آخر کار ایک ہیجان انگیز اور ڈرامائی انداز میں چلنے والے قومی اسمبلی کے سیشن کا اختتام ہوا


پوری پاکستانی قوم سکتے کے عالم میں تھی، دنیا بھر کا میڈیا پاکستان اور اس کے پارلیمانی نظام کا مذاق اڑا رہا تھا۔ پاکستان کا آئین جو کئی زرخیز دماغوں کا دیا ہوا تحفہ ہے، آج خطرے سے دوچار تھا۔

لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال نے پورے ملک کو متاثر کیا۔ ایک بے یقینی کی صورتحال تھی، پوری ریاست ایک شخص کی انا، ہٹ دھرمی اور ضد کے سامنے بے بس نظر آ رہی تھی۔ امید ضرور تھی کہ ریاستی ادارے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں گے۔ اور پھر جمود ختم ہونا شروع ہوا۔ سب سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے کورٹ کے دروازے کھولنے کا حکم جاری کیا۔

اندھیرے چھٹنے لگے اور امید کی ایک کرن نظر آنا شروع ہوئی فوج رینجرز اور پولیس کے دستے طلب کر لیے گئے جنہوں نے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو اپنے حفاظتی حصار میں لے لیا۔

ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں اپنے بچے کو بے چین نہیں دیکھ سکتی۔

بے چینی کا سبب بننے والے نا اہل اور سلیکٹڈ وزیراعظم کو آئین پر عملدرآمد کرانے میں ریاست نے اپنا کردار ادا کیا اور ڈرامائی طور پر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اسمبلی میں نمودار ہوئے اور اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے اسپیکر ڈائس سردار ایاز صادق کے حوالے کر دیا جنہوں نے باوقار اور پرامن طریقے سے اسمبلی میں ووٹنگ کروا دی جس سے تباہی اور بربادی لانے والی تبدیلی کا اختتام ہوا۔ آئین کے ساتھ کھڑا رہنے کی جدوجہد میں عدلیہ، پارلیمنٹ اور ریاستی ادارے سرخرو ہوئے تاریخ سچ کو ضرور لکھے گی کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں اس روز کیا ہوا تھا لیکن میں فل وقت آپ سب کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں لیکن یہ مبارکباد میں اپنے الفاظ میں نہیں دوں گا بلکہ شعلہ بیان اور خطیب دوراں جناب قبلہ طاہر القادری صاحب کے الفاظ میں جو ممکنہ طور پر انقلاب کی تیسری قسط کی وصولی کے لئے عید قربان پر تشریف لائیں گے۔

ایک لمحے کے لیے ذرا آنکھیں بند کیجئے اور تصور کیجئے۔
مولانا کہ رہے ہیں۔ مبارک ہو۔ ہو مبارک ہو۔ مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments