سلطنت مغلیہ کی کابینہ کا آخری اجلاس


آج سلطنت مغلیہ کے دور ارطغرل ثانی کی کابینہ کا آخری اجلاس دیوان خاص میں منعقد ہواء۔ جس کی صدارت سلطنت مغلیہ کے بلا شرکت غیرے آخری وزیراعظم ارطغرل ثانی، غازی ال پارلیمان سلطان کپتان خان المعروف استاد جی نے کی۔ اجلاس کے شروع میں وزیر اطلاعات و نشریات باتو خان نے اجلاس کو بتایا کہ گزشتہ تین سالوں میں حکومت کی کارکردگی ہر محکمے میں انتہائی اعلی رہی۔ انہوں نے اپنے محکمے کے اعداد و شمار ثبوت کے طور پر پیش کیے جن کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں سلطنت مغلیہ کے نظریاتی مخالفوں اور استاد جی پر طنز و تشنیع کے تیر چلانے والے صحافیوں اور دیگر بے راہ رو افراد کی گوشمالی کے لئے بلا تعصب رنگ و نسل کارروائی کی گئی۔ اجلاس نے اس ضمن میں سوشل میڈیا کے کردار کو سراہا اور گزشتہ تین سالوں میں مخالفین کے خلاف استعمال ہونے والی چیدہ چیدہ گالیوں اور سلیس جگتوں کو غور سے سنا اور ان کو وفاقی وزیر تعلیم سردار ہوشیار سنگھ کی سفارش پر تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کی منظوری دی۔

اس کے بعد اجلاس میں وزیر داخلہ انسپکٹر (ریٹائرڈ) جمشید نے سلطنت مغلیہ کے خلاف ہونے والی ایک انتہائی بھونڈی غیر ملکی سازش کا ذکر کیا۔ سازش کا سنتے ہی پوری کی پوری کابینہ آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گئی۔ خود استاد جی آبدیدہ ہو گئے اور ان کی آواز فرط جذبات سے رندھ گئی۔ انہوں نے وزیر داخلہ انسپکٹر جمشید، وزیر دفاع مان سنگھ اور وزیر خارجہ سر سلطان سے مطالبہ کیا کہ سازش کے سب کردار بے نقاب کیے جائیں۔ جواب میں سر سلطان نے عمران سیریز نامی قومی کارناموں کی مشہور کتاب میں درج مائیکل نامی ایک غیر ملکی سازشی کردار کا جسمانی حلیہ، تعلیمی معیار اور تصویری خاکہ پیش کیا۔ بعد ازاں انسپکٹر جمشید نے اجلاس کو اس غیر ملکی جاسوس کی مینار پاکستان پر ڈرامائی انداز میں گرفتاری کی خوشخبری سنائی اور بتایا کہ کس طرح مائیکل کی جیب میں سے ایک عدد سازشی خط بھی برآمد کیا گیا ہے۔

انسپکٹر جمشید کے ہولناک انکشافات کے بعد کابینہ کے مطالبے پر مائیکل نامی اس شخص کو اجلاس میں لایا گیا اور جب کابینہ نے مائیکل سے خود تفتیش کر کے سازش کی گہرائی ماپنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ پیدائشی طور پر گونگا اور بہرا ہے۔ تفتیش میں اس ابتدائی ناکامی کے بعد کابینہ نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ اس غیر ملکی جاسوس کی جیب سے ملنے والے خفیہ خط کو ڈی کلاسی فائی کر دیا جائے۔ جیسے ہی یہ سازشی خط ڈی کلاسیفائی ہواء اور استاد کی کی آشیرواد سے وزیر خزانہ منشی پریم چند نے اسے پڑھا تو تمام ارکان کے کان غصے سے لال ہو گئے۔

ذرائع کے مطابق اس خفیہ خط میں کوڈ ورڈز کی زبان میں لکھا ہوا تھا ”حامل ہذا رقعہ پیدائشی گونگا اور بہرا ہے۔ اس کو اپنی بہن کے علاج کے لئے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ لہذا مخیر حضرات اس کی فوری مدد کریں“ ۔ جوں جوں منشی پریم چند خط کے مندرجات پڑھتا گیا، توں توں مائیکل کے چہرے کے تاثرات بھی بدلتے گئے اور بالآخر اس نے ہاتھ کے اشاروں اور منہ سے اوں گوں کی آوازیں نکال کے اقبال جرم کر لیا۔ مائیکل نے مزید اشاروں کی مدد سے بتایا کہ اسے فوری طور پر بیت الخلاء جانے دیا جائے ورنہ سازش اجلاس کے دوران ہی لیک ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس غیرملکی کو سازش سمیت بغلی دروازے سے تیزی سے باہر لے جایا گیا۔ غیر ملکی کے جاتے ہی کپتان خان غصے سے ابل پڑے اور انہوں نے کہا کہ وہ اس بزدل کو ایسے بھاگنے نہیں دیں گے بلکہ آخری لمحے تک اس کا پیچھا کریں گے۔

اس موقع پر کابینہ کا ماحول بہت سنجیدہ ہو چکا تھا چنانچہ وفاقی وزیر مواصلات چغتائی خان نے اجلاس کچھ دیر کے لئے ملتوی پیش کرنے کی تجویز دی جو فوراً اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی۔ استاد جی نے کابینہ کو وقفے کے دوران مورال بلند کرنے کے لئے 1992 کے ورلڈ کپ کی جھلکیاں دیکھنے کی تاکید کی۔ جبکہ وہ خود سلطنت مغلیہ کے آخری سپہ سالار جناب امیر حمزہ اور سپائی ماسٹر فرہاد علی تیمور سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔

تھوڑی دیر بعد اجلاس دوبارہ شروع ہواء تو اجلاس کا موڈ بدل چکا تھا۔ چنانچہ ایجنڈے میں شامل تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو ملتوی یا منسوخ کرنے کی مختلف تجاویز پر غور شروع کیا گیا۔ وفاقی وزیر توانائی سردار پریم سنگھ نے تجویز پیش کی کہ گنتی سے ذرا پہلے ہاؤس کی گیس کھول دی جائے اور پھر مناسب وقت پر تیلی لگا کر ہاؤس کو بھسم کر دیا جائے۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ واہ واہ اور سبحان اللہ کے نعروں کے درمیان وفاقی وزیر کھیل سردار گیم سنگھ نے بحث کے بغیر ہی اس تجویز کی فوراً تائید کردی۔

استاد جی نے ان دونوں وزیروں کی پھرتیوں پر اپنی طبعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے کہا ”اوئے مجھے پہلے تو سچ سچ یہ بتاؤ کہ یہ تجویز ہے کس کی؟ یہ تجویز پریم سنگھ کی ہے یا گیم سنگھ کی؟“ اس پر سیکرٹری کابینہ رکن الدولہ نے استاد جی اور کابینہ کو بتایا کہ وہ پریشان نہ ہوں کیونکہ پریم سنگھ اینڈ گیم سنگھ آر ون اینڈ دی سیم تھنگ۔ رکن الدولہ کی اس وضاحت کے بعد اس تجویز پر باقاعدہ غور شروع ہوا تو اسپیکر قومی اسمبلی نے اس تجویز پر اعتراض کیا اور کہا کہ ایک تو اسمبلی کی گیس پچھلے تین ماہ سے عدم ادائیگی بل کی وجہ سے بند ہے اس لئے اس تجویز کی خاطر ماچس یا تیلیوں کا ضیاع نہ کیا جائے۔

دوم اگر یہ تجویز کامیاب ہو جاتی ہے تو اس صورت میں دیگر حکومتی ممبران اور ان کی اپنی جان کو بھی خطرہ ہے۔ خود استاد جی نے بھی اس تجویز کو یہ کہہ کے رد کر دیا کہ وہ آگ لگانے کے مخالف نہیں مگر گیس کی بجائے دیسی گھی یا مٹی کے تیل سے آگ لگانے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں اپنی رہائش گاہ میں ہونے والے عملیات کے دوران جلنے والے تعویزوں اور ٹوٹکوں کی مثال دی اور مٹی کے تیل کی گیس پر فضیلت واضح کی۔

اس کے بعد اجلاس نے اپوزیشن ارکان کے مشروب میں کھانسی کی مخصوص دوائی ملا کر انہیں مدہوش کرنے کی تجویز پر تفصیلی غور کیا اور اکثر وفاقی وزرا نے اس تجویز کی جزئیات اور اس پر آنے والی کم لاگت کی وجہ سے اس کو بہت پسند کیا۔ تاہم وفاقی وزیر قانون سردار ٹھرک سنگھ نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ایک عرصے سے کھانسی کی یہ دوا پی رہے ہیں اور پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اپوزیشن کے بہت سے ارکان بھی اس دوا کے عادی ہیں اور مسلمہ طبی حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی اس دوائی کا مستقل عادی ہو اس پر مدہوشی کی بجائے کئی دفعہ جارحیت بھی طاری ہو جاتی ہے۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔ وزیر قانون کے اس بیان کے بعد استاد جی نے وزیر صحت شاہ رخ خان سے وضاحت مانگ لی جو گزشتہ تین ماہ سے انہیں بھی یہ شربت دیوداس برانڈ کا پاروتی وٹامن ٹانک کہہ کر پلا رہا ہے۔ تاہم اجلاس نے فیصلہ کیا کہ تمام تر تحفظات کے باوجود اس تجویز کو مکمل رد نہ کیا جائے بلکہ مناسب موقع پر دوبارہ پیش کیا جائے۔

اس کے بعد اجلاس میں ایک اور رکن نے اپوزیشن ارکان کے پیروں، شلواروں، پتلونوں اور دیگر آلہ ہائے حفاظت کے پاس بھوکے چوہے چھوڑنے کی تجویز پیش کی تو استاد جی جوش مسرت سے اپنی کرسی پر اچھل پڑے اور ان کے اوپر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ قریب تھا کہ یہ تجویز منظور ہو جاتی اور وفاقی وزیر جنگلات سردار کیکر سنگھ کو چوہے پکڑنے جبکہ وفاقی وزیر قانونی و آئینی امور کو چوہے چھوڑنے کا فریضہ تفویض کر دیا جاتا۔ مگر وفاقی وزیر ریلوے بیرم خان نے آخری وقت پر شرکاء کو متنبہ کیا کہ چوہے چھوڑنا ایک درد ناک عمل ہے اور وہ خود ایک نادیدہ دشمن کے ہاتھوں اس عمل سے اپنی جوانی میں گزر چکے ہیں۔

انہوں نے کابینہ کو بتایا کہ چوہوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا۔ اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ چھوڑے جانے کے بعد چوہے نیوٹرل ہو جائیں گے اور حکومتی اراکین کا ہی رخ کرنا شروع کر دیں گے۔ یہ نہ ہو کہ چوہوں کے مخالف سمت میں مارچ سے حکومتی اراکین کی اپنی پوزیشن اور نازک ہو جائے اور وہ کسی کو منہ تو کیا پیٹھ بھی دکھانے کے قابل نہ رہیں۔

اس کے بعد اجلاس میں اپوزیشن کے اراکین کے کھانے میں جمال گھوٹا ملانے، ایوان میں تیزابی بارش برسانے یا مشہور زمانہ فلم جمان جی کی طرح جنگل کے تمام جانور یکلخت چھوڑنے پر غور کیا گیا۔ فلموں کے ذکر پر اجلاس میں خوشی اور امید کی ایک لہر سی ڈور گئی۔ فیصلہ کیا گیا کہ اسپیکر اسمبلی کا اجلاس جاری رکھیں گے۔ دریں اثنا آدھی کابینہ انگریزی فلمیں جبکہ باقی کی کابینہ انڈین فلمیں دیکھے گی۔ جیسے ہی کوئی اچھی تجویز سامنے آئی سپیکر کو مطلع کر دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر ثقافت نونہال سنگھ نے استاد جی اور کابینہ کو یقین دلایا کہ فلموں اور بنا کا گیت مالا کے اندر سے اس مسئلے کا تسلی بخش حل بہت جلد نکل آئے گا۔ آخر میں استاد جی نے ایاک نعبد وایاک نستعین پڑھ کے دعا کرائی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments