملات ایک حد سے زیادہ آگے نہیں جائیں گے۔ یوکرائن، یمن، افغانستان اور افریقہ کے سول وار کے شکار ملکوں کے حالات کے تناظر میں او آئی سی ممبران، چین اور دیگر بڑے ممالک کو مثبت کردار ادا کرتے ہوئے دنیا میں بحرانوں کے خاتمے کا روڈ میپ بنانا ہو گا ورنہ تیسری عالمی جنگ کے پھیلاؤ سے چین کی بانسری بجانے والے ملکوں کا سکون بھی غارت ہو سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ فوری اقدامات اٹھاتے ہوئے یمن اور افغانستان میں جاری انسانی المیے سے نمٹنے کے لئے تمام ممالک اور عالمی میڈیا کو اپنا کردار نبھانا چاہیے ورنہ یہ عالمی ضمیر پر بوجھ ہو گا اور اگر بھوک کے سبب یمن اور افغانستان میں لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں تو اسے جدید عالمی تہذیب اور کیپٹل ازم کی ناکامی تصور کیا جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments