پشاور جلسہ: عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کا بڑا جلسہ مگر ’جتنے لوگ آ رہے تھے اتنے واپس بھی جا رہے تھے‘

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا گذشتہ شب پشاور میں جلسہ یقیناً حالیہ تاریخ کے بڑے جلسوں میں شمار ہوگا۔ اگر بد انتظامی نہ ہوتی اور جلسے کے لیے جگہ مناسب ہوتی تو شاید یہ جلسہ تاریخ رقم کر سکتا تھا۔

اس جلسے میں جماعت سے منحرف ہونے والے اراکین اسمبلی کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ جماعت کے کارکن ٹولیوں کی شکل میں جلسہ گاہ کی جانب مختلف نعرے لگاتے ہوئے آ رہے تھے جس میں وہ نعرے اور نام شامل تھے جو اکثر عمران خان اپنی تقریروں میں حزب اختلاف کے قائدین کے بارے میں کہتے آئے ہیں۔

جلسہ گاہ میں ڈرون کیمرے کے ساتھ پلاسٹک کا لوٹا لگا کر فضا میں بلند کیا گیا تو اس وقت جلسے میں شامل لوگوں نے بھرپور نعرے بازی کی اور ڈرون کیمرہ توجہ کا مرکز بنا رہا۔

بل بورڈ پر چڑھنے والے نوجوانوں اور گاڑی کی چھت پر ویل چیئر پر بیٹھے جماعت کے معذور کارکنان کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔

خواتین کے ساتھ جلسے میں بدتمیزی

پشاور جلسے میں خواتین بڑی تعداد میں شرکت کے لیے آئی تھیں لیکن بد انتظامی اور ان کے لیے مناسب جگہ اور راستہ نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر خواتین واپس چلی گئیں۔

جلسہ سے مایوس طالبات نے انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں کے رویے پر شکایت کی اور کہا کہ بد انتظامی کی وجہ سے وہ عمران خان کی تقریر سنے بغیر واپس جا رہی ہیں۔

موجودہ سیاسی صورتحال پر بی بی سی کا لائیو پیج

پی ٹی آئی، پشاور جلسہ، خواتین

ان خواتین نے کہا کہ پولیس اور لوگ دھکے دے رہے ہیں، لاٹھیاں برسا رہے ہیں، خواتین کے انکلوژر میں داخلے کے راستے پر بڑی تعداد میں لڑکے کھڑے تھے جو ’عجیب قسم کی آوازیں کس رہے ہیں۔‘

اسی راستے سے اکثر مرد حضرات بھی داخلے کی کوشش کرتے رہے جنھیں پولیس اہلکار روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس بد انتظامی کے باوجود خواتین نے کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں اور عمران خان کے ساتھ رہیں گی، ان کی حمایت جاری رکھیں گی۔

اکثر کارکن ’امپورٹڈ حکومت نا منظور‘ کے نعرے لگاتے رہے، مخالف سیاسی جماعت کے قائدین کے خلاف نعروں کی آوازیں بھی آتی رہیں جبکہ پشتو زبان کا ایک نعرہ بھی سنا گیا جس میں جماعت سے منحرف ہونے والے ارکان پر تنقید کی گئی۔

جلسے میں کینسر کا مریض

اس جلسے میں ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ کینسر کے مریض ہیں اور ان کا علاج نہیں ہو پا رہا تھا۔ پھر شوکت خانم ہسپتال میں ان کا علاج شروع ہوا اور اب وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں۔

نوجوان نے بتایا کہ ان کا تعلق ضلع خیبر سے ہے اور علاج شوکت خانم ہسپتال لاہور میں ہو رہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ لاہور سے عمران خان کے جلسے میں شرکت کے لیے آئے ہیں اور ان کی طرح کے سینکڑوں کینسر کے مریضوں کا علاج شوکت خانم میں ہو رہا ہے۔

وہ سر پر پی ٹی آئی کی ٹوپی اور ہاتھ میں جماعت کا پرچم اٹھائے لوگوں کو بتا رہے تھے کہ وہ اب صحتمند ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر وہ کہتے ہیں کہ ’میں عمران خان کے لیے آیا ہوں کیونکہ اس نے میرا اور میرے جیسے بہت سے لوگوں کو علاج کرایا ہے۔‘

پی ٹی آئی کے جلسے میں میڈیا کے لوگ پریشان؟

بد انتظامی کا ذکر ہو رہا تھا تو اس میں میڈیا کے لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ جلسہ گاہ میں داخلی راستے پر بھگدڑ کے دوران پتھراؤ کیا گیا جس سے دو فوٹو جرنلسٹس زخمی ہوئے ہیں۔

انٹرنینشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے دو صحافی عمران خان کی تقریر سے پہلے واپس جاتے ہوئے نطر آئے تو انھوں نے بتایا کہ انھیں تو اللہ نے بچایا ہے، وہ مرتے مرتے بچ گئے۔

ان کے مطابق صورتحال خراب تھی اس لیے وہ واپس چلے گئے۔ انھوں نے بتایا ’ضروری نہیں ہے کہ اس جلسے کی کوریج کی جائے۔‘

میڈیا کے لیے ایک ہی کنٹینر رکھا گیا تھا جس پر جماعت کے کارکن بڑی تعداد میں پہنچ گئے تھے۔ اکثر جرنلسٹس کوئی تیس سے چالیس فٹ بلند کنٹینر کے کنارے پر موجود اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ کسی نے کیمرہ اٹھایا ہوا تھا تو کوئی وہاں کھڑے ہو کر بیپر یا رپورٹ ریکارڈ کر رہا تھا۔

اپنے واٹس ایپ گروپ میں پشاور کے صحافیوں نے اپنی شکایات ریکارڈ کرانے کے لیے ویڈیو پیغامات کا ذکر کیا ہے تاکہ اس مسئلے کو جماعت کے سامنے لایا جا سکے۔

وہاں موجود کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں تو ان کو منظم رکھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے، اس لیے ایسے جلسوں میں اس طرح ہو ہی جاتا ہے۔

پشاور جلسہ، پی ٹی آئی

جتنے لوگ آ رہے تھے اتنے واپس بھی جا رہے تھے

اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر اس جلسہ کا بہتر طور پر انتظام ہوتا تو شاید لوگوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی کیونکہ جتنی تعداد میں لوگ جلسہ گاہ میں شرکت کے لیے آ رہے تھے لگ بھگ اتنی ہی لوگ واپس بھی جا رہے تھے۔

پشاور کے رنگ روڈ پر جہاں جماعت کے کارکن نعرے بازی کرتے ہوئے جلسہ گاہ کی طرف آ رہے تھے اسی طرح اس دو رویا سڑک پر دوسری جانب لوگ واپس بھی جا رہے تھے۔

ایک نوجوان محمد ذیشان نے بتایا کہ پشاور میں رمضان کے مہینے میں اکثر لوگ سحری تک جاگتے رہتے ہیں، اب ان کے علاقے میں ایک طرح کا میلہ لگا ہوا ہے اس لیے وہ اور ان کے دوست گپ شپ کے لیے ادھر آ گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں سے متعلق صورتحال کیا ہے؟

شہباز شریف: پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ملک کی وزارتِ عظمٰی تک کا سفر

عمران خان کے سیاسی سفر میں اب تک کے پانچ اہم لمحات

زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی ضروری ہے!

تحریک انصاف، پشاور جلسہ

ان کا کہنا تھا کہ انھیں کچھ اور بھی لوگ ایسے ملے ہیں جو صرف گپ شپ کے لیے آئے ہیں۔

اسی جگہ موجود پی ٹی آئی کے ایک کارکن کا کہنا تھا کہ اگر یہ بات ہے تو دوسری جماعتوں کے جلسے میں لوگ کیوں نہیں آتے، حزب اختلاف کی سب جماعتیں مل کر بھی اتنی بڑی عوامی قوت کا مظاہرہ نہیں کر سکتیں۔

لوگ کیا کہہ رہے تھے؟

سوات سے آئے ایک نوجوان محمد اویس نے بتایا کہ وہ کاروبار کرتے ہیں۔ ’اپنی دوکان ہے، عزت سے کماتا ہوں اور عزت سے کھاتا ہوں۔ اس لیے عمران خان کے ساتھ ہوں، بھکاری نہیں۔‘

نوشہرہ سے آئے ایک کارکن فواد خان نے بتایا کہ غربت اور مہنگائی بالکل ہے اور لوگ پریشان ہیں لیکن اب مسئلہ مہنگائی کا نہیں ہے بلکہ غیر کا ہے اور وہ صرف اس ایک لفظ پر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ امپورٹڈ حکومت کو نہیں مانتے اور امریکہ کی مداخلت کے خلاف ہیں۔

سینیئر اراکین بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ ان میں جماعت سے وابستہ ضلع دیر سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی محمد اعظم خان نے بتایا کہ دراصل لوگ عمران خان کےساتھ محبت کرتے ہیں اور انھوں نے جو موقف اختیار کیا ہے لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت ایک سازش کے تحت ختم کی گئی ہے اور اب امید ہے بہت جلد انتخابات ہوں گے جس سے پی ٹی آئی زیادہ اکثریت سے جیت کر آئے گی۔

پی ٹی آئی کا جلسہ جمعیت کے مرکز کے سامنے

یہ جلسہ پشاور شہر میں جی ٹی روڈ اور موٹر وے سے داخل ہونے والے راستے اور ادھر چارسدہ روڈ کو ناردرن بائی پاس اور ادھر رنگ روڈ سے منسلک کرنے والے راستوں کے سنگم پر منعقد کیا گیا۔

یہی وجہ تھی کہ شہر میں داخلی راستے اس جلسے کی وجہ سے بلک ہو گئے تھے۔ جماعت کے ایک کارکن نے بتایا کہ جس سٹیج پر عمران خان موجود ہیں اور اس کا اخری حصہ ادھر جی ٹی روڈ تک پھیلا ہوا ہے۔

پشاور جلسہ

اس جلسہ گاہ کے بالکل قریب جمعیت علما اسلام کا مرکزی سیکریٹریٹ اور مدرسہ واقع ہے۔ اس جلسے کا سٹیج اس مدرسے سے چند قدم کے فاصلے پر تھا اور اکثر لوگ اسی راستے سے جلسہ گاہ کی جانب آ رہے تھے۔

انتظامیہ اور پولیس کے لیے یہ بڑا چیلنج تھا کیونکہ پی ٹی آئی کے کارکن آتے جاتے وہاں نعرے بازی کرتے رہے۔

مدرسے کے اردگرد کنٹینر لگا دیے گئے تھے اور اس کے علاوہ بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات تھے۔ مدرسے کے سامنے پی ٹی آئی کے بڑی بڑے بل بورڈز بھی آویزاں کیے گئے تھے۔

پولیس اور انتظامیہ کے لوگ اس مدرسے کے قریب چوکس موجود تھے تاکہ کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہ آ سکے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments