شیر خدا حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ: سیرت اور شہادت


شاہنشاہِ وِلایت، پروردۂ فیض ِ نبّوت، امیر المومنین خلیفہ چہارم، سیدنا ابوالحسن علی ابنِ طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم عبد منافؓ تاریخِ اسلام کی وہ ہستی ہیں جن کے علّو مرتبت، رِفعت و عظمت اور عقیدت و محبت میں ہر اہلِ ایمان رطب اللسان ہے۔ حنین، علمدار لشکر اسلام، داماد رسول اسلام، مہاجرین و انصار کے امام اباالحسنین حضرت علی کرم اللہ وجہ 13 رجب المرجب کو پیدا ہوئے۔ آپ کا نام علی،لقب حیدر و مرتضیٰ، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے، آپؓ کا نسب حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے بہت قریب ہے،آپ رضی اللّٰہ کے والد ابو طالب اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے والد ماجد حضرت عبد اللہ دونوں بھائی بھائی ہیں،آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ماں باپ دونوں طرف سے آپ ہاشمی ہیں۔ سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ’ میں ہاشمی سرداروں کی تمام خصوصیات موجود اور چہرے سے عیاں تھیں۔ عبادت و ریاضت کے آثار بھی چہرے پر موجود تھے،چہرے پر مسکراہٹ اور پیشانی پر سجدے کے نشان، معمولی لباس زیب بدن فرماتے، آپ کا عبا اور عمامہ بھی سادہ تھے، گفتگو علم و حکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتی، بچپن سے نہ صرف حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ رہے، بلکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ہی کی آغوشِ محبت میں پرورش پائی،آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ان کے ساتھ بالکل فرزند کی طرح معاملہ کیا اور اپنی دامادی کا شرف بھی عطا فرمایا، حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتونِ جنت سیدہ حضرت فاطمۃ الزہراءؓکے ساتھ آپ کا نکاح ہوا اور ان سے آپ کی اولاد ہوئی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جو لوگ اعلیٰ درجے کے فصیح و بلیغ اور اعلیٰ درجے کے خطیب اور شجاعت و بہادری میں سب سے فائق مانے جاتے تھے ان میں آپ کا مقام و مرتبہ بہت نمایاں تھا،خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ میدانِ جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہدِ شب بیدار تھے،مفتی و قاضی اور علم و عرفان کے سمندر تھے، عزم و حوصلہ میں ضرب المثل،خطابت و ذہانت میں بے مثل،حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے چچا زاد بھائی اور داماد،فضیلتیں بے شمار، سخی و فیاض، دوسروں کا دکھ بانٹنے والے، عابد و پرہیز گار، مجاہد و جاںباز ایسے تھے کہ نہ دنیا کو ترک کیا ،نہ آخرت سے کنارہ کشی فرمائی، ان سب کے باوجود نہایت سادہ زندگی گزارتے ، نمک، کھجور، دودھ ،گوشت سے رغبت تھی، غلاموں کو آزاد کرتے،دور خلافت میں بازاروں کا چکر لگا کر قیمتوں کی نگرانی فرماتے، گداگری سے لوگوں کو روکتے تھے، جب نماز کا وقت آتا تو آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا اور چہرے پر زردی چھا جاتی، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا :”اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے۔”
سیدنا علی کرّم اللہ وجہہ کے فضائل و مناقب قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ قرآنی احکام کے مطابق کسی بندے کے لئے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوسکتا کہ اُسے رضائے الہٰی کی سند مل جائے۔ طبرانی میں ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی سے فرمایا اے علی! اللہ اس کا رسول اور جبریل تم سے راضی ہیں تمہیں ان سب کی رضا حاصل ہے۔ امام بخاری نے نقل کیا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی سے فرمایا کہ بے شک اللہ اور اس کا رسول علی کو محبوب رکھتے ہیں اور علی، اللہ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا اے علی تم سے محبت رکھنے والا مومن ہوگا اور تم سے بُغض رکھنے والا منافق ہوگا۔
( مسلم شریف )اور صحیح حدیث میں ہے کہ سرکارِ دوعالَم نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور علی ہر مومن کے ولی ہیں۔ ( ترمذی شریف ) نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم فرما رہے ہیں کہ علی مجھ سے ہیں یعنی میرے اہل اور پیاروں سے ہیں اور میں علی سے ہوں یعنی علم و حکمت اور شجاعت و ہمت کے لحاظ سے علی سے ظاہر ہوں گویا علی میں میرے کمالات کا فیض ہے اور پھر فرمایا علی ہر مومن کا ولی ہے اور پہلے ارشاد میں فرمایا کہ مومن علی سے محبت اور منافق بُغض رکھے گا۔
ان ارشادات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت وہ ہے جو ایمان کی کسوٹی ہے۔ مومن کی پہچان ہی علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی محبت ہے اور منافق کی پہچان علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا بُغض ہے۔
حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میرے معاملے میں دو قسم کے لوگ ہلاکت کا شکار ہوں گے۔ ایک وہ طبقہ لوگوں کا ہلاک ہوگا جو محبت میں مجھے حد سے بڑھانے والا ہوگا اور وہ محبت انہیں غیرِحق کی طرف لے جائے گی اور دوسرا طبقہ وہ جو کہ بُغض میں مجھے مرتبے سے گھٹانے والا ہوگا اور یہ بُغض انہیں غیرِ حق کی طرف لے جائے گا اور میرے معاملے میں سب سے بہتر حال درمیانی جماعت کا ہے، پس اُسی کو لازم کرلو اور اُس درمیانی بڑی جماعت کے ساتھ وابستہ رہو کیوں کہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے۔ آگاہ ہوجاؤ ! اِس جماعت سے علیحدہ ہونے والا اسی طرح شیطان کا شکار ہوجائے گا جس طرح وہ بکری بھیڑئیے کا شکار ہوجاتی ہے جو گلے اور ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے” ( نہج البلاغۃ ) اگر اس فرمانِ علی کو دیکھا جائے تو یہ شریعت و سنّت کے عین مطابق ہے کیوں کہ قرآن و حدیث بھی ہر مسلمان کو افراط و تفریط سے پاک درمیانے درجے پر استقامت کی تعلیم دیتے ہیں، اعتدال اور میانہ رَوی ہی خدا و رسول کو پسند ہے۔ فرمانِ رسولِ خدا کے مطابق حضرت علی کی محبت علامت ِ ایمان ہے اور یہ محبت خدا و رسول کی محبت کے سبب سے ہے اس لئے حد سے افراط بھی غلط ہے اور بغضِ علی علامت ِ نفاق ہے اور کسی مسلمان کے لئے کینہ رکھنے والا بخششِ خدا وندی سے محروم رہتا ہے تو بِرادر و دامادِ رسول اور امام المتقین سیّدنا علی کا بُغض رکھنے والا کس طرح رحمت و مغفرت ِ الہٰی حاصل کرسکے گا ۔
علم و حکمت، تقوٰی و زہد، شجاعت و جرأت، فضل و کمال ہر طرح سیرتِ مرتضٰی تابندہ و درخشندہ ہے۔ تقوٰی کا یہ عالم ہے کہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شرابی کسی نہر میں نہائے اس نہر کا پانی کسی کھیت کو لگے اس کھیت میں سبزہ ہوجائے اور وہ سبزہ کوئی گائے کھالے تو میں اس گائے کا دودھ بھی نہیں پیوں گا۔ علم و حکمت کا یہ احوال ہے کہ فرماتے ہیں جو شخص مجھ سے کوئی بھی سوال کرے میں اُس کا جواب قرآن سے دوں گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سیرت کا یہ انتہائی اہم پہلو ہے کہ آپ محنت و مزدوری کا کام جسے آج کل معمولی اور حقیر سمجھا جاتا ہے، اپنے ہاتھوں سے انجام دیا کرتے تھے۔ آپ یہودی کے باغ میں مزدوری کرتے تھے۔ آپ نے مدینہ کے اردگرد کجھور کے کئی باغ لگائے ان کو خود پانی دیتے تھے، ان کی خود دیکھ بھال کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد ایک انتہائی نازک گھڑی اور آزمائش اس امت کے لیے تھی اور بہت سارے خدشات پیدا ہورہے تھے کہ اﷲتعالیٰ نے دستگیری فرمائی اور امت پہلے خلیفہ کے طور پر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر جمع ہوگئی۔ دیگر تمام اصحاب کی طرح حضرت سیدنا علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بھی آپ سے بیعت کی اور آپ کی خلافت کی تکمیل تک آپ کے تابع فرمان رہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بعد جو منصب حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تک پہنچا۔ یہاں بھی سیدنا حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف بیعت فرمائی بلکہ ان کے بھی تابع فرمان رہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد متفقہ طور پر یہ منصب سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تک پہنچا اور حضرت سیدنا علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بھی نہ صرف بیعت کی بلکہ اُن کے تابع فرمان بھی رہے اور ان تینوں خلفائے راشدین کے مشیر بھی رہے، سیدنا عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ﷲتعالیٰ نے یہ سعادت شیر خدا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے سپرد فرمائی، آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ عدل و انصاف کا زمانہ تھا منافقین دن رات محنت کر کے مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے ان منافقین کی ڈوریں کفار کے ہاتھ میں ہوتی تھیں کیوں کہ مسلمانوں کی فتوحات نے قیصر و کسریٰ کے محلات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا پھر ایک ہی دن خوارج کی طرف سے تین قاتلوں کو تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قتل کے لیے روانہ کیا گیا، جس میں سیدنا حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمرو بن عاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، اور کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ،   جس میں حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر چھپ کر مسجد میں نماز کے وقت کیا گیا۔ سیدنا علی کرم ﷲ وجہہ جمعہ کے روز سحر کے وقت شہید ہوئے۔ رمضان کے 17روزے ہو چکے تھے، تریسٹھ سال کی عمر میں آپ نے سفر آخرت اختیار فرمایا۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق آپ کی شہادت کی تاریح 21 رمضان بتلائی جاتی ہے جوکہ مشہور و معروف ہو چکی ہے۔ آپ کی خلافت کی مدت چارسال نو ماہ ہے۔ نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ نے پڑھائی اور کوفے کے دارالامارہ میں تدفین ہوئی۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں سیدنا علی المرتضیٰ سے محبت اور ان کی طرح اتباع سنت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments