عمران خان کیوں گرا


سیاست امکانات کا نام ہے۔ ہر واقعہ، ہر مسئلہ آپ کو ایک نئے امکان سے روشناس کرواتا ہے۔ سیاست میں جب آپ بند گلی میں پہنچتے ہیں تو وہ یک دم نہیں ہوتا۔ کوئی ایک غلطی سیاستدان کو بند گلی میں نہیں پہنچاتی البتہ غلطیوں کا تسلسل بدنصیبی کی صورت میں ملتا ہے اور بد نصیبی بند گلی میں پہنچا دیتی ہے۔

یوں تو عمران خان کا حکومت سے رخصت ایک واقعہ ہے اور سیاسیات کے طلبا کے لیے اس میں سمجھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہم نے تاریخ سے سیکھا ہی کب ہے؟ اگر ہم نے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے کچھ سیکھا ہوتا تو 27 مارچ 2022 کو وقت کا وزیراعظم سفید کاغذ لہرا کر یہ بارآور نہ کروانے کی کوشش کرتا کہ میرے سوا باقی سب غدار ہے۔ اصولی طور پہ تو غداری کے تمغوں کا اجرا ہی نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن چلیں اگر برسوں سے یہ تمغے بٹ رہے تھے تو کم از کم اب ہی فرزانگی کا مظاہر کر لیا جاتا۔

پاکستان میں ”غدار“ جیسا سنگین لفظ اپنی تاثیر کھو چکا ہے۔ یہ اب محض ایسے ہی ہے جیسے کوئی کسی کو راہ چلتے گالی نکال دے۔ ہماری تاریخ میں سیاستدانوں کی ایک لمبی فہرست جن کو وقتاً فوقتاً حسب ضرورت اور حسب ذائقہ غدار قرار دیا جاتا رہا۔ اس سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ لوگوں کا سیاستدانوں سے اعتبار کم ہوا۔ یہ تسلیم کر لیا گیا کہ کوئی بھی کہیں بھی بک سکتا ہے۔ عمران خان نے اس سوچ کو نا صرف پھر سے جلا بخشی بلکہ اس کو اس شدت سے استعمال کیا کہ اب کی بار کوئی ایک نہیں بلکہ سب کے سب غدار بنا دیے گئے۔

گزرے دنوں کے حالات و واقعات کی مشاہدے سے میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ عمران خان کا وہ خط کم از کم اس کے حکومت کے جانے کی وجہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو ایک مشکل حکومت کو سنبھالنا تھا۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے محض ڈیڑھ سال بعد کووڈ کی عالمی وبا نے آن لیا اور اس سے پہلے کا ڈیڑھ سال محض یہ تجربہ حاصل کرنے میں گزر گیا کہ کام شروع کہاں سے کریں۔ خان صاحب اپنے کرکٹ سمجھنے کے زعم سے باہر ہی نہیں نکلے اور ہر چند ماہ بعد اہم عہدوں پہ لوگوں کو بدلتے رہے۔

مرکز کی حد تک ہی دیکھیں تو ساڑھے تین سال میں باقاعدہ تین وزرائے خزانہ آئے۔ اسی طرح تین وزیر اطلاعات آئے دو وزیر داخلہ آئے۔ متعدد ایف بی آر کے چیئرمین آئے، بیش بہا اکنامک ایڈوائزر آئے۔ اس سے یہ ہوا کہ پالیسیوں کے نتائج کے لیے جو تسلسل اور وقت درکار ہوتا ہے وہ وزرا کو میسر نہیں آیا۔ یہ کرکٹ نہیں کہ ایک بالر نے اگر اچھا اوور نہیں کروایا تو اگلا بار اس اینڈ سے کوئی دوسرا بالر آزما لو۔

تبدیلیوں کا یہ سلسلہ محض مرکز تک محدود نہیں رہا بلکہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ہر سطح پہ تعیناتیوں میں رد و بدل کیا جاتا رہا ہے۔ اس سب پہ مستزاد روز اول سے بارہ کروڑ آبادی والے صوبے کو ایک ایسا وزیر اعلی تھما دیا گیا جس کو اس سے پہلے کوئی صوبائی وزارت چلانے کا بھی تجربہ نہیں تھا۔ وزیر اعلی کی ناک کے بیچے پنجاب بھر میں کیا ہوتا رہا یہ باتیں اگلے چند روز میں مزید آشکار ہوں گی اور ممکن ہے بہت سے کردار سامنے آئیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں سرکاری ملازمین کام نہ کرنے کی تنخواہ لینا فرض سمجھتے ہوں وہاں عثمان بزدار جیسے غیر متحرک شخص کو وزیراعلی بنانے سے بیڈ گورننس کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی۔ اداروں کو منظر نامے میں کوئی منتظم نظر نہیں آتا تھا۔ جس سے ایک بے یقینی کی فضا قائم رہی۔ بیڈ گورننس کے بطن سے مہنگائی کے اثرات دگنا ہوئے اور اس پہ مستزاد کہ ان اثرات کو زائل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ البتہ خان صاحب نے سارا زور سابقہ حکومتوں کی کرپشن پہ رکھا۔

عمران خان نے اپنے دور حکومت میں سیاسی ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ انہوں نے سب سیاسی حریفوں کو دیوار سے لگایا بلکہ دیوار میں چنوایا۔ ملک کے وزیراعظم ہوتے ہوئے انہوں نے سیاسی تفریق کو بڑھایا۔ یہ عین وہی کام تھا جیسا نوے کی دہائی میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کرتے رہے ہیں۔ ملک کے وزیراعظم کا سیاسی مخالفین کے لیے یہ رویہ کسی طور معاشرے کے لیے صحتمندانہ نہیں ہوتا۔ اور ناں ہی اس قسم کی فضا میں اقتصادی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ سیاسی تفریق کے بڑھنے سے خیر برآمد ہونے کا کوئی فارمولا ابھی تک تخلیق نہیں کیا گیا۔

پاکستان کی تاریخ میں کسی آرمی چیف کے عہدے کی میعاد بڑھانا کوئی انہونی بات نہیں۔ البتہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس سیدھے معاملے کو بھی پیچیدہ بنا کر عدالت تک پہنچایا اور نتیجتاً ایک ایکسٹینشن کے لیے نئی قانون سازی کرنا پڑی۔ اسی طرح ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پہ بھی غیر ضروری ہیجان پیدا کیا گیا۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے کی کہانی اس قدر شاندار ہو تو اس میں ایسا موڑ کوئی نیک شگون نہیں ہوتا۔ وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو ڈی جی آئی ایس آئی لگائیں لیکن اس کے لیے جس انداز میں نوٹیفیکشن سے کھیلا گیا وہ خود ایک مذاق بن گیا۔

خان صاحب کی مختصر کابینہ میں 31 وزیر، 19 معاونین، 4 مشیر اور 4 وزرائے مملکت شامل تھے۔ قارئین ان میں سے بہت سے وزرائے کے نام تک سے واقف نہیں ہوں گے۔ البتہ ٹی وی سکرینوں پہ ہر وقت ایک مخصوص ٹولے کا قبضہ رہتا۔ ان مخصوص معاونین نے الیکڑانک اور سوشل میڈیا پہ بد زبانی کے کلچر کو نہ صرف معمول بنایا بلکہ فروغ دیا۔ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ آج کے دن سیاسی گفتگو میں بد زبانی شاید سب پاکستانیوں کے لیے ایک نارمل بات ہے۔

خان صاحب کے یہ مشیران انہیں بار آور کرواتے رہے کہ اقتدار پہ تو جیسے ان کا جنم جنم کا حق تھا اور اب کسی اور کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ خان صاحب کی اپنی ذات کو ان مشیروں نے حقیقت سے بڑا بنا کر پیش کیا۔ لہذا حکومت کی نا اہلیوں اور غلطیوں کی طرف جس کسی نے اشارہ کیا وہ چور چور، کرپٹ کرپٹ اور بکاؤ مال کے شور میں گم کر دیا گیا۔

اس سب کے باوجود حکومت کے پاس عدم اعتماد کی بند گلی میں پہنچنے سے پہلے بہت سے آپشنز تھے۔ لیکن ہوا کیا؟ حکومت کے سب گمان اور خیال غلط ثابت ہوئے۔ وزیراعظم کو گمان تھا کہ جس طرح سینیٹ میں ساڑھے تین سال ان کی اکثریت نہ ہونے کے باوجود کامیابی حاصل ہوتی رہی ہے ویسے ہی ان کو یہاں بھی کامیابی ملے گی۔ یہ کوئی زمانہ قدیم کی بات نہیں کہ 64 سینٹرز کھڑے ہو کر چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور خفیہ رائے شماری میں 50 ووٹ نکلتے ہیں جبکہ 53 ووٹوں کی ضرورت تھی۔

یہ 14 ووٹ کہاں گئے؟ کس کے کہنے پہ گئے؟ یہ سب تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے۔ لہذا خان صاحب کو گمان تھا کہ اس بار بھی کچھ ہو جائے گا۔ البتہ پراسرار خاموشی نے طول پکڑا تو خان صاحب حرکت میں آئے لیکن پھر بھی اپنے اتحادیوں اور جماعت کو اس طرح آن بورڈ نہیں لیا جس طرح ماضی کی حکومتیں ایسے موقعوں پہ لیتی رہی ہیں۔ اس کے برعکس خان صاحب نے یہ بیانیہ بنانا شروع کیا کہ یہ سب بکے ہوئے ہیں۔ اگر اتحادی اب بکے ہیں تو کیا یہ مان لیا جائے کہ وہ پہلے بھی بکے تھے؟ یقیناً یہ انتہائی ناگوار بات تھی اس کے بعد لوگوں کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہو گیا۔

میرا تجزیہ ہے کہ جب خان صاحب کو یقین ہو گیا کہ وہ عدم اعتماد میں نہیں جیت سکتے تو انہوں نے جلسے میں وہ خلط لہرا دیا جو بیس دن تک کسی جگہ زیر بحث نہیں آیا۔ اگر وہ مراسلہ اتنے سنگین نتائج لیے ہوئے تھا تو اس کے لیے پارلیمنٹ سمیت بہت سے فورم تھے لیکن اس کو ایک جلسے میں ہی کیوں لہرایا گیا؟ اپوزیشن کا دباؤ پڑتے ہی جب وہ مراسلہ قومی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوا تو اس کے اعلامیہ میں کسی سازشی کا ذکر نہیں تھا۔ البتہ وہ اعلامیہ خان صاحب کو فیس سیونگ دے رہا تھا۔

لیکن اگلے چند روز نے ثابت کیا کہ خان صاحب نے وہ فیس سیونگ قبول نہیں کی بلکہ اس کی بنیاد بنا کر عدم اعتماد کے آئینی عمل کو نہ صرف ختم کر دیا بلکہ اسمبلی کی بساط ہی لپیٹ دی۔ جتنی عجلت میں یہ سب کچھ ہوا اس سے خط والے ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ خان صاحب محض اپوزیشن پہ الزام لگا کر اگلے الیکشن میں جانا چاہتے تھے تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ رہیں۔

خال خال ایسا موقع آیا ہے کہ عدالت نے درست وقت پہ نہ صرف سوموٹو لیا بلکہ ایک تاریخی فیصلہ بھی دیا جو کہ آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری تھا۔ اگر ایسا فیصلہ نہ آتا تو آئین جس کو پاکستانی پہلے ہی کچھ خاص سنجیدہ نہیں لیتے اس کا وقار مزید گھٹ جاتا۔ اور یہ بات راسخ ہو جاتی کہ بعض شخصیات آئین سے مبرا اور معتبر ہیں۔ عدالت کے فیصلے سے غیر ملکی سازش والے بیانیے کو بھی ٹھیس پہنچی۔

11 اپریل کو جب متحدہ اپوزیشن کا امیدوار وزرات عظمی کا حلف اٹھا لے گا تو کسی بھی جمہوری سوچ والے شخص کے لیے یہ اچنبھے کی بات ہوگی کہ ایوان میں اکثریتی جماعت اپنی حکومت نہیں بنا پائی اور دوسرے تیسرے نمبر کی جماعتوں نے حکومت بنالی۔ اگر کوئی کھلے دل سے اس پہ غور کرنا چاہے تو وہ کر سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو کسی دوسرے نے ختم نہیں کیا بلکہ اس کا قصور وار خود عمران خان ہے۔ جو کہ شاید اہم مواقع پہ اپنی ذات سے آگے نہ دیکھ سکے۔

اس وقت تحریک انصاف کنفیوز ہے کہ وہ انٹی امریکہ بیانیہ لے یا انٹی اسٹیبلشمنٹ۔ یہ ممکن نہیں کہ دونوں بیانیے ساتھ ساتھ چلیں۔ کیونکہ دونوں بیانیوں کا بیک وقت موجود رہنا فوج کے ”کردار“ پہ بہت بڑا سوال اٹھا دیتا ہے۔ لہذا مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں اس مراسلے کی تحقیقات ہوں گی اور اس کے مندرجات کو شاید سامنے لایا جائے۔ اور یہ جلد ہونا بھی چاہیے کیونکہ کب تک اپنی ناکامیوں کے جواز کے طور پہ ہم غدار غدار کھیلتے رہیں گے؟

ظہور نظر کا ایک شعر نظر سے گزرا۔
سنا ہے وہ بحر خود پرستی سے ڈھونڈ لایا ہے خود کو لیکن
قریب جانے سے ڈر رہا ہے کہ لاش بے حد گلی سڑی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments