رہبران بے تدبر، حاکمان بے لیاقت


بچپن کی بہترین یادیں وہی ہوتی ہیں جو ہمارے ذہن سے کبھی بھی محو نہیں ہوتیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضرب المثل کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ مجھے موجو دہ سیاسی صورت حال کو دیکھ کر یاد آ گیا کہ موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ تھی، چھٹی کا دن تھا اور ہمارے خاندان کے تمام لڑکے بالے، کرکٹ کے جنون میں مگن ہائی سکول کے میدان میں موجود تھے، فیصلہ ہوا کہ آج مقامی مخالف ٹیم سے ایک ٹیسٹ میچ کھیلا جائے، ٹاس جیت کر ہم نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، ہمارے گیارہ کھلاڑی آؤٹ ہوتے ہوتے دوپہر ہو گئی اور گرمی کی شدت میں اور بھی تیزی آ گئی۔

اسی دوران جب مخالف ٹیم کی بیٹنگ کی باری آئی تو ہم حیلے بہانے سے گراؤنڈ سے کھسکنا شروع ہو گئے، مخالفین نے ہمارے ارادے بھانپتے ہوئے سخت احتجاج کیا تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ مخالف بیٹسمین کھلاڑیوں کو دوبارہ پچ پہ بلایا جائے لیکن جیسے ہی وہ پچ پر آئے، ہم سب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اور اپنے سائیکل پر سوار پوری ٹیم میدان کرکٹ سے فرار ہو گئی، پچ پر مخالف ٹیم کے کھلاڑی ایسے ہی ہمیں بھاگتا ہوا دیکھتے رہے، جیسے ایک ہفتہ پہلے میاں شہباز شریف اینڈ کمپنی سیاسی میدان سے بھاگنے والوں کا منہ دیکھ رہی تھی۔

اب حالات ہمارے سامنے ہیں، گزشتہ رات ہی سپریم کورٹ نے نہ صرف پرانی ٹیم کو پچ پر بلا یا ہے بلکہ سیاسی کھیل جاری رکھنے کا حکم بھی سنا دیا ہے جس کے لئے کل کا دن بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔ اب کل تک تحریک انصاف کے حامی جس فعل کو سرپرائز قرار دے رہے تھے اور سوشل میڈیا پر ہزارہا لطیفے اور نوک جھونک کا سلسلہ جاری تھا، رات سے دونوں سیاسی پارٹی ورکرز سے شاید کچھ رک گیا ہو لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ کپتان ہماری کرکٹ ٹیم جیسی حکمت عملی اپنانے کو بے چین نظر آ رہا ہے اور میدان سے فرار ہونے کے لئے تحریک انصاف کے حامی اراکین نے اپنا بوریا بستر بھی باندھ لیا ہے، قرین قیاس یہی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان کل بطور احتجاج استعفیٰ دے دیں گے، یا پھر اس سیاسی بحران کو مزید ہوا دی جائے گی تاکہ معاشی بحران شدید سے شدید تر ہوتا چلا جائے۔

موجودہ سیاسی بحران میں نہ کسی لیگی کو پاکستان کی فکر ہے اور نہ کوئی جیالا یہ سوچ رہا ہے کہ اگر موجودہ وزیر اعظم، عمران احمد خان نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو ڈیڑھ سال کے لئے ایک ایسا وزیر اعظم سامنے لایا جائے گا جس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر پوری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، کیا آئی ایم ایف اس لولی لنگڑی حکومت سے اپنی شرائط پر امداد نہیں دے گی؟ اس بے یقینی صورت حال کا سب سے خطرناک نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت گیارہ ارب کے قریب رہ گئے ہیں جو بھنور میں ڈولتی ہماری معیشت کی کشتی کے لئے ایک خطر ناک ترین اشارہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت سے عوام کی نفرت کی بنیاد ہی مہنگائی ہے، مہنگائی سے تنگ عوام سڑکوں پر کیسے آئے؟ عوام نے ایک ایک کر کے سب سیاسی جماعتوں اور سربراہان و نمائندگان کو آزما لیا ہے اس لئے دھرنے اور سیاسی جلسوں میں ذی شعور طبقے کی عدم توجہی کی بنا پر یہ پرانے جال بھی ناکام نظر آ رہے ہیں۔

جیسے ہی ڈالر کی شرح تبادلہ بڑھتی ہے، مقامی تاجر اور حکومت سب سے پہلے اسی کوشش میں ہوتے ہیں کہ عوام کا خون جو پہلے ہی نچوڑا جا چکا ہے ان کی ہڈیاں بھی چچوڑی جائیں۔ سبزی، اشیائے خورد نوش سے لے کر بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ روتی سسکتی عوام صرف جھولی اٹھا کر بد دعا ہی دے سکتی ہے، یا پھر سیاسی مداریوں کی جوش و جذبے سے بھرپور تقاریر سن کر دل بہلاتی ہے، لیکن آج کل ایک اور ٹرینڈ شروع ہو گیا ہے کہ ہر بحران اور پریشانی کو لطیفے کی شکل میں پیش کر کے ذہن سے رنج و الم کے غبار نکالے جا رہے ہیں۔

ہمارے جذباتی سیاسی کارکنان تو صرف اس بات پر خوش ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا حکمران آیا ہے جس نے امریکہ اور یورپ کو للکارا ہے، شاید ہم بھٹو اور اس کے انجام کو بھول گئے ہیں یا ہمیں اپنے گوڈے گٹوں میں بہت دم نظر آ رہا ہے کہ ہم آج تک امریکہ کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے سے اتار ہی نہیں سکے، کشمیر پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے او ر افغانستان سے پر امن انخلاء میں ساتھ دینے کے بعد جب امریکہ نے موجودہ حکمرانوں کو ٹشو کی طرح استعمال کر کے پھینکا ہے تو ان کے ہوش ٹھکانے پر ہی نہیں ہیں۔

دیکھا جائے تو فلو ر کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ ہمیشہ سے ہی ہماری سیاسی حکمت عملی کا اہم حصہ رہی ہی ہے۔ لوٹوں، لفافوں اور گھوڑوں سے ہوتی ہوئی یہ حکمت عملی الیکٹیبلز کا نام اختیار کر چکی ہے۔ سیاسی وفاداریوں کی خریداری ہر دور میں ہوتی رہی اور دھڑلے سے ابھی بھی جاری ہے، ترین کے جہاز، منشاء کا بنک اور ملک ریاض کے پلاٹوں سے لے کر نوٹوں سے بھرے بریف کیسوں سے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ووٹ خریدنے کا سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا، جب تک کہ کوئی ٹھوس قانون نہیں بنایا جا تا۔ لیکن وائے بد قسمتی کہ اپنے اپنے مفاد کے حصول کی خاطر قانونی ڈھانچے کے ساتھ کھلواڑ تو کیا جاتا ہے لیکن عوامی اور قومی فلاح کے لئے مقننہ نے کبھی بھی کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھنے کو ملی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس سے بھینسوں کے علاوہ کسی بھی شخصیت کو عزت و احترام سے رخصت نہیں کیا گیا، بے شک اقتدار میں موجود پارٹی کارکنان اپنی خفت مٹانے کے لئے خان کو ٹیپو سلطان یا قائد اعظم بھی کہہ دیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ اس وقت بھی اپنے پتہ کھیل رہی ہے اور کامیاب وہی ہو گا جو ان کا منظور نظر ہو گا لیکن پس منظر میں موجود طاقتیں ہمیشہ اپنے لاڈلوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر اور پھر آسمان سے اٹھا کر زمین پر لا پٹخنے میں مشہور ہیں۔

اس لئے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں موجودہ بحران کا ایک ایسا حل نکالیں جو نہ صرف سب کے لئے قابل قبول ہو بلکہ ملک و ملت کے عظیم تر مفاد میں ہو۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے وطن عزیز کی باگ ڈور نا اہل، کم فہم اور عاقبت نا اندیش حکمرانوں، راہبروں، واعظین اور علماء کے ہاتھ رہی ہے۔ دیکھا جائے تو ہماری کشتی کے یہ چاروں ملاح، کشتی کے پیندے میں موجود سوراخوں کو بند کرنے کے اپنے اپنے حصے میں موجود پانی نکالنے کی سعی لا حاصل کرتے رہے ہیں۔

معماران قوم کو بے راہروی، فحاشی اور تساہل پسندی پر لگانے کے لئے اپنی تجوریاں بھری گئیں۔ قوم کو ارزاں نرخوں پر فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ، کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا گیا جو ہمارے مستقبل کو محفوظ بنا سکے۔ قوم کو سبز باغ دکھا دکھا کر مدہوش کرنے میں ہمارے سیاسی زعماء کا کوئی مقابل نہیں اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی مدد سے باقاعدہ عوام کو عمل تنویم کی طرح سلا یا جا رہا ہے۔ کل ہی مجھے اپنے سوشل میڈیا کے قریبی دوست مظہر سلیم مجو کی وال پر رئیس امروہی کا ایک قطعہ پڑھنے کو ملا جو ہمارے پورے نظام کی ناکامی کا احاطہ کر تا ہے کہ

چار طبقے ہیں جو مل سکتے ہیں پاکستان میں
آپ کو ہو خواہ ان طبقوں سے کتنا ہی گریز
حاکمان بے لیاقت، عالمان بے عمل
رہبران بے تدبر، واعظان فتنہ خیز
٭٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments