لہو وجود ریاست اور پاکستان کا ہٹلر


میرے بچو! میرا نام پاکستان ہے اور میں دنیا کی واحد ایٹمی قوت والی اسلامی ریاست ہوں۔ میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں اور اسلامی دنیا کی دوسری سب سے بڑی ریاست ہوں۔ میں آج آپ کی عدالت میں اپنا اور اپنے ورثا کا مقدمہ پیش کر رہی ہوں جو موجودہ دور کے ہٹلر اور اس کی فاشسٹ جماعت کے نام ہے۔

مجھے اور میرے عوام کو 2008 میں لگ بھگ دس سال کی بدترین آمریت کے بعد آزادی نصیب ہوئی لیکن یہ آزادی مفت میں نہیں ملی۔ اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔ آزادی کی اس جدوجہد میں مجھے اپنے سب سے قیمتی سپہ سالاروں میں سے ایک کو قربان کرنا پڑا۔ لہو کے اتنے قیمتی خراج کے بعد آزادی کی صبح نصیب ہوئی، ورنہ غاصب تو چوہدری ظہور الہی روڈ لاہور پر پھر سے جشن کا اہتمام کر چکے تھے۔ میرے مظلوموں اور محکوموں کی آزادیوں کے بینظیر خواب جینے والی، بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ احمد فراز کی زبان میں یوں کہیں کہ

وہ برق لہر بجھا دی گئی تھی، جس کی تپش
وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
لیکن
انہیں خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے

بہت بڑی قیمت چکانے کے بعد جمہوریت بحال تو ہوئی لیکن بہت مختصر پسپائی کے بعد سازشیں دوبارہ شروع ہو گئیں۔ 2011 میں جمہوریت کے وجود کے خلاف آنے والے وقت کی سب سے کڑی آزمائش عمران خان، کے مردہ سیاسی گھوڑے کو پروپیگنڈا کے انجکشن لگا کے نئی توانائی کے ساتھ میدان میں اتارا گیا۔ گو کہ وہ کارزار سیاست میں 1997 سے تھے لیکن اب تک صرف ایک سیٹ جیتی تھی وہ بھی 2002 میں جنرل مشرف کی عنایت سے۔ عمران خان کو بہت سارے الیکٹیبلز توڑ کے دیے گئے اور تین مجرب بیانیے دیے گئے، کرپشن، احتساب اور ریاست مدینہ کا نعرہ۔ جن کو پھیلانے کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بھرپور تائید اور حمایت کا بندوبست بھی کر کے دیا گیا۔ دبئی سے چلنے والا میڈیا ہاؤس جمہوریت کی جڑ مارنے میں سرفہرست رہا جو روش آج تک قائم ہے۔ اس واردات کا سب سے خطرناک پہلو، خان کا جمہوریت پسندوں کے درمیان رہ کے انہی کے خلاف سازباز تھا۔ جسے آج تک بھی میرے کچھ نوجوان بچے نہیں سمجھ سکے۔

عمران خان کے اس ظہور کے بعد پہلا جنرل الیکشن 2013 ہوا اور بیساکھیوں کے سہارے میدان میں اتری تحریک انصاف انتخاب ہار گئی۔ لیکن سازشوں میں کمی نہ آئی بلکہ اور بڑھ گئیں اور 2014 میں 66 ارب ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہداری کے معاہدات پر دستخط ہوتے ہی عمران خان نے ڈی چوک اسلام آباد پر 126 دن کا دھرنا دے دیا۔ دھرنا تو ناکام ہو گیا لیکن پہلے سے کمزور جمہوریت کو مزید کمزور کر گیا۔ 2014 سے 2018 عمران خان، انصافی قیادت اور شیخ رشید نے ملی بھگت اور ساز باز کر کے ریاست کے وسائل (کے پی حکومت) اور فارن فنڈنگ سے کمزور جمہوریت پر ایسی ایسی وارداتیں ڈالیں کہ کسی بدترین آمر نے بھی کیا ڈالی ہوں گی۔

اس سارے عرصے میں ان کا کردار جلاؤ، گھیراؤ مارو اور مار دو کی سیاہ ترین واردات کی داستان ہے۔ اس سارے عمل میں قومی میڈیا میں موجود ریاست اور جمہوریت مخالف میڈیا ہاؤسز کے ساتھ سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن اور عوامی نمائندوں کی کردارکشی کے لیے ڈونرز کے پیسے سے چلنے والے میڈیا سیلز نے معاشرے میں بد کلامی، بدزبانی، اور دروغ گوئی کا ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا، نفرت اور عدم برداشت کا ایسا زہر گھولا جو کم معلومات والے، کم عمر نوجوان پاکستانی بیٹے اور بیٹیوں نے جائز سمجھ کے قبول کر لیا۔ مثال کے طور پر عوامی نمائندوں کو بغیر تحقیق اور ثبوت کے ’چور‘ ، ’ڈاکو‘ ، ’لٹیرا‘ کہ دینا ’ڈیزل‘ کہ دینا ’ذلیل‘ اور ’چوہا‘ کہ دینا۔

ساتھیو یہ وہ الفاظ ہیں جو بیان ہو سکتے تھے لیکن حقیقت میں تحریک انصاف کی بدزبانی اور بد تہذیبی کا عالم یہ ہے کہ اختلافی نکتہ نظر والوں کے بارے میں جب بھی زبان کھولی اور منہ کھولا تو معاشرے میں ایسا زہر اور تعفن پھیلا کہ زبان اور تہذیب دونوں کو بے آبرو کیا۔ جب کہ دعویٰ یہ ہے کہ علامہ اقبال ان کے آئیڈیل ہیں۔ اور وہ تو یہ کہ گئے۔

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

شدید نا مساعد حالات کے باوجود عوام کی منتخب مسلم لیگ کی حکومت نے پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد کے حساب سے معیشت کو ترقی دی، بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف فتحیاب ہو کر امن بحال کیا۔ گیارہ ہزار میگاواٹ کا بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا اور لوڈشیڈنگ پر قابو پایا۔ 2018 کے انتخابی معرکے میں تمام تر انتظامات کے باوجود تحریک انصاف الیکشن ہار رہی تھی کہ اچانک رات کو گیارہ بجے آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔ اور اگلی صبح عوامی رائے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کو جتوا دیا گیا۔ اس میں اور کرداروں کے ساتھ ساتھ ناصر الملک اور حسن عسکری رضوی کی عبوری حکومت کے سیاہ کردار کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

پہلا بیانیہ جو خان کو ترتیب دینے کے لیے کہا گیا وہ کرپشن کا بیانیہ تھا۔ یہ کہ سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں۔ اقتدار میں مال بنانے کے لیے آتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے لوگوں کو موقع دیں وہ پاکستان کی سیاست کو کرپشن سے پاک کریں گے۔ میڈیا کے محاذ سے اتنے تواتر کے ساتھ جھوٹ بولا گیا کہ کافی تاریخ سے نا بلد میرے نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اس جال میں پھنس گئے اور کچھ تو ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔ میرے بچو اس نظریے کو فاشزم کہتے ہیں اور اس کا خالق جرمنی کا سابق ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر تھا جس کا فرمان تھا کہ ’جھوٹ کو اتنے اعتماد کے ساتھ اور اتنے تواتر سے بولو کہ لوگ سچ ماننے لگیں‘ لیکن نتیجہ کیا نکلا تھا، جھوٹے دعووں سے اقتدار حاصل کیا، جرمنی کو تباہ کر کے، ہٹلر اور اس کے شیخ رشیدوں، شہباز گلوں، اور فوادوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ زہر کے انجکشن لگا کے اجتماعی خود کشیاں کر لیں۔ ( 1 / 2 )

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments