“سچل سارا س


حضرت صوفی عبد الوہاب المعروف ’سچل سرمست‘ ( 1739۔ 1827 ) ، سلطان الا اولیاء، مرشد کامل، صوفی، تذکرہ نگار، فلسفی، عالم، اور نامور شاعر۔ جناب صلاح الدین بن محمد حافظ عرف میاں صاحب ڈنو کے فرزند، درازہ شریف خیرپور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں ہی اپنے والد کو کھو دیا اور ان کی پرورش ان کے دادا حضرت صوفی محمد حافظ عرف صاحب ڈنو نے کی، پھر اس کے چچا حضرت صوفی عبدالحق، جو بعد میں ان کے ”مرشد“ اور سسر بنے۔ جنہوں نے روحانی علم اور خود شناسی کی راہ پر سچل کے قدم جمائے۔ سچل نے اپنے چچا اور مرشد کی صحبت میں صوفیانہ علوم کے پیالے سے گہرا مشروب پیا۔

جیسا کہ ان دنوں کا رواج تھا، سچل سرمست نے مقامی ”مکتبوں“ میں باقاعدہ مطالعہ کے ذریعے فارسی اور عربی میں مہارت حاصل کی اور جلد ہی قرآن پاک کو حفظ کر لیا۔ کم عمری میں ہی انہوں نے پیچیدہ روحانی فلسفے (تصوف) کے لیے غیر معمولی قابلیت کا مظاہرہ کیا، اور کہا جاتا ہے کہ جب وہ ابھی بچے تھے (تقریباً سات سال) ، سندھ کے معروف صوفی بزرگ اور شاعر حضرت شاہ عبداللطیف ڀثائی نے ان کے بارے میں کہا: ”یہ ہونہار بچہ! اس دیگچی (تصوف کے علم) کا ڈھکن اٹھائے گا، جو ہم نے پکائی ہے“ ، جب شاہ لطیف درازہ حضرت صاحب ڈنو سے ملنے کو آئے۔

شاہ لطیف دو بار سچل کے دادا صاحب ڈنو کے پاس ملنے گئے تھے۔ سچل سرمست نے واقعی علم عشق کی دیگ کا ڈھکن اتار دیا۔ بزرگ کا فرمان، شاعر کی زندگی میں اس کے الوہی تجربات کے واضح انکشاف سے پورا ہوا۔ جیسا کہ اس کے جرات مندانہ تاثرات ظاہر کرتے ہیں، سچل نے رائے عامہ کی بہت کم پرواہ کی اور جو محسوس کیا وہ کہے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کچھ الفاظ میں صوفی منصور حلاج کی روح ہے، جس نے کہا تھا، ”انا الحق۔ (میں حق ہوں )“ ۔ بیرونی مذہبی شکلوں اور عقیدوں کا ان کی نظر میں شاید ہی کوئی اہمیت تھی، اور وہ عام طور پر خدائے بزرگ و برتر کے غور و فکر میں مگن رہتے تھے۔ ان کی زندگی ”الفقیر لا یحتاج الاھو“ (محبوب کے سوا کسی کا محتاج نہیں ہوتا) کی ایک زبردست تشریح تھی۔

وہ 88 برس کی عمر میں اپنے پیچھے صرف شاگرد چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے، ان میں سے ایک نانک یوسف تھے، جو ایک عظیم صوفی استاد، ولی اور شاعر بنے۔

سچل سرمست فارسی میں درج ذیل تصانیف کے مصنف ہیں۔
1۔ دیوان آشکارہ
2۔ رہبر نامہ
3۔ راز نامہ
4۔ گوداز نامہ
5۔ عشق نامہ
6۔ تر نامہ

سچل نے فارسی شاعری میں ”آشکار“ اور ”خدائی“ کو بطور تخلص نام دیا اور سندھی، سرائیکی اور اردو شاعری میں وہ خود کو ”سچو“ اور ”سچل“ (سچ) کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سچل کا کلام ”سچل سرمست جو کلام“ (سندھی) ؛ رسالو سچل سرمست (سرائیکی) ، سچل سرمست (انگریزی) میں چھا جا چکا ہے۔

ان کی شاعری، فارسی اور سندھی دونوں زبانوں میں ”پاک ترین کرنوں کے بہت سے جواہر“ سے بھری پڑی ہے۔ یہ تصور اور ظاہر میں عظیم کلام ہے۔ روحانیت کے ارتقاء میں ان کا ذہن فکر کے خوشگوار بہاؤ میں ڈوبا ہوا ہے جو سچل کے روحانی میدان پر اپنے پرجوش تجربات کی و شد تفصیل کو پھیلاتا ہے۔

سچل نے خود کہا ہے : عارف جب اپنے اندر ”حق“ کو محسوس کر لیتا ہے تو فرق کے تمام ادراک کھو دیتا ہے۔ پہر وہ اس ایک میں سما جاتا ہے جہاں دوئی نہی رہتی صرف اور صرف توحید اور وحدانیت۔ نفس یا انا کا خاتما عارف یا طالب کو بالکل خالص اور کسی بہی تصادم سے پاک بناتا دیتا ہے۔ تصوف روحانی متلاشی (طالب) کو ”مرشد“ کی اہمیت پر خصوصی زور دیتا ہے، جو عاشق اور محبوب کے درمیان ربط کے طور پر جانا جاتا ہے۔

صوفی مرشد عبدالوہاب اپنے مرشد کی تعریف میں لکھتے ہیں : ”روحانی متلاشی کی نظر میں دنیاوی چیزوں کی کوئی اہمیت یا قیمت نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ اپنے“ مرشد ”کے ہاتھوں امرت الہی کی طلب میں رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا:“ وہ زائر جس نے اپنا مقصد مقصود حاصل کر لیا ہے وہ مختلف عقائد کے ناموں سے لاتعلق ہے جو مختلف فرقوں کے پیروکاروں کے درمیان جھگڑے کا باعث بنتے ہیں۔ اس سے عارف کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس نام یا مسلک سے جانا جاتا ہے۔

اس نے وہ اعتکاف پایا ہے جس میں وہ مسلسل ناقابل بیان خوشی سے لطف اندوز ہوتا ہے : ”روحانی خوشی صرف انا اور نفس کی خواہشات کے مکمل فنا سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ عبادات کی محض ظاہری شکلیں انسانوں کو متاثر کر سکتی ہیں، لیکن وہ خدا کی نظروں میں پسندیدہ نہیں ہیں۔“ مرشد عبد الحق نے انہیں صوفی راستے پر گامزن کیا۔ سچل ان سے اس قدر محبت اور احترام کرتے تھے کہ مرشد میں ان کو خود ”سچ“ نظر آتا تھا، وہ کہتے ہیں : ”میرا مرشد عبدالحق ہے۔ “ عبد ”نہیں، وہ حق الحق ہے، سچ کا سچ ہے۔

رہبر نامہ کتاب جو مابعدالطبیعات (میٹا فزکس) کے موضوع پر ہے، جو روحانی میدان میں اپنے تجربات کی تصویر کشی کرتی ہے، اور جو روحانی متلاشیوں کے لیے ایک رہنما کا کام کرتی ہے۔ اس کی تصنیف ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی۔ وہ انسانی تشخیص کے چار عالم عام طور پر معلوم مراحل کا حوالہ دیتی ہے، عقل، ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت، اور آخری کو عروج کے طور پر بیان کرتا ہے۔ عقیدت مند (طالب) کو لاہوت میں خدا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، اور وہ اس مرحلے سے ناسوت تک انسان کے زوال کا پتہ لگاتا ہے۔ وہ ناسوت میں اپنے انا پرست وجود سے لے کر لاہوت میں سپرمین کے شاندار عروج تک انسان کی بتدریج ترقی کی مزید وضاحت کرتا ہے۔

عبدالوہاب نے مصائب (دکھ و درد) کا خیرمقدم خالص روحانی زندگی کے پیش نظر کے طور پر کیا ہے اور محبوب کی طرف اپنے سفر میں طالب کے لیے خوشی اور ذائقہ ہے۔ ”عارف کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ درد اور خوشی میں توازن برقرار رکھے تاکہ خود کو اعلیٰ ترین مرحلے کے لیے اہل بنا سکے۔ صرف وہی کامیاب ہوتا ہے جس کا دل خدائے بزرگ و برتر پر مرکوز ہوتا ہے اور جو سچے عاشق کی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتحاد کی خاطر ہر تکلیف کو خوش دلی سے برداشت کرتا ہے۔

مزید وہ کہتا ہے :“ اللہ تعالیٰ کی ذات مطلق کی صفت بندے کے لیے تب ایک مکمل حقیقت بن جاتی ہے جب اس کی باطنی آنکھ محنت اور ”مرشد“ کے فضل سے کھل جاتی ہے۔ انا اپنی شناخت کے خاتمے کے ذریعے ہی خالص جوہر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پانی کا ایک قطرہ اور روشنی کی ایک کرن کو عام طور پر نقطہ کی وضاحت کے لیے مثال کے طور پر لیا جاتا ہے۔

حضرت سچل سرمست درمیانے قد کا آدمی تھا، ہرن جیسی بڑی اداس آنکھیں، چمکتی پیشانی، لمبے بال اور نرم و ملائم داڑھی تھی۔ وہ سادہ لباس پہنتے تھے، سبزی کی تھوڑی سی مقدار دن میں دو بار ایک کشتہ (کشکول) میں کھاتے۔ تنہائی پسند، وہ عشق الہی کے نشہ میں سرمست رہتے تھے، اور اس کی جوش و خروش (وجد) کی کیفیت اس وقت ظاہر ہوتی، جب وہ ”یک تارو“ (ایک ساز) بجاتے جس کے بعد وہ چکر لگاتے (ناچتے ) ہوئے اشعار کا نزول کرتے، وہ محبت کے راستے پر لطف اندوز ہوتے اور عظیم ترین صوفی تھے۔ سچل نے فرمایا! اے زاہد، تم کو کیا معلوم میری فقیری کا: میں تو وحدت کی شراب پی کر مست ہوا ہوں ”۔ جس کے بعد سے ان کو سرمست کہا جانے لگا۔

سچل ابھی بھی عارفوں اور طالبوں پر عشق کی راھ پر شمع جلائے کھڑے ہیں، ایک شعر مین نئے طالبون کو نصیحت کرتے ہیں : ”جب عقیدت مند (طالب) خود شناسی حاصل کر لیتا ہے، تو تمام غیر معمولی فرق سورج کے سامنے دھند کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ صرف ابدی سچائی ہی قائم رہ جاتی ہے۔ عارف عشق کے سفر میں مالک کو بندے سے، خالق کو اس کی تخلیق سے ممتاز کرنے سے قاصر ہے۔“ روحانی متلاشی کا موازنہ ایک پرندے سے کیا جاتا ہے جو اڑ نہیں سکتا جب تک کہ اس کے دونوں پنکھ مضبوط نہ ہوں۔ اس کے معاملے میں دو ”پنکھ“ ( ”ذکر“ اور ”فکر“ ) ہیں (یعنی اسم پاک کو دہرانا اور اس کی اہمیت پر عمل کرنا) ۔

کوئی بھی چیز دو دلوں کو اتنی مضبوطی اور باریک بینی سے نہیں جوڑ سکتی، جیسا کہ عشق۔ جب عاشق مصائب (درد اور ملال) کی آتشی آزمائش سے گزر کر اپنے محبوب کو جیت لیتا ہے تو اس کی آہ محبوب کی آہ بن جاتی ہے : ہر ایک کی شناخت دوسرے کی پہچان میں گم ہو جاتی ہے، وہ واقعی غم و اندوہ میں ایک ہوتے ہیں۔

سالانہ تین روزہ عرس، خیرپور میں درازہ (جسے کو سچل کی شان میں ”در۔ راز“ ، یا الہی اسرار کا دروازہ کہا جاتا تھا) پر منعقد کیا جاتا ہے، جو 13 رمضان المبارک کو شروع ہوتا ہے، ان کی شاعری پر مبنی ایک ادبی کانفرنس، صوفی راگ اور موسیقى سمیت، ہزاروں عقیدت مند سالانہ دعوت میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ ابھی مزار محکمہ اوقاف، حکومت سندھ کی انتظامی نگرانی میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments