عمرانی اقتدار کا جنازہ


عمران خان کے پاس جانے کے لئے تین پیش تھے مگر وہ چوتھے آپشن پر رسوا ہو کر چکے گئے۔ 9 اپریل کے دن صبح ساڑھے دس بجے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اسپیکر کو اسی دن ووٹنگ کرانی تھی مگر عمران خان اور اس کی ٹیم نے عزت سے جانے سے انکار کر دیا اور رات ہوتے ہی سپریم کورٹ 12 بجے کھلنے اور ہائی کورٹ اسلام آباد دس بجے کھولی گئی۔ اسلام آباد سمیت ملک کے ائرپورٹس پر کسی بھی حکومتی نمائندہ کے جانے پر پابندی عائد کردی گئی۔

اسلام آباد کے راستوں پر فوج نے گشت شروع کر دیا قیدیوں کو لانے والی گاڑی پارلیمنٹ کے باہر کھڑی کردی گئی۔ وزیراعظم نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو ہاؤس طلب کیا۔ بات نہ بنی واپسی پر دونوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور یوں ایوان کے لئے سابق اسپیکر ایاز صادق کو طلب کیا جس نے ایوان کی کارروائی چلائی یوں عدم اعتماد کی ووٹنگ ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک وزیر اعظم عمران خان 174 ووٹ خلاف پڑنے پر اقتدار کھو بیٹھے۔

اور سابق وزیر اعظم عمران خان بن گئے۔ عمران خان وزیر اعظم ہاؤس خالی کر کے بنی گالا چلے گئے اور یوں عمران خان کے اقتدار کا جنازہ نکال دیا گیا۔ ایوان میں چار سال کے دوران پہلی مرتبہ مولانا فضل الرحمان پہنچ گئے اور سب کو مبارکباد پیش کی۔ شہباز شریف آصف زرداری اور بلاول بھٹو بہت خوش نظر آئے۔ دو بجے تک قومی اسمبلی کا اجلاس چلتا رہا اور یوں ملک بھر جشن منایا گیا اور آتش بازی کی گئی۔

اگر گزشتہ تین ماہ کا جائزہ لیا جائے تو اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کو ہٹانے کی تحریک تیز کردی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا اور ڈی چوک پر جلسہ کیا۔ تحریک انصاف کی جانب سے گھوٹکی سے کراچی تک سندھ بچاؤ مارچ کیا گیا جبکہ جے یو آئی سندھ کی جانب سے کراچی سے اسلام آباد تک مولانا راشد محمود سومرو کی قیادت میں مہنگائی مارچ کیا گیا۔ مریم نواز نے لاہور سے اسلام آباد اور مولانا فضل الرحمان صاحب نے ڈی آئی خان سے اسلام آباد تک مارچ کیا گیا۔

دوسری جانب عمران خان کی جانب سے جلسہ عام منعقد کیے گئے۔ عمران خان سمجھ رہے تھے کہ اس کے جانے کے دن قریب آ گئے ہیں اتنا بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا کہ گالم گلوچ تک پہنچ گیا۔ مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری، میاں نواز اور شہباز شریف کو برے القاب سے پکارتے رہے اور دھمکیاں دیتے رہے۔ عمران خان نے اسلام آباد ڈی چوک پر جلسہ کیا اور سرپرائز دینے کا اعلان کیا۔ ہاتھ میں ایک خط کو لہرایا اور امریکا کے اپر سازش کا الزام عائد کیا مگر دوسرے روز قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی گئی۔

ڈپٹی اسپیکر نے خط کا جواز بنا کر عدم اعتماد کی تحریک مسترد کردی یوں سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا اور پانچ روز تک سماعت جاری رکھتے ہوئے رولنگ مسترد کرتے ہوئے عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم دے دیا۔ اور یوں اپوزیشن سیاسی جماعتوں، فوج، عدلیہ، قوم، الیکشن کمیشن، میڈیا اور وکلا کو ایک پیج پر متحد دیکھا گیا۔ یوں پاکستان جیت گیا اور سازشیں ناکام ہو گئی۔

25 جولائی 2018 ع کے انتخابات کے رات کو ہی جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دے کر نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا۔ مولانا فضل کے لئے کہاوت ہے کہ ”ہمارے بغیر حکومت بن نہی سکتی اگر بن گئی تو چل نہی سکتی“ جس کے بعد جے یو آئی سمیت دیگر جماعتیں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، نواز لیگ، اے این پی، سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کر دیا۔ مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی کو جعلی قرار دیا۔

اور عمران خان کی حکومت کے خلاف تنہا تحریک کی شروعات کی۔ مولانا فضل الرحمان نے جے یو آئی کے پلیٹ فارم سے چاروں صوبوں میں 15 ملین مارچ کیے ۔ سب سے زیادہ عوام نے ان ہی جلسوں میں شرکت کی۔ مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کا عہد کر لیا۔ سب سے زیادہ چھوٹے بڑے جلسہ سندھ میں ہوئے۔ مولانا راشد محمود سومرو نے سندھ کے کونے کونے میں عمران خان کے خلاف رائے ہموار کردی اور مولانا فضل الرحمان صاحب کے دائیں ہاتھ بن کر تحریک کو روح پھونک دی۔

مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں کراچی سے اسلام آباد تک آزادی مارچ کیا۔ پی ڈی ایم قائم ہوئی تو دو درجن سے زائد ملک بھر میں جلسہ عام منعقد ہوئے۔ اور یوں ایک بار پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے الگ ہو کر تحریک کو کمزور کر دیا۔ مگر مولانا فضل الرحمان نے پیچھے مڑنے کے بجائے اپنی تحریک کو جاری رکھا۔ پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے خلاف جو نفرت کی راہ ہموار کی اس کا کریڈٹ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کو جاتا ہے۔

عمران خان کے اقتدار میں نیب کو ذاتی مقاصد انتقام کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ میاں نواز شریف، شہباز شریف، مرہم نواز، آصف علی زرداری، سید خورشید شاہ، رانا ثناء اللہ، سعد رفیق، فریال ٹالپر و دیگر رہنماؤں کو جیلوں میں قید کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان کو نیب نے دھمکی دی مگر مولانا نہ جھکے۔ نیب کو دھمکی دی کہ وہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ یہ وہ وقت جب سیاستدان عمران خان کی حکومت کے خلاف بات کرنے سے ڈر رہے تھے۔

حکومت نے مولانا فضل الرحمن صاحب جھکائے گرانے اور تنہا کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ مولانا فضل الرحمان کے مقابلے میں مولانا شیرانی، حافظ حسین احمد و دیگر کا ٹولا میدان میں اتارا گیا مگر ناکام رہا۔ وفاق المدارس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا سوائے چند مدرسوں کے باقی مولانا کے ساتھ رہے۔ مگر مولانا کو نہ جھکا سکے، مدارس اصلاحات کے نام پر اربوں روپے جاری ہوئے جو بھی وزرا کرپشن کر کے کھا گئے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب کے لوگوں کو دھمکایا گیا کہ اس کا ساتھ چھوڑا جائے وہ ملک دشمن عناصر میں شامل ہو گیا ہے۔

کسی اور جماعت میں جاؤ لیکن مولانا کا ساتھ چھوڑو۔ اتنی دھمکیاں ملنے کے باوجود مولانا کے جانثاروں جیالوں نے نہ صرف ساتھ چھوڑ بلکہ تحریک کا حصہ رہے اور قدم قدم پر مولانا کو لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب نے جب ملک بھر میں احتجاج کی کال دی تو سندھ میں ایک گھنٹہ کے اندر 50 سے زیادہ جگہوں پر دھرنے دیے گئے روڈ بلاک ہوئے۔ یہ تھی مولانا کے ساتھ وفائی کی۔ راشد محمود سومرو نے کیا خوب کہا تھا اب سیاست کے سلطان مولانا فضل الرحمان ہیں۔

جہاں جمہوریت کی جیت اور آئین کی بحالی کا کریڈٹ میڈیا وکلا، عدلیہ، فوج، اپوزیشن جماعتوں کو جاتا ہے وہیں پر اصل کریڈٹ مولانا فضل الرحمان اور اس کے ساتھی مولانا راشد محمود سومرو کو جاتا ہے جنہوں نے چار سالوں تک عمران خان کی حکومت کے خلاف دن رات ایک کر کے اپنا لوہا منوایا مولانا نے کیا خوب کہا کہ خزاں جائے بھار آئے یا نہ آئے۔ اب پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے اپر ہے کہ وہ عوام کی امنگوں کے مطابق چلتے ہوئے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).