خط اور عمران خان کا بیانیہ


خط کے معاملے میں عمران خان کا اپنا بیانیہ اب فیل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ گویا عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم بہت مضبوط ہے۔ وہ ہر سوال کے جواب میں امپورٹڈ حکومت نا منظور، امریکی سازش نامنظور کے نعرے لگا کر گالی گلوچ پر اتر آتی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا سے ہٹ کر اب سنجیدہ طبقات یہ سوالات کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کہ عمران خان نے ساڑھے تین سالوں میں ایسے کون سے کارہائے نمایاں سرانجام دیے تھے کہ امریکی حکومت کو ان کے خلاف سازش رچانی پڑ گئی۔

انٹرنیشنل سطح پر عمران خان نے امریکہ کے مفادات کو ایسا کون سا نقصان پہنچایا جس کی بنیاد پر عمران خان کو ہٹانا ضروری ہو گیا۔ میرے نزدیک عمران خان نے روایتی سیاستدانوں والا بیانیہ اپنایا ہے۔ کارکردگی صفر۔ امریکہ اور مذہبی چورن بیچنے کے بعد نئے پاکستان کو آزاد پاکستان کا تڑکا لگا رہے ہیں۔ سی پیک خان صاحب نے لپیٹ دیا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ خان صاحب نے لیا۔ اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے خان صاحب نے کیا۔

آدھی ٹیم امریکن امپورٹڈ تھی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیوی کے ساتھ عمران خان کی تصاویر تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم زوروشور سے شائع کرتی رہی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں ادارے مضبوط ہیں۔ اشخاص کی آنے جانے سے پالیسی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ خط کے معاملے میں عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم سے لے کر سابق وزراء تک کسی کے پاس بھی کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ کہ آخر سات مارچ کا لکھے ہوئے خط (حقیقت میں مراسلہ ہے ) سے 27 مارچ تک عوام کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا؟

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیوں طلب نہیں کیا گیا؟ 27 مارچ تک خان صاحب کہتے رہے ہیں کہ میں تحریک عدم اعتماد کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں، تحریک عدم اعتماد میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اگر یہ خط قومی سلامتی کے منافی تھا اور اس میں پاکستان کے خلاف کوئی سازش رچائی گئی تھی۔ تو خان صاحب کی خاموشی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ خان صاحب اس سازش سے واقف ہونے کے باوجود پاکستان کی سلامتی سے کھیلتے رہے۔ اور ایجنسیوں کی کارکردگی پر یہ خط ایک سوالیہ نشان ہے۔

عمران خان صاحب کو اس خط کی سیڑھی پہ چڑھانے والا شاہ محمود قریشی ہے۔ اپوزیشن کے درمیان عدم اعتماد کی کھچڑی تین مہینوں سے پک رہی تھی۔ عمران خان نے ان ہی دنوں میں رشیا کا دورہ کیا ہوا تھا۔ لوہا گرم تھا اسی دورے کی بنیاد پر امریکی سازش پر قائل کرنا عوام کو مشکل نہ تھا۔ شاہ محمود قریشی کو معلوم تھا کہ عمران خان ایک سحر انگیز شخصیت ہیں۔ سوشل میڈیا ٹیم کافی مضبوط ہے۔ عمران خان کا بیان یہ حرف آخر سمجھتی ہے۔

ایک لمحے سے پہلے ان کا بیانیہ پورے سوشل میڈیا پر چھا جاتا ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب کو یہ بھی ادراک تھا کہ اس کے نتائج کیا آئیں گے۔ ملک کی سلامتی کس حد تک داؤ پر لگے گی۔ دنیا میں تعینات اپنے سفیروں کو کیا کیا مسائل پیدا ہوں گے۔ کسی بھی ملک میں تعینات سفیر کے اندرون خانہ سرکاری اداروں میں تعلقات ہوتے ہیں۔ ان کے مختلف اداروں میں مخبر موجود ہوتے ہیں۔ جو ان کو مختلف رپورٹ مہیا کرتے رہتے ہیں۔ سفیر حضرات یہ رپورٹیں کوڈز کی صورت میں اپنے ملک کے دفتر خارجہ کو ارسال کر دیتے ہیں۔

وزارت خارجہ یہاں ان کو ڈی کوڈ کرتی ہے اور اگلا لائحہ عمل طے کرتی ہے۔ عمران خان کے اس اقدام سے پاکستان کے سفیر پریشان ہیں کہ ان کے لئے مشکلات کھڑی کردی گئی ہیں۔ لوگ ان پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں گے اور اگر کبھی ان کا نام بھی اسد مجید کی طرح سامنے آ گیا تو انہیں بھی سرکاری و غیر سرکاری سطح پر وضاحتیں دینا پڑیں گی۔ کہتے ہیں سیاست ایک دھندا ہے۔ لڑائی کے جگہ، مقام، قانون، ضابطے اور طریقہ کار بدل گئے ہیں لیکن کرسی کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔

یہاں عمران خان کرسی بچانے کے لیے لڑ رہے تھے۔ جب کہ ان کی پارٹی کے کچھ سرکردہ لوگ چیئرمین تحریک انصاف کی کرسی حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے تھے۔ وہ یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ یہ خط نہیں ایک مراسلہ ہے۔ عمران خان جذباتی شخصیت ہے۔ خط کے معاملے میں یقیناً وہ حد عبور کریں گے اور عمران خان نے حد عبور کرنی شروع کردی۔ عمران خان سیاستدان تو کبھی رہے نہیں ہیں کرکٹر تھے اور فالوورز ان کے لاکھوں، کروڑوں میں ہیں جو کہ زیادہ تر برگر بچے ہیں جن کے پاس تعلیم، پیسہ، وقت اور ٹیکنالوجی موجود ہے۔

وہ عمران خان کے ہر لفظ کو سچ بنانا بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن شاید عمران خان کو بھی اب اندازہ ہونا شروع ہو گیا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کے ساتھ ساتھ اگر خط کی شفاف تحقیقات شروع ہو گئیں تو ان کے لیے کیا کیا مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ ان سے کیا غلطی ہو چکی ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد پنجاب اسمبلی کا ہنگامہ بھی ٹھنڈا پڑھ چکا ہے۔ شہباز شریف صاحب کو سوشل میڈیا نہیں تو الیکٹرانک میڈیا تو سنبھالنا آتا ہے ان کو اسٹیبلشمنٹ، زرداری، اے این پی، جے یو آئی ف، ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔

اور انھوں نے اسی طرح کام کرنے کی رفتار جاری رکھی تو کچھ عرصے بعد عمران خان پس پردہ ہونا شروع ہوجائیں گے۔ کیونکہ میڈیا کوریج وزیراعظم کو دیتا ہے اپوزیشن لیڈر کو نہیں۔ لگ ایسا رہا ہے کچھ عرصہ بعد سکرین پر شہباز شریف صاحب کا ڈنکا بج رہا ہو گا۔ اسی بنیاد پر خان صاحب کے لہجے میں بھی نرمی پیدا ہونا شروع ہو چکی ہے۔ بیک ڈور چینل سے اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ بھی کرنا چاہ رہے ہیں لیکن وہ کسی پر اعتماد نہیں کر پا رہے۔

اپنی پارٹی کے سرکردہ لوگوں پر نہ اسٹیبلشمنٹ پر۔ اس وقت ان کے پاس واحد مثبت آپشن نوجوان کارکنان ہیں۔ جو ان کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار بیٹھے ہیں لیکن خان صاحب ان کو کوئی بھی لائحہ عمل مہیا کرنے میں نا کام نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کو چاہیے کہ اس وقت امریکن امپورٹڈ حکومت، خط کی گردان چھوڑیں اور کارکردگی پر بات کریں۔ اسمبلیوں میں حکومت کو ٹف ٹائم دیں ورنہ یہ ڈیڑھ سال ان کے لئے اگلے الیکشن میں قیامت بن کر برسے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments