سیاسی نرگسیت اور ابھرتی شدت پسندی


مجھے پروفیسر مبارک حیدر کی شہرہ آفاق کتاب تہذیبی نرگسیت ہر اس موقع پر یاد آتی ہے جب کبھی میں پاکستان کے نوجوانوں کو پاکستان کو اسلامی قلعہ بنانے، ارطغرل غازی دیکھنے کے بعد دنیا پر اسلامی پرچم لہرانے اور مغربی دنیا کو نیست و نابود کرنے کا پلان بناتے پھرتے دیکھتا ہوں۔ دراصل یہ اخذ ہے اس کاوش کا جس میں ایک مذہب کو قوم بنانے کی کوشش میں کن کن طریقوں سے اسے نرگیست میں مبتلا کر دیا گیا اور یہ نرگسیت نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی آج ہم اور ہمارے بعد ہماری نسلوں تک منتقل ہوتی رہے گی۔

نرگسیت دراصل خود پسندی ہے۔ قدیم یونان کے دیو مالائی کہانی سے اخذ کی گئی ہے جس کا مرکزی کردار نارسس ایک خوبصورت ہیرو ہے جسے اس کے چاہنے والوں اور اردگرد کی دنیا میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اپنی تعریف سنتے سنتے وہ اتنا خود پسند ہو گیا تھا کہ ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود پر عاشق ہو گیا رات دن اپنے عکس کو دیکھتا رہا۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے بھی پانی کو نہیں چھو سکتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ پانی کی سطح ہلنے سے عکس ٹوٹ جائے گا اور اس کی شکل کا حسن ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

چنانچہ پیاس سے نڈھال ہو کر مر گیا۔ دیو مالا کے ایک بیان میں ہے کہ دیوتاؤں نے اسے نرگس کا پھول بنا دیا اسی وجہ سے خود پسندی کو نرگسیت کا نام دیا گیا۔ اسی نرگسیت کا شکار پوری امہ ہے کہ وہ سب سے بہترین لوگ ہیں، ان کا بودوباش، تمدن، نظام فکر و احساس سب سے نمایاں ہے وہ ہر ملک میں اپنے حکمران ہونے کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا پر حکمرانی صرف ان کا ہی حق ہے۔

اسی طرح کا سیاسی معمہ سیاسی نرگسیت کی صورت میں آج کل پاکستان کے سیاسی نظام پر چھایا ہوا ہے۔ جس میں ایک سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چاہنے والے سیاسی نرگسیت کا شکار ہو چکے ہیں ایک طرح سے عمران خان اور اس کے چاہنے والے نارسسزم یا دوسرے الفاظ میں خود پسندی کا شکار ہیں۔

پہلے بات کرتے ہیں عمران خان کی۔ اس وقت عمران خان کے نزدیک اگر کائنات میں کوئی سب سے زیادہ معتبر، مفکر اور مدبر کھلاڑی ہے تو وہ خود عمران خان کی ذات ہے وہ پاکستان کے سب سے ایماندار ترین شخص بھی ہیں۔

پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لئے اگر کوئی سوچتا ہے تو وہ صرف اور صرف عمران خان ہے۔ اگر اس کائنات میں کوئی حق گو اور بلند اخلاق کا حامل انسان ہے تو عمران خان ہے۔ اسلامی اقدار کی بقا اور اسلامی شعار کے تحفظ کے لیے اگر کوئی سرگرم عمل ہے تووہ صرف اور صرف عمران خان ہے۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا آمین، پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والا اگر کوئی شخص ہے تو وہ صرف عمران خان ہے۔ اس کا اٹھنا اس کا بیٹھنا اس کا سونا اور اس کا اوڑھنا یہ سب عین اسلامی اور عین پاکستانی ہونے کے مترادف ہے۔

اس کے مد مقابل جتنے بھی اکابرین اور سیاسی رہنما ہیں وہ سب چور ڈکیت اور نالائق ہیں۔ اگر عمران خان اپنی جیب سے پرچی نکال کر پڑھ کر تقریر کرے تو وہ ایک لائحہ عمل ہے اور اگر یہی کام نواز شریف کرے تو نالائق ہے۔ اور اگر اس کی جماعت کے خلاف کرپشن کے الزامات لگائے جائیں تو یہ جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہے اور باقی تمام سیاسی جماعتیں کرپٹ ہیں۔

اسی طرح اس کے چاہنے والوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ سیاسی نرگسیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے نزدیک باقی سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کرنے والے کارکنان جاہل ہیں ان پڑھ ہیں اور نالائق ہیں۔ اس وقت اگر کوئی ایماندار قابل لائق سمجھدار اور وفادار سیاسی کارکن ہے تو وہ تحریک انصاف کا ہے۔ باقی تمام لوٹے اور بے ضمیر سیاسی کارکنان ہیں۔ اگرچہ وہی کارکنان ان کی جماعت میں آ جائیں تو باضمیر اور با کردار بن جاتے ہیں۔ اگر وہ عمران کی تعریف کریں تو جماعت سے ان کی محبت اور اپنے لیڈر سے الفت ہے۔

اگر کوئی اور سیاسی ورکر اپنے قائد کی تعریف کرے تو وہ غلامانہ سوچ کا حامل انسان ہے۔ وہ پٹواری ان پڑھ جیالا اور مذہبی رجعت پسند ہے۔ یہ کیفیت کوئی برتری یا عظمت کی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ علم نفسیات میں نرگسیت کی اصطلاح بیماری کی حد تک بڑھی ہوئی خود پسندی کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یعنی جب گرد و پیش کے حقائق سے آنکھیں چرا کر کوئی شخص اپنے آپ کو دنیا کی اہم ترین حقیقت سمجھنا شروع کردے اور اپنی ذات کے نشے میں بدمست رہنا شروع کردے۔ وہ ایک عظیم نہیں بلکہ ایک ذہنی بیمار انسان تصور کیا جاتا ہے۔ اور یہی کیفیت ہے عمران خان صاحب اور اس کی جماعت کے کارکنان کی ہے۔

اس نرگسیت یا ذہنی بیماری کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ جس طرح مسلمان اس نرگسیت کی وجہ سے تکبر اور مغالطے میں مبتلا ہیں کہ ہم دنیا کے سب سے اچھے لوگ ہیں ہم نے دنیا کو تہذیب سکھائی ہے، دنیا بیک ورڈ ہے اس کو آداب نہیں آتے۔ اسی طرح عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکنان اس مغالطے کے کا شکار ہیں کہ وہ اس نظام کو تبدیل کر پائیں گے۔ ان کے نزدیک آئین اور قانون کی کوئی وقت نہیں ہے صرف اور صرف ان کے سربراہ کے بیانات اور تقاریر کی بالادستی اور عظمت ہے۔

کیا نظاموں کی تبدیلی دوسری جماعتوں کو لعن طعن کرنے ان کو برا بھلا کہنے اور ان کو چور ثابت کرنے سے ہوتی ہے۔ جس طرح مسلمان مغالطوں اور تکبر کی وجہ سے دنیا میں تنہا ہوچکے ہیں اور شدت پسندی اور رجعت پسندی کی وجہ سے دنیا میں سب سے کم ترقی یافتہ اور الگ تھلگ ہیں۔ یہی حال تحریک انصاف اور اس کے سیاسی کارکنان کا ہونے والا ہے۔ عنقریب معاشرے میں وہ پرتشدد اور ذہنی مریض کے طور پر جانے جائیں گے۔

جیسے تہذیبی نرگسیت کا علاج بقول مبارک حیدر صاحب کے کہ ہم اپنی تہذیب کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں اور ہمارے دانشور ایک منفی اور جارحانہ جنون کو غیر ملکی سازشوں کا رونا رونے کے بجائے اپنے عمل کو درست کریں اور لوگوں کو اس طرف لائیں۔ اسی طرح عمران خان اور تحریک انصاف بجائے باقی جماعتوں کی تذلیل کرنے کے ملک میں اصلاحات اور اپنی سیاسی تنظیم سازی پر زور دیں۔ تو ملک میں ایک متوسط طبقے کی جماعت نمودار ہو سکتی ہے جسے لوگ تحریک انصاف سے کے نام سے جانیں گے اور جو عام آدمی اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو ایوان بالا تک پہنچا سکتی ہے وگرنہ جیسے دیومالائی کہانی میں اسے ڈر تھا کہ پانی کی سطح ہلنے سے عکس ٹوٹ جائے گا اور اس کی شکل کا حسن ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ چنانچہ پیاس سے نڈھال ہو کر مر گیا اسی طرح حقیقت کے آشکار ہونے اور نوجوانوں کو سمجھانے تک تحریک انصاف کے چاہنے والے خود فریبی اور نرگسیت کا شکار رہے اور اس سیاسی بحران کا سامنا کرنے کی بجائے غیر سیاسی اور غیر آئینی ہتھکنڈوں پر اتر آئے تو تحریک انصاف بھی دم توڑ جائے گی۔ اس کے چاہنے والے شاید پھر سر راہ یہ بتاتے پھریں گے کہ اس ملک میں تبدیلی لانا ناممکن ہے اس ملک میں بیرونی طاقتوں کی بالادستی ہے اور یہاں سب غدار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments