ذہنی معذور


”آپ نے کتنے قتل کیے ہیں؟“ رپورٹر نے سوال کیا۔
”تین“ طاہرہ کا جواب جذبات سے عاری اور سرد تھا

”کیوں“ شاہد کو پہلے کسی مجرم کا انٹرویو کرنے کا کوئی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اسے صحافت کا امتحان پاس کیے ابھی صرف ایک ماہ ہوا تھا۔

”کیونکہ وہ سب اسی لائق تھے، ہا ہا ہا ہا“

طاہرہ کے چہرے پہ سختی تھی، شاہد نے جب اسے اپنی طرف گھورتے ہوئے پایا تو اسے اپنی کمر پہ پسینہ رینگتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے پہلو بدلا اور غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے ایک دفعہ پھر نکلا، ”کیوں؟“

طاہرہ نے جواب دینے کی بجائے کونے میں بیٹھے سپاہی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا جو شاید موبائل میں کوئی لطیفہ پڑھ کر ہنستے ہوئے اپنی ناف کے نیچے کھجا رہا تھا۔

”حرام زادہ“ ، طاہرہ نے آہستگی سے بولا

شاہد نے اس غیر متوقع ردعمل کے بعد اپنی کیوں کا جواب لینا مناسب نہ سمجھا اور سپاہی کی طرف دیکھ کر اپنی عینک درست کی۔

”جس کا انٹرویو کرو اس کی نفسیات سمجھنے کی کوشش کرو، اپنے آپ کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچو کہ وہ ایسا کیوں ہے“ ۔ شاہد کے دماغ میں اپنے استاد بنگش صاحب کی آواز گونجی۔

اس بار اس نے قدرے سنبھل کر اعتماد کے ساتھ پوچھا، ”آپ مجھے اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیے“

اس سے پہلے کہ طاہرہ کوئی جواب دیتی سپاہی کی آواز آئی ”ابے للو تو کسی قاتل کا انٹرویو لینے آیا ہے یا ٹی وی ایکٹریس کا؟ ہاہاہاہا“ ، اس بار خاتون سپاہی بھی قہقہے میں شریک تھی۔

چند لمحے خاموشی رہی اور شاہد طاہرہ کو زور زور سے آنکھیں جھپکتے دیکھ کر اس کے آنسو تاڑ گیا۔ اسے اپنا تیر نشانے پر لگتا ہوا محسوس ہوا اسی مقصد کے لیے جیب میں رکھا ٹشو اس نے طاہرہ کی طرف بڑھایا جسے اس نے نظر انداز کر دیا۔

اس کی تحقیق کے مطابق طاہرہ پر پولیو کا حملہ سات سال کی عمر میں ہوا تھا۔
”کیا بچپن میں چل پھر سکتی تھی تم؟“ اس نے طاہرہ کی ویل چیئر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

”چل نہیں سکتی تو کیا ہوا، تم لوگوں سے کروڑ درجے بہتر ہوں۔ گھٹیا دو ٹانگوں والے جانورو اوقات کیا ہے تم لوگوں کی میرے سامنے؟“ طاہرہ کی آواز میں اشتعال تھا اور یہ بات وہ سپاہی کی طرف گھورتے ہوئے بول رہی تھی۔

شاہد: معاف کرنا میرا مطلب ہرگز تمہاری معذوری۔

”معذوری؟“ طاہرہ اس کی بات کاٹ کر بپھر کر بولی، ”میں معذور نہیں ہوں معذور تو تم لوگ ہو، ذہنی معذور، میرے یہ دو ہاتھ ہی کافی ہیں تم چوپائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے“ ۔ اس نے اپنے ہتھکڑی لگے ہاتھ ہوا میں اوپر اٹھا لیے۔

خاتون سپاہی نے اپنا ڈنڈا اس کی ویل چیئر مارتے ہوئے چلا کر کہا ”اری او پھولن دیوی، آرام سے بیٹھ، دیتی ہوں ورنہ ایک“ ۔

طاہرہ نے کھا جانے والی نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور زمین پہ تھوک دیا۔
شاہد نے اپنی پانی کی بوتل طاہرہ کی طرف بڑھائی۔
دو گھونٹ پانی پینے اور چند لمحے سانس لینے کے بعد طاہرہ نے بولنا شروع کیا۔

”مجھے بچپن سے سب لوگ لنگڑی لنگڑی کہہ کر چھیڑتے تھے۔ کوئی اپنے ساتھ نہیں کھلاتا تھا، اماں کو بھی مجھے اپنے ساتھ کہیں لے جاتے ہوئے تکلیف ہوتی۔ وہ رو رو کر لوگوں سے میرے نام پر چیزیں اور پیسے مانگا کرتی۔

ایسے میں صرف انور ہی تھا جو میرا ہمدرد تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا اسے دیکھا، ہمیشہ مجھے پیار کرتا، گود میں کھلاتا اٹھا اٹھا کر پھرتا رہتا۔ میرے ماموں کا بیٹا تھا، مجھ سے دس سال بڑا۔ جب تھوڑی سمجھدار ہوئی تو کہنے لگا کہ تو میری دلہن ہے اور میں بھی اسے اپنا سب کچھ سمجھنے لگی۔ اس نے بچپن ہی میں مجھے جذبات اور جسم کے رازوں سے آشنا کروا دیا۔ ایک دن جب ماں نے کمرے میں ہمیں پکڑ لیا اور میری خوب پٹائی کی تو میں نے کہہ دیا کہ میں انور سے شادی کروں گی۔ جب ماں نے رو رو کر اپنے بھائی کے آگے دوپٹہ ڈالا تو انور یہ کہہ کر گھر سے بھاگ گیا کہ میں اس لولی لنگڑی سے کیوں شادی کرنے لگا۔ میں نے دو مرتبہ زہر کھایا لیکن یہ ڈھیٹ جان، جان ہی نہیں چھوڑتی تھی ”۔

”مگر تم نے اپنے سوتیلے باپ رشید کو کیوں مارا؟“ شاہد نے اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے پوچھا۔

طاہرہ : وہ بھی انور کا ہی ایک روپ تھا۔ اس نے مجھے اور اماں کو ابا کے مرنے کے بعد سہارا دیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اماں کو مار پیٹ کرنے لگا۔ کہتا کہ اس بوجھ کو کسی یتیم خانے میں داخل کرا دے۔ جب میں سولہ سال کی تھی تو ایک دن گھر میں اکیلے پا کر اس نے مجھ پر دست درازی کی۔ میرے منع کرنے پر پہلے تو چیزیں دلانے کا لالچ دیا اور جب میں نہ مانی تو گلا دبا کر مجھے اور اماں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ میں ڈر گئی اور یوں وہ میرا جسم نوچتا رہا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ ماں کو نہ مارا کرے، تو وہ مان گیا۔ سات سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن میری ماں سکھی ہو گئی۔ آخر میرے زہر ملائے دودھ نے اس کو کیچوے کی طرح تڑپا کر مارا اور میری روح کو سکون ملا۔

یہ کہتے ہوئے طاہرہ کے چہرے پہ ایک سفاکانہ اطمینان تھا۔

”میں اسی گندے ادھورے جسم کے ساتھ اپنی زندگی گھسیٹتی رہی۔ اگر قدرت نے میرے ساتھ نا انصافی کی تھی تو کم از کم یہ معاشرہ تو اس کی تلافی کر سکتا تھا ناں۔ لیکن اس نے بھی ہمیشہ نفرت اور ٹھوکریں ہی دیں۔ لوگوں نے پیار اور ہمدردی کے نام پر اپنے جسم کی بھوک مٹائی، کبھی بس میں سوار کرتے کبھی سیڑھی چڑھانے میں مدد کرتے تم مردوں نے میرا جسم نوچا اور میں چپ چاپ سہتی رہی“ ۔

شاہد : لیکن تم نے پھر نسیم کو کیوں مارا وہ تو ایک عورت تھی؟

طاہرہ تھوڑی دیر اپنے بے جان پاؤں کی طرف گھورتی رہی۔ شاہد کے لیے یہ وقفہ بے چین کر دینے والا تھا۔ وہ کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ طاہرہ بولی، ”تم نے وہ میری اخبار والی فوٹو تو دیکھی ہی ہوگی“ ۔

شاہد اس اچانک سوال سے چونک گیا، ”کون سی تصویر؟“
طاہرہ : میری اور اماں کی۔
شاہد: نہیں
طاہرہ : تم بھی میری تصویر لگاؤ گے اخبار میں؟
شاہد نے اپنی گردن کے گرد لٹکتے کیمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”ہاں ہاں“ ۔

طاہرہ مسکرائی، ابا کے مرنے کے بعد جب فاقے کرنے پڑے تو ایک دن ماں مجھے لے کر چوک میں کھڑی ہو گئی، کسی نے ایک پوسٹر پر لکھ کر اسے پکڑا دیا، ”بیٹی برائے فروخت“

طاہرہ نفرت بھری ہنسی ہنسی

”سارا دن بھوکے پیاسے کھڑے رہ کر چند روپوں کی بھیک اور ڈھیر ساری ہمدردیاں اکٹھی کر کے پیٹ کا دوزخ بھرا۔ شام کو ایک تمہارے جیسا اخبار والا آیا اور ہماری فوٹو لے کر اگلے دن اخبار میں چھاپ دی۔

اس کے بعد علاقے کے کونسلر نے آ کر ہمیں ایک ہزار روپے کا چیک دیا۔ تقریر کی اور ایک اخبار والے کے ساتھ ہماری تصویریں کھنچوائیں اور چلتا بنا۔ بینک گئے تو پتہ چلا کہ وہ بوگس چیک تھا۔ ڈرامے باز مکار ”۔

شاہد نے گھڑی کی طرف دیکھا اور بولا، ”وہ نسیم“
طاہرہ نے اس کی بات سنے بغیر بولنا شروع کیا

”آپ لوگوں کو نہیں پتہ معذور ہونا کیا عذاب ہے۔ پہلے اپنے آپ سے نفرت ہوتی ہے اور پھر اس معاشرے سے ہو جاتی ہے“ ۔

”قصور کیا ہے میرا؟ ہیں بتاؤ؟“ طاہرہ چلائی

”اپنے آپ سے جنگ کیا کم ہے جو ساری دنیا سے بھی جنگ کرنی پڑے؟ پانی کا گلاس پکڑنے سے لے کر پیشاب کرنے تک کی جنگ۔ اگر خود پر قابو پا کر باہر نکلنے کی ہمت کر ہی لو تو یہ سنو کہ گھر کیوں نہیں بیٹھتی۔ کیا میں انسان نہیں؟“

”نسیم کے پاس میں سلائی کا کام کیا کرتی تھی۔ وہ مجھے باقی سب لڑکیوں سے کم پیسے دیا کرتی اور بے عزتی الگ کرتی۔ مجھے سست اور کوڑھی کہتی، اپنے بچے کے قریب نہ آنے دیتی کہ میں منحوس ہوں۔

اس دن بھی اس نے مجھے ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کہتی تیز تیز ہاتھ چلاؤ ورنہ ایسا کرنٹ لگاؤں گی کہ تیری ٹانگوں میں جان آ جائے گی اور سر پر پیر رکھ کر بھاگنے لگے گی۔ سب لڑکیاں سن کر ہنسنے لگیں۔

روز روز کی بے عزتی سے تنگ آ گئی تھی میں۔ میرا دل چاہا کہ اس کی آنکھوں میں سوئیاں کھبو دوں تاکہ ساری عمر بھیک مانگے گھٹیا عورت۔ جب سب اپنے گھر چلے گئے تو اس نے مجھے بٹھا لیا، کہ جب قمیض کی سلائی ختم ہوگی تو چھٹی ملے گی ورنہ کل سے کام پر نہ آؤں۔

وہ بلا وجہ مجھے گالیاں دیتی جا رہی تھی اور اپنے موٹے منھ میں کھانا ٹھونستی جاتی تھی۔ میرے صبر کی انتہا ہو گئی، میں نے بھی پھر جواباً اس کو اور اس کی ماں بہن کو گالیاں دیں۔ یہ سن کر وہ ہاتھا پائی پہ اتر آئی، میرے منہ پر تھپڑ دے مارا اور میرے بال پکڑ لیے۔ اس نے مجھے ویل چئیر سے گرانے کی بھی کوشش کی۔ اسی کھینچا تانی کے دوران میرے ہاتھ میں جو قینچی تھی وہ میں نے اس کے پیٹ میں گھسا دی۔ وہیں مر گئی موٹی بد روح۔

مرتے دم میں نے اس کی آنکھوں میں خوف اور حیرت دیکھی، اس کے آخری الفاظ میرے کانوں میں پڑے، ”لنگڑی حرام خور“ ۔

بڑا سکون ملا مجھے اس دن، کہ اب لوگ مجھ پہ ترس کھانے اور بدسلوکی کرنے کی بجائے خوف کھائیں گے اور لنگڑی قاتل کے نام سے یاد کریں گے۔ مجھے یوں لگا کہ میں نے تمہارے سارے ظالم سماج کے پیٹ میں قینچی گھسا دی ہے اور اپنے اوپر ہونے والے سارے مظالم کا بدلہ لے لیا ہے۔

میں نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ دو دو قتل۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔ لنگڑی قاتل ہا ہا ہا ہا، کہو تم بھی کہو، لنگڑی قاتل ”۔

شاہد کو اسی وقت اپنے پیٹ میں کوئی قینچی گھستی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے جلدی سے اپنے کیمرے کا فوکس درست کیا اور اس کی تصویر لینے لگا۔ طاہرہ نے ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ وکٹری کا نشان بنایا اور خاتون سپاہی اس کی ویل چیئر گھسیٹتے ہوئے اسے وہاں سے لے گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments