روداد سفر حصہ 17


شادی چائنا میں صرف ایک نکاح پڑھانا نہیں بلکہ اس کی باقاعدہ متعلقہ علاقے میں جا کر رجسٹریشن کروانی پڑتی ہے۔ ویسے یہ اب ہمارے ہاں بھی ایسے ہی ہے کہ باقاعدہ نادرا جا کر رجسٹریشن کروانی پڑتی ہے۔ میں اور میری بیوی ماریا نے جہاز کا ٹکٹ لیا اور لانزو ( Lanzhou ) ائرپورٹ پر اتر گئے۔ جہاز کے سفر میں ماریا کہ طبیعت بہت خراب رہی اور اس کا غصہ مجھ پر نکالا کہ تمہیں کس نے کہا تھا کہ ہم جہاز پر سفر کریں حالانکہ یہ جہاز کے ٹکٹ بھی اسی کے کہنے پر میں نے خریدے تھے۔

بہرحال غصہ کسی پر تو اتارنا تھا مجھ پر اتار دیا میں نے بھی کہہ دیا کہ واپسی پر تمہارے گاؤں سے دو گدھے کرائے پر لیں گے اور ان پر ایوو ( yiwu ) شہر چلے جائیں گے۔ ہم آہستہ آہستہ کبھی نہ کبھی ایوو ( yiwu ) پہنچ بھی جائیں گے اور تمہارے گاؤں کے گدھے ایوو ( yiwu ) شہر بھی دیکھ لیں گے۔ دونوں کا فائدہ ہو جائے گا اور تمہاری طبیعت بھی خراب نہیں ہوگی۔ ائرپورٹ پر اتر کر پہلے بس سے شہر آئے کیونکہ چائنا نے تقریبا سارے شہروں کے ائرپورٹ شہر سے باہر منتقل کر دیے کہ شہر پر آبادی کا دباؤ بھی کم ہو جائے اور نئے علاقے بھی آباد ہو جائیں۔

راستے میں ایک جگہ ایک کچی آبادی میں سڑک کے کنارے ایک بہت ہی سجی سجائی مسجد بھی نظر آئی۔ یعنی یہاں مسلمان کافی عرصہ سے آباد ہیں۔ شہر پہنچ کر ایک مسلم ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور بس سے ان کے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ کوئی ساڑھے تین گھنٹے کا سفر تھا اور راستے میں جگہ جگہ سڑک کے کنارے جہاں آبادی آتی کوئی نہ کوئی عورت سے پر سفید، گلابی یا نیلے رنگ کی کپڑے کی ٹوپی پہنی ہوتی نظر آتی جس میں اس کے بال ڈھکے ہوتے۔ اس صوبے میں مسلمان ہر جگہ آباد ہیں۔

گاؤں پہنچ کر دو دن آرام کیا اور لوکل تھانے فیملی بک لے کر گئے اور میری بیوی کے نام کے آگے متعلقہ اہل کار نے ان کے نادرا سے چیک کر کے مہر لگائی کہ یہ غیر شادی شدہ ہیں۔ پھر اسے لے کر ہم صوبائی ہیڈ کوارٹر لانزو ( Lanzhou ) شادی رجسٹریشن آفس گئے جہاں ہم دونوں کی اکٹھی تصاویر بنائی گئیں اور شادی کرنے کی رضامندی لی گئی اور دونوں کو شادی کارڈ بنا کر دے دیا گیا۔ شادی کے ارادے کی کامیابی کے لیے دعا ہم نے خود کر لی اور یہ باقاعدہ نکاح ہو گیا گواہ گورنمنٹ آف چائنا کا ادارہ بن گیا۔

یہی کچھ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت دونوں کی رضامندی لوگوں کے سامنے اور رجسٹرار اسے معاہدے کی شکل دیتے ہیں اور نادرا اس شادی کے معاہدے کو اپنے ریکارڈ میں رجسٹر کر لیتا ہے۔ شادی کا یہ ادارہ ساری دنیا میں ایسے ہی ہے صرف ایک دعا کا فرق ہے جو ہم مسلمان اس ادارے کی کامیابی کے لیے کرتے ہیں اور خاندان کے بڑے بوڑھے ادارے کے دونوں افراد کو ادارہ احسن طریقے پر چلنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ گھر واپس آ کر ہم میرے بیوی نے رشتے داروں کو بلایا اور کھانا کھلایا یہ اس شادی کے ارادے کے قیام کا اعلان تھا جو عزیر و اقارب میں کر دیا گیا۔ کوئی پندرہ دن بعد ہم دونوں نے ٹرین پر سفر کا فیصلہ کیا اور بتیس گھنٹے میں واپس ایوو پہنچ گئے۔

شادی کے ایک سال بعد اللہ نے ہم پر کرم کیا اور ایک پیاری سی بیٹی سے نوازا۔ ابھی ہم ایوو ( yiwu ) کے زچہ بچہ ہسپتال میں ہی تھے کہ میرے کچھ دوست اور میری بیگم کی سہیلیاں ایک ایک کر کے ہمیں مبارک باد دینے آنا شروع ہو گئے۔ سب سے پہلے جس کی آمد ہوئی وہ میمونہ ہی تھی اور اپنے ساتھ میری بیگم کے لیے چائنیز مشروم سوپ بھی لے کر آئی اور کافی دیر تک بیٹھی رہی۔ میری بیگم اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ میمونہ نے بچی کو گود میں اٹھا کر غور سے دیکھا اور فتویٰ صادر فرمایا کہ چائنیز کم اور پاکستانی زیادہ لگتی ہے۔

اس کے بعد جاشنگ ( Jia Xing ) کی خدیجہ آئی، اس کے ہنسنے کا انداز بالکل مردوں جیسا تھا۔ اس نے بھی بچی کو گود میں اٹھایا اور یہی فتویٰ صادر کیا کہ چائنیز کم اور پاکستانی زیادہ لگتی ہے اور ساتھ نام بھی رکھ دیا ”حنا“ ۔ وہ اس لیے کہ یہ دو حرف ہیں اور چائنیز زبان میں بھی بولنے میں یہی آواز دیتے ہیں۔ اس لیے میری بیوی کو بھی یہ نام پسند آیا۔ پھر دونوں اس نام کے لیے چائنیز کے تلفظ ڈھونڈتی رہیں کہ ”حائے“ کون سا ہو گا اور ”نا“ کون سا۔

ایک دن بعد عید قربان تھی۔ میں نے قریبی مسجد میں عید کی نماز پڑھی اور دو دنبے ذبح کیے۔ ایک گھر کی اور ایک بچی کی قربانی کی۔ واپس ہسپتال آیا تو بیگم کے استفسار پر قربانی کی پوری تفصیل بتانی پڑی۔ اپنی قربانی کا دنبہ کیسا تھا اور بیٹی کے لیے کیسا اور گوشت کس کس کو دیا، یہ وضاحت بھی کرنی پڑی کہ بیٹی کی پیدائش کی خوشی میں خدا کی شکر گزاری کے لیے دنبہ قربان کیا جاتا ہے۔ ہسپتال میں موجود دیگر چائنیز بھی یہ مکس بلڈ بچی دیکھنے آتے رہے۔

اور سارے تعریف ہی کرتے کہ بہت خوبصورت بچی ہے۔ کچھ دیر برداشت کرنے کے بعد میری بیوی نے مجھے سے کہا کہ تم کچھ آیات پڑھ کر بچی پر پھونک دو کہ اتنے لوگ دیکھ رہے ہیں اور تعریف کر رہے ہیں کہیں اسے نظر ہی نہ لگ جائے اور بیمار نہ ہو جائے۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا ہماری بیٹی خدا کی نشانی ہے کہ وہ بہترین تخلیق کرنے والا ہے ( احسن الخالقین ) اور وہ بہترین مصور ہے۔ مجھے نہیں معلوم یہ نظر لگنی والی بات اس کے پرانے عقائد میں کہیں موجود تھی یا کسی مسلم سہیلی سے اس نے سنی تھی، میں نے بھی زیادہ جرح نہیں کی۔

میمونہ تیسرے دن پھر ہسپتال آئی لیکن اس بار وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور لڑکیاں بھی تھیں۔ جن میں ایک ہیلونگ جانگ (Helongjaing) کی (Ying Ying) نو مسلم تھی، جو شاید ان باقی لڑکیوں کے ساتھ اسی آفس میں کام کرتی تھی جن میں شاید کوئی میری بیوی کے جاننے والی تھی۔ اس (ying ying) کا انداز عورتوں سے کچھ مختلف تھا، مردوں کے ساتھ مرد اور عورتوں کے ساتھ عورت جیسا۔ پہلی بار ہم سے ملنے کی وجہ سے وہ بہت ہچکچا رہی تھی۔

بعد ازاں وہ اکثر ہمارے گھر آتی رہتی اور ہم سے بہت گھل مل گئی جیسے ہمارے ہی گھر کا ایک فرد ہو۔ اگر وہ دو تین دن نہ آتی تو میری بیگم اسے فون کر کے کھانے پر بلا لیتی۔ ہماری بچی بھی اس سے بہت مانوس ہو گئی۔ سات دن بعد ہم ہسپتال سے گھر آ گئے، گھر آ کر ہم نے کچھ دنوں کے کام کے لیے ایک ایغور مسلمان خاتون رکھ لی۔ وہ دن کو میری بیگم کے پاس رہتی، کھانا وغیرہ پکاتی اور شام کو جب میں واپس آتا تو وہ چلی جاتی تھی۔

دو ماہ بعد ہم لوگ کانسو ( Gansu ) صوبے کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں بیگم کا گاؤں تھا اور ہم نے بچی کی رجسٹریشن کروانی تھی، بس میں چوبیس گھنٹے کے سفر کے بعد ہم موٹر وے پر اترے، ٹیکسی پکڑی اور دس منٹ میں (Pingliang) شہر بس سٹاپ پہنچ گئے۔ یہاں سے ہم ایک اور بس پر سوار ہوئے اور اڑھائی گھنٹے میں (Jing Ning) قصبے میں پہنچ گئے۔ وہاں سے پھر بس پکڑی اور ایک گھنٹے میں سسرالی گاؤں پہنچ گئے۔ میری ساس اور سسر سڑک پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔

رات ہو گئی تھی اس لیے سیدھا گھر گئے۔ گھر مٹی کا بنا تھا جس کے ایک حصے میں بھیڑیں بندھی ہوئی تھیں۔ کچا صحن تھا جس کے ایک طرف دو کمرے، ایک کچن اور سامنے ایک بڑا کمرہ تھا۔ کمرے میں اینٹوں کا بیڈ بنا ہوا تھا جس کے نیچے ایک سوراخ تھا جس میں آگ جلائی جاتی تھی، تاکہ سردی سے بچا جا سکے، کیونکہ اس علاقے میں بہت شدید سردی پڑتی ہے اور شدید برفباری ہوتی ہے۔ کمرے میں بالکل سامنے ایک چھوٹی سی سیمنٹ کی شلف بنی ہوئی تھی دونوں کونے پر اگربتی جلنے اور رکھنے کے لیے برتن اور سامنے دیوار پر ایک طرف بدھا کی تصاویر اور دوسری طرف چیرمین ماؤ کی تصویر۔ یہ اگربتی شاید انٹرنیشل ٹریڈ مارک ہے تصوف کی چاہے وہ مسلمانوں میں ہو یا بدھسٹ میں۔

صبح اٹھ کر گرم پانی سے منہ ہاتھ دھویا اور آلو اور بند گوبھی سے بنے نوڈلز سے ناشتہ کیا اور قہوہ پیا۔ گھر کو مزید کھوجنے سے پتہ چلا کہ گھر کی پچھلی طرف ایک کوٹھڑی میں سور بھی موجود ہے جسے نیو ائر پر بیچ دیا جاتا ہے۔ گھر میں بچا کھانا، خراب ہوئی سبزی سب اس کو ڈال دی جاتی ہے۔

اس کے بعد میں اپنے سسر کے ساتھ گاؤں دیکھنے نکلا۔ یہ مٹی کی پہاڑیوں کا علاقہ تھا اور پہاڑیوں کو تھوڑا تھوڑا کاٹ کر کاشت کے لیے زمین ہموار کی گئی تھی۔ اس علاقے کے لوگ بہت محنتی ہیں۔ سیب اس علاقے کا بہت مشہور، بہت ذائقے والا اور خوبصورت پھل ہے۔ ایک ایک سیب پر کاغذ کا لفافہ چڑھایا جاتا ہے، تاکہ پرندے سیب کو خراب نہ کر سکیں۔ یہ لفافہ سیب پکنے کے بعد اتار دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مکئی کی کاشت بھی کی جاتی تھی، یہاں کی مکئی کا بھٹہ دانوں سے بھرا ہوا اور بہت مزیدار ہوتا ہے۔

اسے خشک حالت میں اکھاڑا جاتا ہے اور دانے الگ کر کے مزید دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے اور تیل نکالنے کے لیے بیچا جاتا ہے۔ میں سسر کے ساتھ ان کی زمین پر بھی گیا اور سیب اور مکئی کے بھٹے کھانے کے لیے ساتھ لایا۔ سسر نے بتایا کہ کلچرل ریوولوشن (۔ cultural Revolution ) کے دوران کچھ مسیحی ان کے پاس دو تین دونوں کے لیے پناہ گزین ہوئے وہ بھی عبادت کرتے تھے اور پھر وہ کسی طرف روانہ ہو گئے۔ ( cultural Revolution ) کلچرل ریوولوشن کے دوران سب مذہبی عبادت گاہوں اور مذہب کے ماننے والوں پر زمین تنگ کر دی گئی تھی۔

اس کے بعد میں بیگم کے ساتھ ان کے عزیزوں کے گھر گیا اور ایک ایک سے تعارف حاصل کیا۔ ایک حیرت کی بات یہ تھی کہ گاؤں میں یا تو سارے بوڑھے تھے یا سارے ہی بچے۔ جوان نظر نہیں آئے نہ مرد نہ عورتیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کچھ پڑھائی کے لیے شہروں کے مختلف تعلیمی اداروں میں ہیں اور جو جوان تعلیم حاصل نہیں کر رہے وہ مزدوری کرنے کے لیے بڑے شہروں میں ہیں۔ گاؤں میں وہی موجود ہیں جو باہر مزدوری نہیں کر سکتے۔ گھروں میں رہنے والے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور زمین کاشت کرتے ہیں۔

حکومت کی طرف سے بھیڑوں کو باہر چرانے پر پابندی تھی کہ یہ قیمتی جڑی بوٹیاں کھا جاتے ہیں اور چھوٹے پودوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہم جس جس رشتہ دار کے گھر گئے، ان کے لیے کچھ نہ کچھ تحائف ہم لے کر گئے تھے جیسے سبز چائے اور سگریٹ وغیرہ۔ انہوں نے سبز چائے، سورج مکھی کے بیج اور سیب وغیرہ سے ہماری تواضع کی۔ یہ سب مجھے ایسے ہی دیکھ رہے تھے جیسے میں کوئی خلائی مخلوق ہوں۔ ان کی اپنی ایک مقامی زبان تھی جو چائنیز سے بہت کچھ مختلف تھی۔

اگلے دن بس میں ہم ایک اور چھوٹے قصبے میں گئے جہاں ہم نے بچی کی رجسٹریشن تھانے میں کروانی تھی۔ ان کا تھانہ، ان کے نادرا کے ڈیٹا سے منسلک تھا۔ اس قصبے میں مجھے مسلمانوں کا ایک ریستوران نظر آیا۔ ان سے ہم نے نوڈلز کھائے اور معلوم کیا تو پتہ چلا قریب ہی ایک گاؤں ہے جہاں مسلمان رہتے ہیں۔ کچھ ضرورت کی کھانے پینے کی چیزیں خریدیں اور واپس آ گئے۔

دو دن بعد دوبارہ ہم ( Jing Ning ) قصبے کی طرف گئے۔ یہاں میرا سالا کسی کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ کام کرتا تھا۔ معلوم ہوا وہاں ایک پانچ سو سالہ پرانی مسجد بھی ہے۔ اس مسجد کا پتہ پوچھا اور اس سمت چل پڑے۔ ایک گلی کے پاس پہنچے تو کچھ مسلمان نان بیچتے نظر آئے ان سے پوچھا، انہوں نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا جس کے آخر میں مسجد تھی۔ ہم مسجد کا گیٹ کھول کر اندر گئے تو سامنے ایک لان تھا۔ ایک طرف دو کمرے اور غسل خانے، جبکہ دوسری طرف وضو کے لیے نلکے لگے ہوئے تھے اور بالکل سامنے لکڑی کی بنی مسجد تھی اور احاطے کے درمیان میں سیڑھیوں والا مینار کسی دور میں اذان اس مینار کے اوپر جا کر دی جاتی تھی، مسجد کا فرش بھی لکڑی کا تھا۔

امام مسجد سے تعارف ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ پہلے یہ مسجد بہت بڑی تھی بعد میں بہت سی زمین پر گورنمنٹ نے فلیٹ بنا دیے۔ نماز کا وقت تھا، امام صاحب نے مجھے اذان دینے کا کہا پھر چار پانچ بوڑھے بوڑھے نماز کے لیے آ گئے۔ نماز ادا کر کے ہم واپس گھر کی طرف چل پڑے۔ بعد میں جب بھی میں یہاں آتا تو یہی مسجد میرا ٹھکانہ ہوتی اور اگر اکیلا ہوتا تو رات بھی یہیں مسجد میں ہی ٹھہر جاتا۔ امام صاحب کا اپنا ایک حلیہ تھا جو چائنا میں تقریبا مجھے تمام امام مسجد کا نظر آیا، لمبا گاؤن نما کورٹ جو وہ لازماً امامت کرنے سے پہلے پہنتے اور نماز کے بعد اتار کر لٹکا دیتے۔ یعنی یہ امامت کا لازمی حصہ تھا۔ میں نے ان سے اس کی وجہ بھی پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ تمام سنٹرل ایشیا میں ایسے ہی ہے۔ ان کا ایک بیٹا بھی تھا جس کو وہ دینی تعلیم کے لیے پاکستان بھیجنا چاہتے تھے۔ لیکن ابھی وہ ہائی سکول میں زیر تعلیم تھا۔

دو دن بعد میں صبح سویرے میں دوبارہ یہاں آیا اور سیدھا مسجد چلا گیا۔ امام مسجد مجھے ساتھ لے کر پہاڑی پر موجود ایک قبرستان لے گئے اور ایک قبر کے سامنے کھڑے ہو کر انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ایک کیری ڈبے پر کچھ لوگ آئے ان سے علیک سلیک ہوئی۔ سب لوگ ایک قبر کے پاس بیٹھ گئے، یہ ان کے والد کی قبر تھی۔ قبر کے دونوں کونوں پر اگربتیاں جلا کر رکھی گئیں پھر امام مسجد نے قرآن کی تلاوت کی اور دعا کی۔ اس کے بعد ہم ان کے گھر آ گئے انہوں نے کھانے کا بندوبست کیا ہوا تھا، انہوں نے مجھے اور امام مسجد کو پچاس پچاس روپے دیے۔ کھانے کے دوران دو جوان لڑکیاں بھی سامنے آئیں جنہوں نے ہمیں دیکھ کر سر پر ٹوپیاں پہن لیں۔ یہ کسی شہر کے کالج میں پڑھتی اور وہیں رہتی تھیں۔

”یہ اگربتی اور اس کے بعد کھانا“ ، یہاں بھی موجود تھا۔ ویسے ایک بات مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ قبر پر جا کر قرآن مجید کی تلاوت کا کیا مقصد ہوتا ہے، قرآن تو زندہ لوگوں کے لیے خدا کا پیغام ہے اور ہم اسے مردوں کو نہ جانے کیوں سنا رہے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے زندہ انسانوں کو اسے سمجھنے میں دلچسپی نہ رہی ہو۔

اس کے بعد امام صاحب مجھے ساتھ لے کر ایک گوشت کی دکان پر گئے وہاں کچھ لوگ امام صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔ امام صاحب نے ان کی دو بھیڑیں ذبح کیں اور انہوں نے دس روپے امام کو دیے۔ یہاں یہ سب کام امام مسجد ہی سے کروائے جاتے تھے۔

شکر ہے، اس دن میری بیگم میرے ساتھ نہیں تھی ورنہ میں اس بات کی وضاحت کیسے کرتا کہ بدھ مت کے ماننے والے جو اگربتی قبروں پر جلاتے ہیں، اس میں اور ہماری جلائی ہوئی اگربتی میں کیا فرق ہے۔ وہ مردوں کے لیے چاپ قبروں پر کھڑے کرتے اور کھانا کھلاتے اس میں اور ہمارے قبروں پر پڑھے گئے قرآن میں کیا فرق ہے۔

یہ سارے لوگ پرانے دیوبندی یعنی حیاتی تھے اور یہ آہستہ آہستہ بڑے شہروں میں بکھر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر گم ہو جائیں گے کیونکہ ان کے اسلام کی بنیاد دلائل کی بجائے بس خاندانی ہی تھی۔ یہاں تو یہ لوگ گاؤں میں اکٹھے رہتے ہیں، جبکہ شہروں میں جا کر یہ دوسری آبادیوں میں غیر مسلموں کے ساتھ بکھر جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments