بلقیس ایدھی کی ’لاڈلی پوتی‘ ڈاکٹر رابعہ جو اس عید پر بچوں کو ’ممی‘ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گی

محمد زبیر خان - صحافی


’ممی بلقیس ایدھی کی وفات کے بعد شادی شدہ اور ملازمت کرنے والی کئی بیٹیاں آتی ہیں اور مجھ سے پوچھتی ہیں کہ بھابھی کیا ہمارے میکے کا دروزہ اب بھی کھلا رہے گا کہ نہیں؟‘

ممتاز سماجی کارکن بلقیس بانو ایدھی کے بعد ان کی بہو صبا ایدھی کو ایدھی سینٹر میں خواتین اور بچوں کے مراکز کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بیٹے آتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ ’بھابھی کیا ہم اب بھی اپنے ماں باپ کے گھر آسکتے ہیں کہ نہیں؟‘ تو میں ان کو جواب دیتی ہوں کہ کوشش کروں گی کہ عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے ان کے گھر کے دروازے کبھی بھی بند نہ ہوں۔ یہ گھر ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کی امانت ہے۔‘

یوں تو بلقیس ایدھی کے پانچ بچے ہیں مگر ان کی حیثیت ان ہزاروں بچوں کی ماں جیسی تھی جنھیں ان کے اپنے کسی کوڑے کے ڈھیر یا ایدھی سینٹر کے جھولے میں چھوڑ گئے تھے۔ یہ بچے بچیاں اور حتیٰ کہ ایدھی سٹاف بھی بلقیس ایدھی کو ’ممی‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔

اس پر نہ تو کبھی بلقیس ایدھی کے بچوں نے شکایت کی اور نہ انھوں نے خود۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ ’جب یہ بچے مجھے ماں پکارتے ہیں تو دل بڑا ہو جاتا ہے‘ مگر اب یہ بچے اپنی ممی سے محروم ہو گئے ہیں۔

صبا ایدھی بتاتی ہیں کہ بلقیس ایدھی کے گزر جانے کے بعد اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے یہ ذمہ داری انھیں سونپی گئی ہے اور ان کے ساتھ ان کی بیٹی اور بلقیس ایدھی کی ’لاڈلی پوتی‘ رابعہ ایدھی معاونت کریں گی۔

ایدھی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر رابعہ فیصل ایدھی نے اپنی دادی کے کپڑے پہن کر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ان کے عظیم مشن کو جی جان سے جاری رکھا جائے گا۔ بلقیس ایدھی، ڈاکٹر رابعہ ایدھی کی صورت میں زندہ ہیں۔ مشعل جلتی رہے، روشنی بڑھتی رہے، قافلہ چلتا رہے۔‘

رابعہ ایدھی اس وقت میڈیکل کالج کے چوتھے سال کی طالبعلم ہیں۔ وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایدھی ہسپتال میں خدمات دیتی ہیں اور مراکز کو سنبھالنے میں ان کا ایک اہم کردار ہے۔

صبا کہتی ہیں بلقیس ایدھی نے اتنی ذمہ داریوں کے باوجود اپنے پوتوں اور پوتیوں کی کئی برسوں تک غیر محسوس انداز میں تربیت کی۔

’جب عید اور رمضان کا موقع آتا تو وہ نہ صرف خود اپنے پوتے پوتیوں کے لیے عید کی خریداری کرتیں بلکہ ان سب کو اپنے دیگر بچوں اور بچیوں کی خریداری وغیرہ میں بھی شامل کرتی تھیں۔‘

اب کی بار جب عید آئے گی تو کئی خاندانوں کی ممی بلقیس ایدھی ان سے ملنے اور عیدی دینے کے لیے خود موجود نہیں ہوں گی مگر صبا کی کوشش ہو گی کہ ’ان خاندانوں کو ان کی ممی کی کمی محسوس نہ ہو۔‘

https://www.facebook.com/edhi.org/posts/5147716871953543

بلقیس ایدھی کوشش کرتیں کہ عید پر ہر بچے کے چہرے پر مسکراہٹ ہو

رابعہ ایدھی یاد کرتی ہیں کہ ہر سال عید کے موقع پر دادی بلقیس ایدھی خود ان کے لیے کپڑے لاتی تھیں۔

’اس خریداری کے دوران وہ خیال کرتی تھیں کہ کپڑے بالکل سادہ ہوں۔ ویسے ہی کپڑے ہوں جیسے وہ اپنی دیگر بیٹیوں اور بیٹوں کے لیے لاتی تھیں، کچھ بھی فرق روا نہیں رکھتی تھیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس سال رمضان کے موقع پر وہ بیمار تھیں اور زیادہ وقت ہسپتال میں رہیں۔ ’مجھے انھوں نے ہسپتال ہی میں پیسے دیے اور کہا کہ میں خود ہی اپنے لیے بازار سے شاپنگ کر لوں۔ میں نے کہا کہ دادی آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں گی تو خود ہی ہر سال کی طرح خریداری کرنا مگر وہ نہ مانیں اور کہا کہ اب میں خود ہی خریداری کر لو۔‘

صبا ایدھی کہتی ہیں کہ ہر وقت ہی ان کے بیٹیوں اور بیٹوں میں سے کوئی نہ کوئی ان کے پاس رہنے کے لیے آتا ہی رہتا تھا جس میں ان کے خاندان کے لوگ بھی ہوتے تھے ’کچھ تو ایسی خواتین ہیں جو اب خود پوتے، پوتیوں، نواسے اور نواسیوں والی ہیں۔ مگر وہ پھر بھی اپنی والدہ کے گھر آتی تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان خواتین کے ماں باپ سب کچھ عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی ہی تھے۔ ممی ایسی ساری خواتین کو جاتے ہوئے بالکل میکے کی طرح ساز و سامان سے لاد کر بھجا کرتی تھیں۔ بالکل ویسے جیسے شادی شدہ بیٹی جب اپنی ماں باپ کے گھر جاتی ہے تو اس کی ماں اس کو سسرال جاتے وقت اس کے بچوں کے لیے بھی خریداری کر کے دیتی ہے۔‘

ایدھی سینٹر میں عید کے موقع پر مختلف مراکز میں موجود بچوں اور بچیوں کے لیے خصوصی تیاری کی جاتی تھی۔ اسی طرح رمضان کے دوران افطاری اور سحری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

رابعہ کہتی ہیں کہ ’ہماری عید اور سالگرہ ایدھی مراکز میں ہوتی تھی۔‘

’بچپن ہی میں ہمیں ہماری دادی نے ذہن نشین کروا دیا تھا کہ ہماری زندگیوں کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔ ہمارا بچپن دادا اور دادی کو خدمت کرتے دیکھنے میں گزرا۔ جب تھوڑا بڑے ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے والدین دادا اور دادی کی معاونت کرتے تھے۔‘

’میری اور میرے بہن بھائیوں کی ساری سالگرہ کی تقریبات ان ہی مراکز میں ہوتی تھیں اور اس کے لیے دادی خصوصی تیاری کرتی تھیں۔ ہماری عیدیں بھی ان ہی مراکز میں گزرتی تھیں۔‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’گزری عیدوں کے موقع پر ہم نے دیکھا کہ وہ مراکز میں موجود اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو خصوصی طور پر تیار کرواتی تھیں۔ ہر ایک بچے اور بچی پر توجہ دیتی تھیں۔ کوشش کرتی تھیں کہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکیں۔‘

’ہمیں کہا جاتا تھا کہ ہم ان بچوں میں تحائف اور عیدی تقسیم کریں جو ہم بڑے شوق سے کرتے تھے۔ ان ساری سرگرمیوں سے جب بچے اور بچیاں قہقے لگاتے تو وہ بھی خوش ہو جایا کرتی تھیں۔‘

اسی طرح وہ رمضان کی تیاری کئی دن پہلے شروع کر دیتی تھیں۔ ’افطاری اور سحری کے وقت خود ہر چیز کی نگرانی کرتیں۔ یہ ممکن بناتی تھیں کہ ہر کوئی اچھے سے افطاری اور سحری کرے۔‘

ہر بیٹی کی شادی دھوم دھام سے مگر رخصتی پر خفا

صبا ایدھی نے دیکھا کہ ان کے سامنے بلقیس ایدھی نے ایک، دو، تین نہیں بلکہ سینکڑوں بچوں اور بچیوں کی شادیاں کروائیں اور یہ شادیاں مکمل دھوم دھام سے ہوتی رہیں۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’جب کسی بچی کی شادی کی تاریخ طے ہو جاتی تو وہ اس کے بعد اس کی شادی کی تیاریوں میں مصروف رہتیں۔ دلہن کے علاوہ مراکز میں موجود بچوں اور بچیوں کے خصوصی کپڑے تیار کرواتیں۔ دلہن کے جہیز کا سارا سامان پورا کرتیں۔‘

’وہ کوشش کرتی تھیں کہ رخصت ہونے والی بچی کو کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ اس بچی کو اپنے ہاتھوں سے مہندی لگاتی تھیں۔ خود بھی بہت اچھے سے تیار ہوتیں اور بہت خوش ہوتی تھیں اور جاتے جاتے اس بچی کو ضرور کہتی کہ تمھاری ممی ہر وقت تمھیں یاد کرے گی۔‘

صبا ایدھی کہتی ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ان کی بیٹی رخصت ہو جاتی تو وہ اس کی رخصتی پر خفا بھی ہو جاتی تھیں اور اس کو یاد کر کے روتی تھیں۔ رخصتی کے بعد اس بات کو یقینی بناتیں کہ رسم و رواج کے بعد وہ کچھ دنوں رہنے کے لیے ان کے پاس آئے۔‘

’وہ صرف خدمت ہی نہیں کرتی تھیں بلکہ اپنے ملک پاکستان کی بہت بڑی محب وطن اور خیر خواہ بھی تھیں۔‘

انھیں آج بھی یاد ہے کہ جب ان کی شادی بلقیس ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی سے 14 اگست کے روز طے ہوئی تو ’صورتحال یہ تھی کہ پوری کراچی کے شادی ہال اور شادی لان 14 اگست کے لیے پہلے سے ہی بُک ہو چکے تھے۔ میرے والدین کو کوئی بھی ہال اور لان دستیاب نہیں ہو رہا تھا۔‘

’میری والدہ نے ممی کو کہا کہ چلیں کسی اور دن شادی کر لیتے ہیں جس پر ممی نے کہا کہ نہیں یہ شادی تو 14 اگست کو ہی ہو گئی۔ یہ میرے ملک کی آزادی کا دن اور میری بھی شادی کا دن ہے۔ جس پر بڑی مشکل سے شادی کے انتظامات کیے گئے تھے۔‘

صبا ایدھی کہتی ہیں کہ اس شادی پر وہ بہت خوش تھیں۔ انھوں نے یہ خوشی بھی اپنے کئی بچوں اور بچیوں کے ساتھ منائی تھی۔ اس موقع پر بھی وہ سادہ اور باوقار لباس زیب تن کیے ہوئی تھیں۔ ’مجھے یاد ہے کہ شادی کے موقع پر بھی انھوں نے اپنی مصروفیت اور خدمت کو نہیں بھلایا تھا۔‘

’میں نے ہمیشہ ممی کو خدمت اور صرف خدمت اور کام کرتے دیکھا ہے۔ وہ ہمیشہ ایدھی سینٹر کے زیر اہتمام چلنے والے مراکز کے حوالے فکر مند رہتی تھیں اور اس کے لیے کام کرتی تھیں۔‘

بلقیس ایدھی کے بھانجے رضوان ایدھی، جنھوں نے کئی سال تک بلقیس ایدھی کے ساتھ کام کیا، بتاتے ہیں کہ ’ممی کا معمول تھا کہ وہ صبح سویرے جاگ جاتی تھیں اور ٹھیک آٹھ بجے اپنے دفتر پہنچ جاتی تھیں‘

رضوان ایدھی کا کہنا تھا کہ ’حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں، ہم نے ان کے معمول میں تبدیلی نہیں دیکھی تھی۔ سٹاف تقریباً نو بجے تک پہنچتا تھا اور وہ اس سے پہلے اپنے دفتر میں ہوتی تھیں۔ جہاں پر وہ ایک ایک چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرتی تھیں۔‘

’وہ اپنے کام سے اتنی مخلص تھیں کہ ان کی نظروں سے کوئی چھوٹی بڑی چیز اوجھل نہیں رہتی تھی۔ یہاں تک کہ مراکز میں موجود بچوں اور بچیوں کی چھوٹی موٹی ضرورت سے متعلق بھی ان کو اچھے سے معلومات ہوتی تھیں اور وہ اس ضرورت کو بھی اپنے سامنے ہی پورا کروایا کرتی تھیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

ہزاروں لاوارث بچوں کی ’ممی‘ جن کے بغیر ایدھی کا مشن پورا ہونا ناممکن تھا

’شناخت پراجیکٹ‘: ’لاوارث‘ میتوں کو اُن کے اپنوں تک کیسے پہنچایا جا رہا ہے؟

قبر پرست قوم اور چندے کی بڑی پیٹی

’بچوں کی حوالگی اور محفوظ مستقبل کے لیے محتاط رہتیں‘

ایدھی سینٹر میں پلنے والے کئی بچے اور بچیوں کی زندگی بہتر ہوئی اور انھیں نئے گھر بھی دیکھنے کو نصیب ہوئے۔

رضوان بتاتے ہیں کہ بلقیس ایدھی کو ’نومولود بچے بہت پیارے ہوتے تھے۔ وہ ان کو فوراً اپنے سینے سے لگاتیں تھیں۔‘

صبا ایدھی کہتی ہیں کہ اکثر اوقات ایدھی جھولے پر بچے رکھ دیے جاتے تھے۔ ’وہ سب سے پہلے بچوں کو اپنے سینے سے لگاتیں، ان کو نہلاتی دھلاتی اور ان کا طبی معائنہ کروا کر ایک ہفتے تک اپنے سینٹر میں اپنی نگرانی میں رکھواتیں کہ اگر کوئی واپس لینے کے لیے آجائے تو اس کو واپس کردیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد مذکورہ بچے کے اچھے مستقبل کے لیے جہت کرتی تھیں۔ ’جن لوگوں نے بچوں کو اپنانے کے لیے درخواستیں دی ہوتی تھیں، ان کا جائزہ کرتیں۔ اس میں سے جو درخواستیں ان کو بہتر لگتیں ان کو الگ کیا جاتا پھر ان درخواستوں کی چھان بین کا مرحلہ شروع ہوجاتا تھا۔‘

صبا ایدھی کہتی ہیں کہ بچے کو کسی کے بھی حوالے کرتے ہوئے وہ بہت فکر مند ہوتی تھیں۔ ’جو کچھ انسانی بس میں ہوتا وہ تسلی کرتی تھیں۔ اس بات کو ممکن بنانے کی کوشش کرتی تھیں کہ بچے کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہو۔‘

’رابعہ بالکل ممی کی طرح ہے، ممی کا عکس لگتی ہے‘

عبدالستار ایدھی کے بعد ایدھی کے فلاحی کاموں کی نگرانی کرنے والے ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ کئی برسوں سے ایدھی کے مختلف بچوں اور بچیوں کے مراکز کے علاوہ کئی چیزوں کی نگرانی براہ راست ممی بلقیس ایدھی کرتی تھیں۔

’بہت بڑا خلا پیدا ہوا تھا مگر ہم نے دیکھا کہ ممی نے اس دُکھ کو بھلانے کے لیے اپنی توجہ مزید خدمت کی طرف کردی تھی۔‘

’ممی کی بیماری اور پھر وفات کے بعد ان مراکز کو اسی طرح چلانا اور سنبھالنا کوئی اتنا آسان نہیں مگر ایک بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میری اہلیہ صبا اور بیٹی رابعہ جو پہلے بھی ممی کی معاونت کرتی تھیں، اب مل کر اس نظام کو چلا سکتی ہیں۔‘

فیصل ایدھی کو لگتا ہے کہ ’رابعہ بالکل ممی کی طرح ہیں۔ ہمیں تو وہ ممی ہی کا عکس لگتی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ خدمت کا وہ سفر جو عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے شروع کیا تھا وہ اس کو نہ صرف جاری رکھے گیں بلکہ اس میں مزید بہتری بھی لائے گیں۔‘

رابعہ کہتی ہیں کہ ’میں اور ہمارے بہن بھائیوں نے بچپن سے اب تک صرف سادہ کپڑے پہنے اور سادہ خوراک استعمال کی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے دادا اور دادی کرتے تھے۔

’اب تو ہماری پسند بھی سادہ کپڑے اور خوراک ہیں جبکہ ہمیں خوشی تفریح کر کے نہیں بلکہ ایدھی مراکز میں ملتی ہیں۔‘

انھیں دادی کی وفات کے بعد یہ کام ایک بڑا چیلنج محسوس ہوتا ہے۔

’ہم کوشش کریں گے کہ ان کے مشن کو اچھے سے چلاسکیں اور عید کے موقع پر جب دادی کی بیٹیاں اپنے میکے اور بیٹے گھر آئیں تو ان کو مایوس نہ کریں۔ بس قوم کا ساتھ چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments