چیف جسٹس صاحب؛ اتوار کو نہ سہی پیر کو


3 اپریل یکم رمضان المبارک کو اتوار کا دن تھا جب چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جناب عمر عطا بندیال صاحب نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو آرٹیکل 5 اے کے تحت مسترد کرنے پر سوموٹو نوٹس لیا تھا، اتوار کے روز عدالت عظمٰی کے تالے کھل گئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے عدالت لگ گئی، 5 دنوں کی سماعت کے بعد عدالت نے (اس خط کو پڑھے دیکھے بغیر جس کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا گیا تھا) ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر تحریک عدم اعتماد کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔

راقم نے چیف جسٹس صاحب کی توجہ کچھ ایسے معاملات کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے جہاں سنگین آئین شکنی ہو رہی ہے اور وہ مسائل چیف جسٹس صاحب کے سوموٹو کے متقاضی ہیں۔

مائی لارڈ؛ آپ کی شان میں گستاخی نہ ہو تو عرض ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے سینکڑوں نوجوان کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ ان کی سہاگنیں منتظر ہیں ان کے آنے کی۔ انہیں نہیں پتہ کہ ان کے جیون ساتھی زندہ ہیں یا نہیں۔ انہیں نہیں پتہ کہ وہ آباد ہیں یا بیوہ ہو چکی ہیں۔ ماؤں کے آنکھوں سے اب پانی نہیں خون کے آنسوں نکلتے ہیں مائی لارڈ۔ آپ سب سے بڑے با اختیار منصب پر فائز ہیں۔ آپ نے خود ہی فرمایا کہ آئین کے وقار کی بحالی عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔

تو پھر آئین کی اس سنگین خلاف ورزی پر آپ کو سوموٹو نوٹس نہیں لینا چاہیے مائی لارڈ؟ یقیناً وہ قوتیں آپ سے زیادہ طاقتور نہیں ہیں جو سیاسی کارکنوں صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والے شہریوں کو غیر قانونی طور پر اٹھا کر جبری لاپتہ کر دیتی ہیں۔ مسنگ پرسنز کے حوالے سے سوموٹو نوٹس لے لیں یہ آپ کا مظلوم قوموں پر احسان ہو گا اور اس سے آئین کی بالادستی کی ایک نئی مثال قائم ہوگی۔

مائی لارڈ۔ بڑی بدقسمتی ہے کہ جمہوریت کے نام نہاد چیمپیئنز کے دور حکمرانی میں سندھ میں 15 سالوں سے آئین قانون اور انسانی حقوق معطل ہیں۔ سندھ کی بیٹی فضیلا سرکی کے اغوا کو 15 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ فضیلا سرکی کا تعلق ضلع جیکب آباد سے ہے۔ تب وہ معصوم بچی تھی اتنی معصوم کہ وہ ابھی ماں کے ہاتھ کی انگلی کے سہارے کے بغیر چل بھی نہیں پاتی تھی۔ تب اسے اغوا کر کے قید کی زنجیروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جکڑ لیا گیا۔

چونکہ فضیلا سرکی کے اغوا کاروں کا تعلق مبینہ طور پر سرکی برادری کے سرداروں سے ہے جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ اس لیے پولیس کو 15 سالوں سے سراپا احتجاج فضیلا سرکی کے والدین کے آنسو نظر نہیں آتے۔ فضیلا سرکی کے لیے سوموٹو تو بنتا ہے مائی لارڈ۔ اگر آپ فضیلا سرکی کو زندہ بازیاب کرانے میں کامیاب ہو جائیں تو انصاف کی فراہمی کی تاریخ رقم ہو جائے گی لیکن اگر وہ زندہ نہیں ہے تو کم از کم فضیلا کی قبر ہی دکھائی جائے تا کہ اس کے والدین اپنی فضیلا کی واپسی کی امید کو ہی مات دے دیں۔ اور ہر روز صبح کو پریس کلب پر آ کر آنسو بہانے کے بجائے اپنی فضیلا کی آخری آرامگاہ پر جا کر حاضری دیں۔

روھڑی کے گاؤں فتح محمد میں 18 سالہ پوجا کماری کو اپنی عزت بچانے کے جرم میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ یہ صرف 20 دن پہلے کی بات ہے۔ قاتل پوجا کماری کے گھر میں گھس آئے تھے۔ انہوں نے پوجا کماری کے گھر کی چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔ اغوا کی کوشش پر پوجا کماری نے مزاحمت کی تو اسے قتل کر دیا گیا۔ لیکن پولیس نے پوجا کماری کے قتل کے مقدمے میں دہشتگردی کے دفعات لاگو کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بار بار درخواستوں کے باوجود پہلے پوجا کماری کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا اور قتل کے بعد پولیس نے پوجا کماری کی لاش کی بے حرمتی کی۔ پوجا کماری کا قتل کیس ازخود نوٹس کا متقاضی ہے۔ پوجا کماری کے مزدور والد کے دکھ کا درمان آپ ہی کے پاس ہے مائی لارڈ۔

نوابشاہ کے قریب نواب ولی محمد میں 3 مہینے قبل زمینی تنازعہ پر محسن زرداری عابد زرداری و دیگر ملزمان نے بھنڈ برادری کے 5 مزدوروں اور ایک ایس ایچ او کو قتل کر دیا۔ اتنی بڑی دہشتگردی کے واقعے کی ایف آئی آر تک داخل کرنے سے پولیس نے صاف انکار کر دیا۔ بعد ازاں ورثاء اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے مقتولین کے لاشیں نیشنل ہائی وے پر رکھ کر احتجاجی دھرنا دیا۔ 5 روز تک لاشیں پڑی تھیں لیکن یہ لاشیں آپ کی نظروں سے اوجھل تھیں مائی لارڈ۔

وہ اور کچھ نہیں صرف ایف آئی آر کا اندراج مانگ رہے تھے۔ جہاں 6 افراد کے قتل کی صرف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کے اندراج کے لیے 5 روز نیشنل ہائی وے پر لاشیں رکھ کر دھرنے دینے پڑیں تصور کریں وہاں لوگوں کی حقوق تلفی کا کیا عالم ہو گا؟ واقعہ کو تین مہینے گزر گئے لیکن مقدمہ میں نامزد اہم ملزمان کو تاحال گرفتار نہیں کیا گیا اگر اس دہشتگردی پر ازخود نوٹس لیں گے تو انصاف کی بہتری ہوگی۔

یقیناً آپ کے علم میں ہو گا 5 مہینے پہلے ملیر کے گاؤں آچار سالار میں غیر ملکی شکاری کی وڈیو بنانے کے جرم میں ناظم جوکھیو کو پیپلز پارٹی کے ایم این اے سردار جام کریم جوکھیو اور ایم پی اے جام گھرام جوکھیو نے اپنے بنگلے پر پوری رات برہنہ کر کے تشدد کر کے تڑپا تڑپا کر قتل کر دیا، عینی گواہوں کے بقول ناظم جوکھیو نے سرداروں کو منتیں کیں کہ اسے چھوڑا جائے کیونکہ اس کی معصوم بیٹی اس کے بغیر سوتی نہیں ہے وہ جاگتی ہوگی۔

اسے اتنی مہلت دی جائے کہ وہ اپنی بچی کو نیند سلا کر واپس آئے لیکن اسے مہلت نہیں دی گئی۔ مبینہ طور پر ناظم جوکھیو کے نازک اعضا پر بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور یوں اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ایک ملزم واقعہ سے لے کر اب تک مفرور تھا لیکن اچانک تحریک عدم اعتماد کی آمد کی وجہ سے جام کریم جوکھیو کا ظہور ہو گیا چوں کہ اسے آصف زرداری صاحب نے حکم صادر فرمایا کہ ہر حال میں عمران خان کے خلاف ووٹ دینے آنا ہے۔

مائی لارڈ کراچی ائرپورٹ پر جام کریم جوکھیو کا استقبال سہیل انور سیال مرتضی وہاب اور دیگر صوبائی وزراء نے کیا جس کے بعد دل برداشتہ ہو کر مقتول کی بیوہ شیریں جوکھیو نے مقدمہ سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا مقابلہ ایک جام کریم سے نہیں بلکہ سندھ حکومت کے ساتھ ہے۔ یہاں ہمارے ملک کا آئین کیا کہتا ہے مائی لارڈ؟ سفاک قاتلوں کو حکومت خود پناہ دے تو انصاف کس سے مانگا جائے؟ کیا یہ سب آئین اور قانون کے مطابق ہو رہا ہے؟ اگر نہیں تو ایک عدد سوموٹو کا سوال ہے سر۔ آپ ازخود نوٹس لے کر وزیر اعلیٰ سندھ کو اپنی عدالت میں طلب کر کے استفسار کریں کہ ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو سزا دینے کے بجائے سسٹم نے انہیں تحفظ کیوں فراہم کیا؟

مائی لارڈ۔ اگر ایک ایک کر کے اس طرح کے آئین اور قانون کو شرما دینے والے واقعات کو شمار کریں تو شاید شمار کرنا ناممکن ہو۔ سندھ میں آمریت سے بدترین آصف زرداری سسٹم کا راج ہے جہاں ہر روز آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں لیکن اس پر کوئی از خود نوٹس نہیں لیتا۔ یہاں مجھے ہندوستان کے معروف شاعر راحت اندوری کے شعر کے یہ جملے یاد آ گئے

”انصاف اگر ظالموں کی حمایت میں جائے گا، یہ حال ہے تو پھر کون عدالت میں جائے گا“

یہاں آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ سندھ میں جتنے بھی صحافیوں کا قتل ہوا ہے یا صحافیوں کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج ہوئے ہیں ان کے پیچھے پیپلز پارٹی کی سیاسی شخصیات ہیں۔ 15 سالوں سے جاری اس مافیا راج پر آپ کو تحرک میں آنا چاہیے مائی لارڈ۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کو آپ ہی رکوا سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں کسی کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔

سندھ کے کروڑوں لوگ ایک مخصوص سسٹم کے رحم و کرم پر ہیں۔ آئین کی سنگین خلاف ورزیاں معمول بن گئی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے مسترد ہونے پر آپ نے اتوار کو عدالت لگائی تھی۔ کروڑوں لوگوں کے ہزاروں مسائل پر نہ سہی مائی لارڈ مندرجہ بالا ان چند میں سے کسی ایک ایشو پر ہی از خود نوٹس لے لیں آئین کی بالادستی کی خاطر۔ اتوار کو نہ سہی پیر کو سوموٹو لے کر عدالت لگائیں مائی لارڈ اتوار کو نہ سہی پیر کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments