انسان کی بڑی خواہشات میں سے ایک حکمرانی رہی ہے۔ شہرت منزل کو پانے کے لیے ایک سیڑھی ہے۔ خود کو دوسرے انسانوں سے اعلیٰ و ارفع ثابت کرنا اور منوانا حکومت کے حصول و دوام میں ہمیشہ سے مدد گار رہے ہیں۔ قدیم زمانہ سے حکمران، باد شاہ اور ان کے خاندان کے افراد ما فوق البشر خصوصیات کے حامل ہونے کے دعوے ٰ دار رہے ہیں۔ مصر، جاپان، تبت، سیام اور رومن سلطنتوں میں تو ان کی دیوتا کی طرح پوجا ہوتی تھی۔ اگر کوئی بادشاہ ظالم یا نا اہل ہوتا تو اس کے بارے میں بھی کہا جاتا تھا کہ صرف دیوتا یا خدائی صفات کا حامل انسان، ہیرو ہی ہمیں اس کے عذاب سے نجات دلا سکتا ہے۔ ان حکمرانوں میں ناقابل شکست ہونے کی باتیں بھی عام ہوتی تھیں۔ ان کے خون کو مقدس گنا جاتا تھا۔ المستعصم بااللہ کے بارے میں ہلاکو خاں کو کہا گیا کہ خلیفہ رسول کا خون زمین پر گرنے سے تباہی آئے گی۔ چنانچہ قالین میں لپیٹ کر ان پر گھوڑے دوڑا دیے گئے۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں سیکولر اور جمہوری نظریات کے فروغ سے شہنشاہوں کی اس عظمت و چمک کو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ماس میڈیا، ریڈیو، ٹی وی وغیرہ کے آنے سے سیاسی لوگوں کو مصنوعی طریقے سے اعلیٰ خصوصیات کے حامل ہیرو کے طور پر نمایاں کرنا اتنا آسان ہو گیا جتنا اس سے پہلے کبھی بھی نہ تھا۔ ان حالات میں شخصیت پرستی بدنامی کی حد تک عروج پر پہنچ گئی اور سیاسی پارٹیاں تقریباً سیاسی مذاہب بن گئیں۔

اب سیاسی قائدین کو جان بوجھ کر عوام کے سامنے ایسے عظیم روپ میں پیش کیا جانے لگا جو کہ قابل ستائش، قابل محبت اور شاید قابل پرستش بھی ہے۔ شخصیت پرستی کی یہ اصطلاح خروشچیف کی ایک خفیہ تقریر ”شخصیت پرستی اور اس کے نتائج“ میں سامنے آئی جو اس نے 1956 میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے بیسویں اجلاس کے آخری دن کی۔ اس تقریر میں خروشچیف نے سٹالن کو ایک ہیرو اور عظیم شخصیت بنانے کے لئے کیے گئے مختلف اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کیسے اس کے نام پر گانے بنا کر اور شہروں کے نام رکھ کر اس کی شخصیت کی آبیاری کی گئی۔ قومی ترانہ میں اس کا حوالہ شامل کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں اس کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔

شخصیت پرستی کی اس اصطلاح کا پہلے سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اسے رومانی داستانوں میں خوبرو، عقل مند اور ذہین افراد کے واسطے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیاسی طور پر اس جملہ کو سب سے پہلے کارل مارکس نے ایک جرمن سیاسی کارکن کے نام خط میں استعمال کیا تھا۔ خروشچیف نے اپنی تقریر میں اسی کا حوالہ دیا تھا۔

جمہوری طرز حکومت میں لیڈر چننے کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے۔ اپنے یا اپنے پسندیدہ آدمی کی طرف عوام کو راغب کرنے کے لئے اس میں موجود خوبیوں میں رنگ بھر کر اس کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں مصنوعی اور فلمی طریقوں سے نئی نئی خصوصیات کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اسے نجات دہندہ ثابت جاتا ہے۔ عام طور پر زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں کامیاب مشہور افراد اپنی انائیت کی تسکین اور حکومت کے مزے لینے کے لئے سیاست میں کود جاتے ہیں۔

سیاست ایک انتہائی مشکل شعبہ ہے۔ اس میں کارکنان نسل در نسل اور تمام عمر محنت کرتے ہیں پھر بھی کامیابی کم افراد کو ملتی ہے۔ وہ ممالک جن میں جمہوری ادارے اور خصوصی طور پر سیاسی پارٹیاں ابھی پوری طرح پنپ نہیں سکیں ان میں اس طرح کے ہیروز اور ان کے آقاؤں کو قسمت آزمانے کے مواقع مل جاتے ہیں۔ اگر تو اس ہیرو میں صلاحیت ہو تو وہ کامیاب حکمران بن جا تا ہے ورنہ جمہوریت کی یہ خوبی ہے کہ عوام بہت جلد اس مصنوعی پلانٹڈ ہیرو کو پہچان جاتے ہیں اور اس کے بعد اس کو اٹھا کر باہر پھینکنے میں دیر نہیں لگاتے۔

انسانی حقوق کے علمبردار، دنیا کے عظیم لیڈر، امریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کا فرمان ہے، ”میں تمہیں رائے دیتا ہوں کہ دیر ہو جائے یا دیر نہ ہو، جونہی تمہیں پتا چلے کہ کسی کا مشن تمہارے خوابوں پر پیشاب کرنا ہے تو اس کو دور کر دو یا اس سے دور ہو جاؤ ’۔

ہمارے ہیرو کو بھی دو دہائیوں کی محنت کے بعد نجات دہندہ ثابت کیا گیا۔ سہانے خوابوں کے وہ یورپین سبز باغ دکھائے گئے کہ مستقبل کا خیالی پاکستان بہشت شداد کو شرماتا تھا۔ ہاں ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھا کیونکہ نئے پاکستان کا خالق دیوتا سماں ہیرو تھا۔ ستر سالہ ناکامیوں کا تمام ملبہ دو افراد پر ڈال کر ان کو ولن بنا دیا گیا۔ چور ڈاکو لٹیرے تکیہ کلام تھا۔ تمام قوتیں جو ستر سال سے حکمران ہیں اس کی پشت پناہ تھیں۔ ہیرو نے کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے پرانے اور گھاگ سیاست دانوں کی وہ بھد اڑائی کہ الامان و الحفیظ۔

اب ہمارا خوبرو ہیرو سیاسی طور پر بری طرح ناکام اور بدنام ہو کر بنی گالا واپس پہنچ گیا ہے۔ اس پلانٹڈ ہیرو، اس سلیکٹڈ وزیراعظم کو مخالفین اور اس کے سلیکٹرز نے اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے۔ کل رات تو یوں لگتا تھا کہ ہیرو اب وہ ولن بن گیا ہے جو خود کش حملے میں پورا قصر جمہوریت ہی گرا دے گا۔ تقریباً تمام ضمنی الیکشن میں شکست ظاہر کرتی ہے کہ خاموش ووٹرز کی اکثریت بھی اس مصنوعی پلانٹڈ ہیرو کو پہچان گئی ہے لیکن اس کے چاہنے والوں میں کمی نہیں آئی۔ شخصیت پرستی ابھی بھی عروج پر ہے۔ اپنے چاہنے والوں کی نظر میں وہ اب بھی قابل ستائش، قابل محبت اور شاید قابل پرستش ہے۔

ناکام وزیراعظم عمران خان نے یہ ضرور ثابت کیا ہے کہ وہ ایک بہترین اپوزیشن لیڈر ہے۔ حکمرانی کے دنوں میں بھی وہ ڈی چوک کے کنٹینر پر ہی سوار رہا ہے۔ اس کے دو مقبول ترین نعرے اب بھی پرکشش ہیں کہ سارے چور ڈاکو میرے مقابلے میں اکٹھے ہو گئے ہیں اور میں ان کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ موجودہ سیاسی کشمکش میں ان نعروں کو مزید تقویت ملی ہے۔ اب عمران خان نے بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امریکی نفرت کا علم بلند کر لیا ہے۔ پاکستان میں مذہب اس سے بھی بڑا اور خطرناک ہتھیار ہے اور عمران خان بھٹو کے برعکس ریاست مدینہ کا نعرہ مستانہ بھی مسلسل لگا رہے ہیں۔

ان دو ہتھیاروں کے ساتھ وہ اگلی حکومتوں کے لیے ڈراؤنا خواب بنا رہے گا۔ کچھ دن ہی گزریں گے اور اس کے پرانے آقا اس کی پشت پر ہوں گے کیونکہ زرداری، نواز شریف، فضل الرحمان اور دیگر سیاست دان ان کی دی ہوئی ہدایات کو کبھی بھی نہیں مانیں گے اور ان کو سیدھا کرنے کے لیے عمران بہترین ہتھیار ہو گا۔ اب ناکام ہیرو کامیاب ولن بنے گا۔

لیکن اب اس کے دامن پر ناکامی، نا اہلی اور کرپشن کے داغ لگ چکے ہیں۔ اب دیوتا کا حسن گہنا گیا ہے۔ اس کے مخالفین ہیرو کی ان خامیوں کو کتنی کامیابی سے استعمال کر سکیں گے۔ یہ آئندہ دو تین مہینوں میں ہی پتا چل جائے گا۔