ماؤنٹین ہیریٹیج ٹورازم سیاحت کا نیا دریچہ


حالیہ سانحہ مری جس میں بیس کے قریب سیاح برف اور بدانتظامی کے باعث ہلاک ہوئے سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اگر بہتر اور حقیقت پر مبنی منصوبہ بندی نہ کی گی تو سیاحت عذاب جاں بن جاتی ہے۔ اطلاعات اور انکوائری رپورٹ کے مطابق اس غفلت میں کئی اداروں کو ذمہ وار قرار دیا گیا ہے جس سے اداروں کی نام نہاد کارکردگی کی قلعی اتر گئی ہے نیز ٹورازم کے لئے ہماری سنجیدگی پر بھی کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

مری کی طرح گلگت بلتستان بھی سیاحت کے حوالے سے بہت زیادہ مقبول ہے بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہو گا کہ گلگت بلتستان ایڈونچر ٹور ازم، متنوع تہذیب و ثقافت، سلک روٹ، جغرافیائی خدو خال اور پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے پاکستان میں الگ اور منفرد حیثیت کا حامل علاقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈونچر ٹور ازم کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک ٹور ازم میں بھی گزشتہ چند سالوں خاطر خواہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ حویلیاں سے تھاکوٹ تک موٹر وے تیار ہو کر استعمال بھی کی جا رہی ہے جبکہ کوہستان اور چلاس کے کچھ ایریاز میں داسو ڈیم اور دیامر بھاشا ڈیم کی وجہ سے مروجہ سڑک پر کچھ رد و بدل کیا جا رہا ہے۔

جگلوٹ سکردو دور تکمیل کے آخری مرحلے پر ہے۔ جبکہ استور شعر تھنگ دور اور گلگت غذر روڈ کا بھی آوازہ بلند ہے۔ خطے میں ٹور ازم کے فروغ کے لئے مرکزی شاہراہوں کی تعمیر اور آپ گریڈیشن نہایت ضروری تھی جس پر کام ہو رہا ہے۔ دوسری طرف سکردو ائرپورٹ کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور گزشتہ دو سالوں سے ملک کے بڑے بڑے شہر کراچی، لاہور، ملتان اور سیالکوٹ سے سکردو کے لئے فلائٹس چلائی گئی جس کی وجہ سے ملکی سطح کے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد نے یہاں کا رخ کیا۔ درست اعداد و شمار اور ریکارڈ نہ رکھنا ہمارا قومی مزاج ہے لہذا گلگت بلتستان میں آنے والے سیاحوں کی صحیح تعداد کا شاید اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے یوں زبان زد عام ہے کہ یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔

دوسری جانب اگر ہم سہولیات کا جائزہ لیں تو کوئی دلکش تصویر نظر نہیں آ رہی ہے۔ گلگت اور سکردو میں کسٹم ان پیڈ گاڑیوں کی بہتات ہے ساتھ ساتھ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اپنی ذاتی گاڑیوں میں یہاں کا رخ کر رہی ہیں ایسے میں دونوں بڑے شہروں میں پارکنگ کی کوئی باقاعدہ سہولت موجود نہیں، اوپر سے بغیر NOC کے دکانیں، پلازے اور مکانات بن رہے ہیں کہ خدا کی پناہ، کچھ سالوں کے اندر یہ خوبصورت علاقے راجہ بازار راولپنڈی کی شکل اختیار کر جائیں گے۔ گلگت بلتستان میں ابھی تک ٹاؤن پلاننگ نہیں کی گئی ہے جس کا خمیازہ ابھی بھگتنا پڑ رہا حال ہی میں حکومت نے گلگت اور سکردو کے لئے ٹاؤن پلاننگ کا بیڑا اٹھایا ہے۔

ڈاکٹر ذارا حسین، لاجورد کے نام سے ایک ادارہ چلا رہی ہے اور ان کا آفس بنی گالہ اسلام آباد میں موجود ہے۔ جعفر علی میرے دوست ہیں اور AKCSP میں بھی کولیگ رہ چکے ہیں اب اس ادارے کے لئے کام کر رہے ہیں ان کے توسط سے ڈاکٹر ذارا حسین سے ملاقات ہوئی۔ لاجورد کلچر اور ڈویلپمنٹ پر کام کر رہا ہے اس سلسلے میں گلگت میں Fragile Heritage Ecologies: A New Framework For Mountain Preservation

کے عنوان سے ایک ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا اور بعد ازاں سکردو میں بھی ادب، کلچر اور ڈویلپمنٹ سے منسلک افراد کے ساتھ ایک نشست رکھی گئی تھی۔ دونوں تقریبات میں دعوت کے باوجود ناگزیر مصروفیت کی وجہ سے شرکت ممکن نہ ہو سکی۔

اب جب ان دنوں میں اسلام آباد میں مقیم تھا تو ایسے میں جعفر نے لاجورد آفس بلایا اور 19 فروری کو اس ادارے کے توسط سے پشاور میوزیم میں منعقدہ تقریب Silk Route Network کی دعوت دی۔ اس تقریب میں ازبکستان، کرغزستان، تاجکستان سمیت گلگت بلتستان اور پاکستان کے دیگر شہروں کے منتخب نمائندوں نے شرکت کی۔ تقریب پشاور میوزیم میں رکھی گی تھی جسے ڈاکٹر صمد خان ڈی جی میوزیم اینڈ آرکیالوجی کی باصلاحیت شخصیت نے ایک نئے انداز کی تزین و آرائش کے بعد کھول دیا ہے جو کہ دو سال سے بند پڑا ہوا تھا۔ تقریب کے مہمان خصوصی اس وقت کے وزیراعظم کے مشیر سید زلفی بخاری تھے۔

ذارا حسین نے اپنے ادارے لاجورد سے متعلق تفصیلات سامعین کے گوش گزار کیں کہ کس طرح یہ نوزائیدہ ادارہ اپنی بساط کے مطابق پاکستان کی تہذیب و تمدن کی تحفظ کے لئے سرگرم عمل ہے۔ تاجکستان، کرغزستان، قازقستان وغیرہ سے آئے ہوئے ماہرین نے سنٹرل ایشیا خاص طور پر سلک روٹ سے منسلک علاقوں کی تہذیبی اہمیت، ہیریٹیج ٹور ازم اور سیاحت کے فروغ کے لیے باہمی اشتراک کی اہمیت کو اپنی اپنی پریزنٹیشن میں اجاگر کیا۔

تقریب کی ایک خاص بات ڈاکٹر ذارا حسین کی کتاب کا بھی افتتاح تھا۔ چونکہ ڈاکٹر ذارا حسین خود آرکیٹیکٹ ہے انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے آرکیٹیکچر کرنے کے بعد بیرون ملک سے ہیومن جغرافیہ میں Phd کر رکھی ہے لہذا ہیریٹیج اور اس سے منسلک ٹور ازم کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ہماری دلچسپی اس کتاب اور موضوعات سے زیادہ اس لئے ہے کہ اس میں جگہ اور ماحول کے مطابق تعمیرات، بلڈنگ کی ساخت اور میٹریل کے استعمال کے لئے گائیڈ لائن دی گئی ہے اور خاص طور پر گلگت بلتستان میں ٹور ازم کے حوالے سے کی جانے والی تعمیرات کے لئے رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے۔

گلگت بلتستان کا خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، برف باری معمول سے کم ہو رہی ہے، گلیشیرز بھی متاثر ہو رہی ہیں ساتھ ساتھ بغیر منصوبہ بندی کے تیز رفتاری سے ہونے والی ڈویلپمنٹ بھی اس کے ایکو سسٹم میں خلل ڈال رہی ہے۔ نہایت بے ہنگم اور گائیڈ لائن کے بغیر ہونے والی تعمیرات زرعی زمینوں اور سبزہ و گیاہ کو تیزی سے نگل رہی ہے وہیں پر سیاحت کی بڑھتی صورتحال کی وجہ سے جگہ جگہ بغیر پلاننگ کے گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹل بے ترتیب کھمبیوں

کی طرح اگ رہے ہیں۔ دریا، چشموں اور قدرتی جھیلوں کے گردونواح میں کنکریٹ کی عمارتیں نہ صرف قدرتی حسن کو گہنا رہی ہیں وہیں پر کھیت کھلیان اور باغیچے بھی کمرشل ازم کی نذر ہو رہے ہیں۔ بیس سالوں سے میونسپل اور ضلع کونسلز معطل ہیں، کہیں بھی نہ کوئی بلڈنگ کوڈز ہیں اور نہ ہی بی ہنگم تعمیرات کو مانیٹر کرنے کا نظام موجود ہے۔ اس بے توجہی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ سال تو ٹور ازم کے نام سے کمائی ہوگی لیکن جلد یا بدیر پورا خطہ اپنی کشش کھو بیٹھے گا جہاں نہ مناسب پارکنگ ہوگی اور نہ ہی پرسکون رہائش۔ گلگت بلتستان کے مرکزی شہروں کے دیکھا دیکھی میں خوبصورت دیہات اور گاؤں بھی اپنی وضع بدل رہے ہیں۔ تعمیرات میں روایتی طرز اور میٹریل کو خیرباد کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف سردیوں بلکہ گرمیوں میں بھی رہائش فرحت بخش نہیں رہتی ہے۔

چونکہ زیادہ تر آبادی ندی نالوں کے کنارے یا پہاڑی ڈھلوانوں پر مقیم ہے جس کی وجہ سے سیلاب، برفانی پانی کی زیادتی اور زلزلوں کی وجہ سے خطرات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں اگر مکانات اور دیگر تعمیراتی کام کسی گائیڈ لائن اور جغرافیائی حالات کے مطابق تعمیر نہ ہوں تو نقصان کا زیادہ احتمال رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments