کتابوں کا عالمی دن، عورت اور ہمارے نوجوان طبقے کا کتابوں سے رشتہ


فیسبک پر میری کتابوں کا عالمی دن کا پوسٹ دیکھ کر ہی ہمشیرہ اپنی لائبریری سے کچھ پسندیدہ کتابیں تحفہ میں میز پر رکھ کر چلی گئی۔ یہ میرے لئے صرف خوشی کی بات ہی نہیں بلکہ باعث فخر ہے۔ ایک ہی چھت تلے ایسے ہمشیرہ کا ہونا جس کو کتابوں کے ساتھ ذوق کے علاوہ تعلیم اور علم کو فرض عین سمجھنا کسی بھی نعمت سے کم نہیں۔ کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ایک خاندان ہوتا ہے، اور اس خاندان کی بنیاد ایک عورت۔ کیونکہ کسی بھی نئی نسل کی ابتداء اور تربیتی بنیاد ماں کے گود سے پروان چڑھتا ہے، اس پر کافی مفکروں نے لکھا ہے : ”ایک عورت کی تربیت پوری ایک نسل کی تربیت ہے“ ۔ لیکن اس زوال یافتہ معاشرے میں بدقسمتی سے ہماری بنیاد (عورت) ہی اس اہم اور ضروری بنیادی تربیت سے محروم ہیں۔ اس لئے ہمارے معاشرے کی بنیاد ہی کھوکھلی اور خالی ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی ؒ نے اس اہم بنیادی معاشرتی مسئلہ کی بہت اچھی طرح نشاندہی کی ہے :

” ہمارے ہاں یہ ہوا کہ ہم نے اپنے بیویوں کو محکوم بنایا اور انہیں ذلیل سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں کی فضا محکومی اور ذلت سے آلودہ ہو گئی ہے۔ ہم اس فضا میں سانس لیتے ہیں اور ہمارے بچے اس میں لتے ہیں۔ چنانچہ ہماری اس گھریلو زندگی کا اثر ہماری گھر سے باہر کی پوری زندگی پر پڑا۔ اور جس طرح ہم نے گھر کے اندر اپنی عورتوں کو ذلیل اور محکوم سمجھا، اسی طرح ہم نے گھر کے باہر خود بھی ذہنا اور طبعا اور اخلاقی لحاظ سے محکوم اور ذلیل ہو گئے اور ہماری اولاد اس سانچے میں ڈھلتی چلی گئی۔ سچ پوچھو تو ہماری موجودہ قومی پستی، جمود، بے ضمیری اور عدم ثبات و استقامت بہت حد تک ہماری اس گھریلو زندگی کی وجہ سے ہے۔ اب اگر ہمیں آزاد ہونا ہے اور اس دنیا میں اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے کی ہمت پیدا کرنا ہے تو ضرورت ہے کہ ہم اپنی عورتوں کے اندر عزت نفس اور رفاقت کا شعور پیدا کریں۔ ”

عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟ عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو بلند انسانوں کی پرورش کر کے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہو گا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہیے۔ عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔

عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہو گا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟ اس لئے اپنے گھر کی عورتوں کے لئے خاص وقت نکالیے، اگر آپ کی خواتین سکول، کالجز اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں یہ تعلیم یافتہ ہیں تو سبجیکٹس کے علاوہ سیاست، سماجی، معاشی اور ادب کے علوم کی طرف بھی رجحان پیدا کرے۔ اور بقول امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے :

” ہمارے مطالعہ کا فائدہ آنے والے نسل کو ہو گا“

وہی اس سے مستفید ہوں گی۔ ہمارے پیر مرشد اس دور کے امام مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے فرمایا تھا کہ :

”دور حاضر کا میڈیا ہمارے نوجوان طبقہ کو بہا کر لے جائے گا۔“

یہ کتنی المناک بات ہے کہ اس دور جدید میں ہم کون سی نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں، ہماری نسل اپنا قیمتی وقت علم اور کتابوں کے بجائے کن فضولیات (ٹک ٹاک، فیسبک وغیرہ ) میں ضائع کرتی ہے؟ ایسے میں ہم معاشرے اور مستقبل کی آنے والی نسل کو کیا بنیاد اور طبقہ فراہم کر رہے ہیں؟ کیا موجودہ نوجوان طبقہ ایسے میں آنے والے مستقبل کی رہنمائی کر پائے گا؟

پچھلے دنوں فیسبک پر کئی دوستوں کے ساتھ رشید احمد یوسفزئی کے حوالے سے بات چیت ہوئی، جس پر ہمارے معاشرے میں مطالعہ اور کتاب سے رشتے کی فقدان پر نشاندہی کی:

”اصل میں اگر اجتماعی طور پر تجزیہ کیا جائے، تو ہمارے اس زوال یافتہ معاشرے میں مطالعہ کا نہایت ہی فقدان ہے۔ کتاب سے کالم، اور کالم سے تو اب تو 100 لفظوں کے مضامین تک بات آ گئی۔ اس رجحان سے اجتماعی زوال کے ساتھ یہ جزوی مطالعاتی زوال کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ لوگوں کے رجحانات کا جائزہ کر لے، آپ کو کچھ جملوں پر مبنی پوسٹوں کا رجحان زیادہ ملے گے اس لئے جاوید صاحب کی طرح لوگ زیادہ پاپولر ہیں۔

مطالعاتی زوال کی وجہ سے لوگ تشنگی دور کرنے کے لئے ان جیسے تحاریر کا ہی سہارا لیتے ہیں جو کہ نہایت ہی المیہ کی بات ہے۔ خود کسی کتاب پر وقت صرف کرنے کے بجائے تحاریر میں اپنے لئے راہ فرار ڈھونڈتے ہیں، کیونکہ کتاب پر وقت کے ساتھ انرجی، دماغ اور شعور کو بھی دستک دینی پڑتی ہے اس لئے یہ کام کالم کے بجائے پیچیدہ اور مشکل ہے۔ ”

ہماری ریاست تعلیم جیسی بنیادی حقوق فراہم کرنے میں پہلے سے ہی نکام ہے، یا ریاست اس لحاظ سے بالکل سنجیدہ ہی نہیں، کیونکہ زوال یافتہ معاشرے میں حکمرانی کرنے کے لئے جہالت فرض عین ہے۔ عبید اللہ سندھی ؒ فرماتے ہیں کہ:

” تعلیم سے روکنے والا طاغی انسان ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ غرباء غلامی کی زنجیر میں جکڑے رہیں۔ دوسروں کو اپنا محتاج بناتا ہے۔ یہ سرمایہ پرستوں کی عادت قبیحہ ہے۔ وہ جبری تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اقراء امر ہے۔ فرض عیسیٰ ہے۔ یہ تعلیم ہی ایسا نسخہ ہے جس سے غلامی کی زنجیریں کٹ جاتی ہیں اور انسان ترقی کے راستے دیکھنے لگتا ہے۔ سرمایہ پرست انسان پڑھنے لکھنے سے لوگوں کو روکتا ہے تاکہ وہ غلامی میں رہیں۔“

ہمارا تعلیمی نظام قومی سطح پر معاشرے کو پروفیشنلز اور ریاستی مشینری چلانے کے لئے باصلاحیت افراد فراہم کرنے میں ناکام ہے، اس لئے ہمیشہ ہمیں باہر سے ہی امپورٹ کرنا ہوتا ہے جن کے نتائج آپ سب کے سامنے ہیں۔ اس لئے قومی سطح پر ایسے تعلیم کے ضرورت ہے کہ:

جب انسان کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو اس کی طبعی تقاضوں کے مطابق ہے تو وہ ایسا محسوس کرتا ہے، گویا اسے بھولی بسری چیز یاد دلائی گئی ہے۔ اس لئے جو علم انسان کو دیا جائے جو اخلاق انسان کو سکھائے جائیں۔ اور سوسائٹی کا جو نظام اسے بتایا جائے وہ ایسا ہونا چاہیے کہ فطرت انسانی پکار اٹھے کہ یہ میری ہی چیز ہے جو مجھے بھولی ہوئی تھی۔

حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ ”

اسکے ساتھ نوجوانوں کو کتابوں کے ساتھ ایسا مضبوط رشتہ بنانے کی ضرورت ہے جیسے ایک مومن کا خدا کے ساتھ۔ کتابیں آپ کی رہنمائی کرتی ہیں، آپ کے اندر ہیجان اور تغیرات پیدا کرتی ہیں، آپ کو مزاحمت کے لئے اکساتی ہیں، غلامی سے نجات دلاتی ہیں، قرآن مجید جیسی عظیم کتاب کس مقصد کے لیے اتارا گیا؟ بقول شاعر مقبول عامر کے :

”زمیں کے کام اگر میری دسترس میں نہیں
تو پھر زمیں پہ مجھے کس لئے اتارا تھا ”

آج نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ ایک چھوٹے بچے کے سامنے سر جھکائے ان کے تقاریر سے متاثر دیکھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ کیوں؟ ہم اپنے سے نا اہل لوگوں کے کیونکر غلام ہیں؟ علمی دہشت گردی کے متاثر قوم کیونکر عقل سے عاری ہیں؟

اس لئے آزادی کے لئے کتابوں سے رشتہ ضروری ہی نہیں فرض ہے۔ باقی عالمی کتاب دن ہے اس پر میرا ایک پسندیدہ شعر دوست کے نظر:

”اے کتابوں سے کھیلنے والے
ہم بھی لفظوں سے پیار کرتے ہیں ”
ڈاکٹر شفیق

شاہد خان، چین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد خان، چین

شاہد خان نے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چائنہ سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے، ادب، سیاسیات، سماجیات اور معیشت جیسے علوم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

shahid-khan-china has 1 posts and counting.See all posts by shahid-khan-china

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments