یوکرین اور دو انسان


یہ ہمیشہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جنگ کا پہلا حملہ سچائی پہ ہوتا ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال امریکہ میں ایک پندرہ سالہ کویتی بچی نیرہ کی عراقی فوج کے خلاف جھوٹی گواہی تھی جس نے گواہی کے دوران رو کر یہ بتایا کہ اس نے عراقی فوجیوں کو اسپتال میں بچوں کو انکیوبیٹرز سے نکالتے ہوئے دیکھا، انہوں نے انکیوبیٹرز چوری کر لئے اور بچوں کو مرنے دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ جنگ کے دوران نیرة کبھی بھی کویت میں موجود نہیں تھی، اور یہی نہیں بلکہ وہ کویتی سفیر کی بیٹی تھی۔ امریکی صدر جارج بش نے اس گواہی کو کم از کم دس مرتبہ اپنی تقریروں میں استعمال کیا تا کہ رائے عامہ کو امریکی فوجی مداخلت کے لئے تیار کیا جائے۔

جنگ شروع ہوتے ہی دونوں فریق جھوٹ پہ اتر آتے ہیں اور اس کو حق و باطل کا معرکہ بنا کر بالخصوص اپنے عوام اور بالعموم دنیا کو پیش کرتے ہیں۔ اس وقت پورا مغربی میڈیا روس کو جارح اور شر قرار دے رہا ہے اور یوکرین کو ایک معصوم بھولے بھالے بچے کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک نے روسی نشریات کے تمام چینلز اپنے اپنے ملکوں میں بند کر دیے ہیں تاکہ عوام کو متبادل بیانیہ نہ معلوم ہو سکے۔ روسی نشریات کی رسائی صرف RT.COM ویب سائٹ پہ ممکن ہے۔ یوکرین نے جنگ شروع ہوتے ہی بارہ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ یوکرین میں اب نازی ملیشیا کو فوج کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور اسلحہ سے لیس یہ نسل پرست مخالفین اور روسی زبان بولنے والوں پہ حملے کر رہے ہیں۔

ادھر روس میں تو پہلے ہی سیاسی اور صحافتی آزادی کا فقدان تھا۔ اب تو اور زیادہ ہر طرف سرکاری بیانیہ کا طوطی بولتا ہے اور جنگ کے خلاف مظاہرین کو بھگا دیا جاتا ہے یا گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

اب کچھ سطور جنگ کے پس منظر کے بارے میں۔ یوکرین مغربی فوجی اتحاد نیٹو میں شامل ہونا چاہتا ہے لیکن روس کو خطرہ ہے کہ اگر ایسا ہوا تو امریکہ روس کی سرحد کے پاس میزائلز نصب کر کے روس کی سلامتی اور خود مختاری کو ہمیشہ کے لئے خطرے میں ڈال دے گا۔ یوکرین اگر روسی حملے سے بچنا چاہتا تو وہ روس کو یہ یقین دہانی کروا دیتا کہ وہ کبھی نیٹو فوجی اتحاد میں شامل نہیں ہو گا۔ لیکن یوکرین کی امریکہ نواز حکومت نے امریکہ اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو بھینٹ چڑھا دیا۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے امریکی صدر کینڈی کے دور میں روس نے امریکہ کے نزدیک کیوبا میں میزائلز نصب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن امریکہ نے اعلان کر دیا کہ وہ روس کے بحری جہازوں کو کیوبا تک نہیں پہنچنے دے گا کیونکہ جب کیوبا میں ان جہازوں کے ذریعے میزائلز پہنچیں گے اور نصب ہوں گے تو امریکہ کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ بالآخر تیسری جنگ عظیم سے بچنے کے لئے روس نے کیوبا میں میزائلز نہیں پہنچائے۔

اب ایک مختصر تذکرہ یوکرین کی خانہ جنگی کے بارے میں۔ یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یوکرین کا منتخب شدہ صدر 2013 میں روس سے کچھ معاہدے کر رہا تھا لیکن امریکہ نے ان معاہدوں کے خلاف احتجاج کو بغاوت میں بدل دیا۔ امریکی وزیر خارجہ کی مندوب وکٹوریہ نولینڈ نے کھلم کھلا مخالفین کے اجتماع میں شرکت کی اور انہیں بسکٹ بانٹے۔ امریکی سینیٹر جون مککین نے احتجاجیوں کے اجتماع سے خطاب کر کے انہیں روس کے خلاف اکسایا۔ اس عوامی بغاوت اور تشدد کے نتیجے میں بیسیوں افراد ہلاک ہوئے، عمارتیں نذر آتش کر دی گئیں اور یوکرین کے منتخب شدہ صدر کو اپنی جان بچانے کے لئے ملک سے بھاگنا پڑا۔

روس اور یوکرین کے لوگ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور تقریباً بیس فیصد یوکرینی روسی زبان بولتے ہیں۔ نئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی روسی زبان اور ثقافت کو اپنا ہدف بنایا، نتیجتاً روسی زبان بولنے والے علاقوں میں یوکرین کی نئی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت پھیل گئی۔ یہ خانہ جنگی آٹھ سالوں سے جاری ہے اور یوکرین کی فوج اور نازی ملیشیا ان علاقوں پہ مسلسل گولہ باری کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک راکٹ کے حملے سے بیس سے زیادہ شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن مغربی اور مغرب نواز میڈیا نے اس کو بیان نہیں کیا یا اگر کیا بھی تو بہت سرسری انداز سے۔ مندرجہ زیر سطور اسی حملے کی تباہ کاری کی ایک ویڈیو سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں۔ اس ویڈیو میں دو زخمی افراد بکھرے ہوئے ملبے کے بیچوں بیچ ہاتھ میں ہاتھ پکڑے زمین پہ پڑے ہوئے ہیں۔

دو ہاتھ ایک دوسرے کو تھامے ہوئے
ایک ہاتھ دوسرے کو سہارا دیے ہوئے
محبت، الفت، سب کچھ ایک دوسرے کے لئے
ایک ہاتھ تیزی سے سرد ہو رہا ہے
گرم ہاتھ نے سرد ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا
گرم ہاتھ اب سرد ہاتھ کو ہلا رہا ہے
سرد ہاتھ بے جان ہو گیا حس سے عاری
گرم ہاتھ والے انسان کا پسینہ اب خون میں مل رہا ہے، اس کا چہرہ سسکیوں اور آنسوؤں کا سراپا بن گیا
اس کا اپنا جسم چور چور، اس کا ساتھی شاید بچھڑ چکا ہے
ابھی ایک لمحہ پہلے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے فٹ پاتھ پہ چل رہے تھے
یکایک آسمان سے آگ برسی تھی۔ عمارتیں، انسان، اشجار سب ملبے میں تبدیل ہو گئے تھے
زمیں ایسے ہل گئی جیسے کوئی زلزلہ آ گیا تھا۔ اس زلزلے نے دونوں کو زمین پہ پٹخ دیا تھا

اڑتی ہوئی خاک اور دھوئیں میں دونوں نے لیٹے لیٹے ایک دوسرے کو ٹٹولا، ہاتھ نے ہاتھ کے لمس کو پہچان لیا تھا

اب گرم ہاتھ والے انسان نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ خود زخمی ہے
یہ دونوں کون ہیں؟
کسی کے لئے غدار، کسی کے لئے محب وطن
دونوں یوکرین کے باغی علاقے کے رہنے والے
راکٹ فائر کرنے والے نے یہ سوچا کہ یہاں باغی رہتے ہیں
راکٹ فائر کرنے والے نے یہ نہیں سوچا کہ یہاں انسان رہتے ہیں
حوالہ۔ چودہ مارچ کو یوکرین کی فوج کا یوکرین کے علاقے ڈونسٹک پہ حملہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments