فارن فنڈنگ کیس کیا ہے اور اس کے پاکستانی سیاست پر کیا ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں؟

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


ووٹ
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو تیس روز میں پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ کرنے سے متعلق سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔ عدالت نے الیکشن کمشن کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنے سے متعلق بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیا ہے۔

اس سے قبل عدالت نے الیکشن کمیشن کو روزانہ کی بنیاد پر اس مقدمے کی سماعت کا حکم دیتے ہوئے 30 روز میں فیصلہ کرنے کا کہا تھا، جس پر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان نے تنقید کی اور کمیشن پر جانبدای کے الزامات عائد کیے تھے۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں جانبدار قرار دیتے ہوئے اس کے دفتر کے سامنے احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں الیکشن کمیشن کی تحقیقات سے یہ معلومات سامنے آئیں کہ تحریک انصاف نے درجنوں اکاؤنٹس کو خفیہ رکھا اور فارن فنڈنگ شفاف نہیں تھی۔

سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت گذشتہ چھ برس سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ ان کی جماعت پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے بلکہ تمام حاصل ہونے والے فنڈز کی دستاویزات موجود ہیں۔

ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گیے ایک حالیہ انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ دو ملکوں نے انھیں انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی۔ عمران خان نے ان دو ملکوں کے نام یہ کہہ کر نہیں بتائے کہ ان کے نام بتانے سے پاکستان کے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔

اگرچہ وفاقی حکومت نے ان سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کرنے کی اجازت دے دی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی گئی تو پھر ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

واضح رہے کہ عمران خان نے بھی سنہ 2013 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کی قیادت کی تھی۔ اسی احتجاج کے دوران عمران خان نے اس وقت کے الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس پر اُنھیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا اور بعد ازاں عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سے معذرت کی تھی۔

پاکستان میں سیاسی جماعتیں فنڈز کیسے اکھٹا کر سکتی ہیں، متعلقہ قوانین کیا ہیں، اگر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو کیا پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے اور اس کیس کے پاکستان کے سیاسی مستقبل پر کیا اثرات ہوں گے، یہ سب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کیس کب اور کیسے شروع ہوا۔

غیر ملکی فنڈنگ کیس کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کوئی سیاسی مخالف جماعت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں لے کر آئے تھے۔

اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔

اکبر ایس بابر کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہُنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کا الیکشن کمیشن میں اس درخواست کو لے کر جانے کا مقصد کسی جماعت پر پابندی لگوانا نہیں اور نہ ہی کسی کی عزت کو اُچھالنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والے فنڈز سے ملکی سلامتی پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔

الیکشن کمیشن میں اس درخواست کا کیا بنا؟

جب اکبر ایس بابر کی طرف سے یہ درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی تو اس پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اور یہ مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاونٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں۔

ایک مرتبہ حکم امتناع ملنے کے بعد جب عدالت عالیہ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور مبینہ طور پر اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے گئے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ کسی جماعت کو دستیاب قانونی آپشن استعمال کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

واضح رہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے جب موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگز کے حوالے سے بھی دی گئی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے سنہ 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمشن کو سنہ 2009 سے 2013 کے دوران اس جماعت کو جتنے بھی فنڈز ملے اس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔ سنہ 2014 سے لے ک 2018 تک یہ معاملہ مختلف عدالتی فورمز پر زیر بحث رہا ہے۔

الیکشن کمیشن

پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف

پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب کے مطابق اس وقت پاکستان اور دنیا بھر میں ان کی جماعت کے 40 ہزار سے زیادہ ڈونرز ہیں جو ان کی جماعت کو چندہ دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان تمام ڈونرز کی فہرست الیکشن کمیٹی کی سکروٹنی کمیٹی کے حوالے کی جا چکی ہیں۔

کافی عرصے تک پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف رہا ہے کہ اُنھوں نے بیرون ممالک سے جتنے بھی فنڈز اکھٹے کیے ہیں وہ قانون کے مطابق ہیں لیکن گذشتہ دنوں حکمراں جماعت کی طرف سے جو بیان سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا اس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ اس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات اس کام کے لیے لی جاتی ہیں۔

اسی جواب کو بنیاد بناتے ہوئے حزب مخالف کی جماعتوں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے ہیں۔

الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے وکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایجنٹس نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی غیر ملکی کمپنی یا شخص سے کوئی چندہ حاصل کیا ہے تو اس کی ذمہ داری ان کی جماعت پر نہیں ہوگی بلکہ اس کی ذمہ داری ان ایجنٹس پر ہوگی اور مقامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

تاہم جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کسی ایجنٹ نے قانون کے خلاف ورزی کرتے ہوئے جو رقم اکٹھی کی ہے کیا وہ فنڈز پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئے ہیں تو تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارٹی کے پاس جو بھی فنڈز آئے ہیں ان کا آڈٹ کروایا گیا ہے۔

اُنھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے اس الزام کو تسلیم کیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے چندہ اکھٹا کیا ہے۔

عمران خان

ایک حالیہ انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ دو ملکوں نے انھیں انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی

نواز لیگ اور پیپلز پارٹی پر ممنوعہ فنڈنگ کے کیا الزامات ہیں؟

اگرچہ پی ٹی آئی کا معاملہ تو سلجھا نہیں مگر اسی دوران پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے اثاثوں کی چھان بین اور مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ سنہ2017 میں الیکشن کمیشن میں آ گیا اور یہ کیس حکمراں جماعت کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب لے کر آئے تھے۔

مسلم لیگ نون پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ جماعت برطانیہ میں بطور ’ایل ایل سی‘ رجسٹرڈ ہے۔

اس کے علاوہ امریکہ میں روحیل ڈار نامی شحص اس جماعت کے لیے فنڈز اکھٹا کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مختلف بین الاقوامی کمپنیوں نے اس جماعت کو فنڈز فراہم کیے ہیں اس کے علاوہ اس جماعت پر 70 کروڑ روپے چندہ میڈیا گروپ کو دینے کا بھی الزام ہے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ نواز سے بھی فنڈز کی تفصیلات طلب کر رکھی ہیں۔

اسی طرح حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے فنڈز کی جانچ پڑتال کرنے کا معاملہ بھی سنہ 2017 میں الیکشن کمیشن میں آیا۔ اس جماعت پر الزام عائد کیا گیا کہ سنہ 2008 کے عام انتحابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک امریکی شہری مارک سیگل جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے امریکہ میں لابنگ کرتے ہیں ان کے ذریعے مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم پاکستان پیپلز پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے۔ اس جماعت پر یہ بھی الزام ہے کہ بعض غیر ملکی کمپنیوں نے انھیں انتخابات کے لیے فنڈز دیے تھے۔

مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کے مطابق اُن کی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات نہیں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کی جماعت بیرون ممالک سے چندہ جمع ہی نہیں کر رہی۔

نواز شریف

پاکستان مسلم لیگ نون پر یہ الزام ہے کہ مختلف بین الاقوامی کمپنیوں نے اس جماعت کو فنڈز فراہم کیے ہیں اس کے علاوہ اس جماعت پر 70 کروڑ روپے چندہ میڈیا گروپ کو دینے کا بھی الزام ہے

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت کے لیے چندہ پاکستان سے ہی جمع کیا جاتا ہے اور اس چندے میں زیادہ تر حصہ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان صوبائی اسمبلیوں کا ہوتا ہے۔

محسن شاہنواز رانجھا نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت نے فنڈنگز سے متعلق تمام تفصیلات سکروٹنی کمیٹی کو جمع کروا دی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ حکمراں جماعت نے حزب مخالف کی بڑی جماعتوں کے خلاف بیرون ممالک سے فنڈز اکھٹا کرنے کے معاملے کی تحققیات کے لیے درخواست اس لیے دی تاکہ اس معاملے کو طول دیا جا سکے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم سے متعلق ان کی جماعت کے خلاف کوئی شواہد سکروٹنی کمیٹی کو فراہم نہیں کیے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کی تشکیل ہوئے 53 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے اور آج تک ان کی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات نہیں لگائے گئے۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کی جماعت کو جو بھی فنڈز ملتے ہیں ان کی تمام تر تفصیلات الیکشن کمیشن میں باقاعدگی سے جمع کروائی جاتی ہیں۔

زرداری، بلاول

پیپلز پارٹی پر الزام ہے کہ سنہ 2008 کے عام انتحابات کے بعد اس جماعت نے اقتدار میں آ کر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز جمع کیے ہیں

یہ بھی پڑھیے

فارن فنڈنگ کیس: ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟

فارن فنڈنگ کیس: الیکشن کمیشن کیوں اور کس کے کہنے پر گھبرا رہا ہے، نواز شریف کا سوال

’غیر ملکی فنڈنگ پر ہر سیاسی جماعت کو حساب دینا ہوگا‘

سیاسی جماعتیں بیرون ممالک سے فنڈ کیسے اکھٹا کرتی ہیں؟

پاکستان کی محتلف سیاسی جماعتوں نے بالخصوص امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ترقی یافتہ ملکوں میں لمیٹڈ لائبلیٹیز کمپنییاں بنا رکھی ہیں، جس کے انچارج اس ملک میں مقیم ایسے پاکستانی ہوتے ہی جس کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔

ان ذمہ داران یا ایجنٹس کی تقرری فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے۔

یہ نمائندے ان ملکوں میں موجود دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں یا جن کے پاس نائیکوپ کارڈ ہے، سے اپنی جماعت کے لیے فنڈز اکھٹے کرتے ہیں اور پھر اُنھیں پاکستان بھجواتے ہیں۔ ان ایجنٹس کو پارٹی کا منشور بھیجا جاتا ہے اور یہ ہدایات بھی دی جاتی ہیں کہ پاکستانیوں کے علاوہ کسی غیر ملکی حکومت، شخصیت یا ادارے سے پارٹی کے لیے فنڈز حاصل نہ کریں۔

ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

الیکشن کمیشن ایکٹ سنہ 2017 کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نینشل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔

اس ایکٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نیشل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے نائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے، ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ سیکشن 204 کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ایکٹ سنہ2017 جو کہ پارلیمنٹ میں موجود پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر پاس کیا تھا، میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بنائے گیے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ سنہ 2002 کی دفعات 204 سے لے کر 212 تک کو شامل کیا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ تمام دفعات سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگز سے متعلق ہیں۔

الیکشن کمیشن

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کنور دلشاد نے کہا کہ اس قانون کے آرٹیکل 210 کے تحت اگر کسی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے بیرون ممالک سے چندہ حاصل کرنے کے ثبوت مل جائیں تو الیکشن کمیشن اس وقت کی حکومت کو اس جماعت کے خلاف ریفرنس بھیجے گا، جس پر عمل درآمد کرنا حکومت وقت کے لیے لازم ہو گا۔

اُنھوں نے کہا کہ الیکشن کمشن ایکٹ سنہ 2017 کی شق 212 کے تحت ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے فنڈز کی پاداش میں الیکشن کمیشن اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو لکھے گا اور وفاقی حکومت 15 روز میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھییجے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ ایسی سیاسی جماعت کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کو درست مانتی ہے تو ایسی صورت میں سیاسی جماعت ختم ہو جائے گی۔

کنور دلشاد کے مطابق ایسا ہونے کی صورت میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ ارکان صوبائی اسمبلی حتیٰ کہ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے بھی نااہل ہو جائیں گے۔

پاکستانی تاریخ میں صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہوئی

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر مختلف ادوار میں یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ اُنھیں فلاں دشمن ملک یا ایسا ملک مالی معاونت فراہم کر رہا ہے جس کا پاکستان میں کوئی مفاد ہوں لیکن ملکی تاریخ میں الیکشن کمیشن نے صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی تھی، جس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے پارٹی چلانے کے لیے فنڈز اکھٹے کیے ہیں۔ یہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔

نیشنل عومی پارٹی ایک پراگریسو سیاسی جماعت تھی اور اس کی بنیاد سنہ 1958 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں عبدالمجید خان بھاشانی نے رکھی تھی۔

اس جماعت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جس کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس جماعت پر غداری اور انڈیا سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات عائد ہونے کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔

اس کے بعد سے لے کر اب تک کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہیں ہوئی۔

سپریم کورٹ

فارن فنڈگ کیس میں سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ، تحریک انصاف نے درجنوں اکاؤنٹس خفیہ رکھے

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اکبر ایس بابر کی درخواست کو لے کر پاکستان تحریک انصاف کی فارن فنڈنگز کے حوالے سے تحققیات کے لیے مارچ سنہ 2018 میں الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل لا کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور وزارت خزانہ کا ایک نمائندہ بھی اس سکروٹنی کمیٹی کا حصہ تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکمراں جماعت نے انتخابی ادارے سے 31 کروڑ سے زائد کی رقم خفیہ رکھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کی طرف سے درجنوں اکاؤنٹس ظاہر ہی نہیں کیے گئے۔ الیکشن کمیشن اب سکروٹنی کمیٹی کی اس رپورٹ پر سماعت کرے گا۔

رواں برس جنوری کے پہلے ہفتے میں جاری ہونے والی الیکشن کمیشن کی تین رکنی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمیشن میں عطیات سے متعلق غلط معلومات فراہم کی گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے چند افراد کے علاوہ فارن فنڈنگ کے مکمل ذرائع ظاہر نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے سکروٹنی کمیٹی اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہے۔

رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔ کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کو نیوزی لینڈ سے موصول ہونے والے فنڈ تک سکروٹنی کمیٹی کو رسائی نہیں دی گئی۔

سکروٹنی کمیٹی کے مطابق جب تحریک انصاف سمیت فریقین کی طرف سے مکمل ڈیٹا تک رسائی سے متعلق تعاون نہیں کیا گیا تو پھر کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی اجازت سے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان کے دیگر بینکوں سے 2009 سے 2013 کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور یوں یہ رپورٹ مرتب کی گئی۔

کیا یہ فنڈ ضبط ہوں گے؟

الیکشن کمیشن کے مطابق سٹیٹ بینک کے ریکارڈ میں انکشاف ہوا کہ عمران خان کی جماعت کے 65 بینک اکاؤنٹ ہیں اور سال 2008-09 اور 2012-13 میں تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک ارب 33 کروڑ روپے کے عطیات ظاہر کیے۔

سٹیٹ بینک کی بینک سٹیٹمنٹ سے ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کو ایک ارب 64 کروڑ روپے کے عطیات موصول ہوئے۔ یوں تحریک انصاف نے 31 کروڑ روپے سے زائد کی رقم (310،440،444) الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کی۔

خیال رہے کہ تحریک انصاف کے سابق رکن اکبر ایس بابر نے سنہ 2014 میں پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔ اس درخواست پر الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے 96 سماعتیں کیں۔

اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا تھا کہ دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹوں میں منتقل کیے گئے اور تحریک انصاف نے یہ بینک اکاؤنٹ الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے۔

سیاست پر ممنوعہ فنڈنگ کیس کے ممکنہ اثرات

الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے 96 سماعتیں کیں اور پھر اس نتیجے پر پہنچی کہ تحریک انصاف چھ برس میں ممنوعہ فارن فنڈنگ کے خلاف مکمل ثبوت دینے میں ناکام رہی ہے۔ تحریک انصاف نے سکروٹنی کمیٹی کی اس رپورٹ کو حقائق سے منافی قرار دیا اور کمیشن کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی فنڈنگ سے متعلق بھی جانچ پڑتال کرنے کی درخواست کر دی۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے جلسوں میں بھی اس خدشے کا اظہار کیا کہ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کو استعمال کیا جائے اور یوں ان کی جماعت کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم سرکاری سطح پر ان کے اس الزام پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

تاہم وزرا اور حکومتی ترجمانوں کی طرف سے تواتر سے یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ عمران خان فارن فنڈنگ کا حساب دینے میں ناکام رہے ہیں اور اب وہ کسی طور پر کمیشن کو ڈرا کر اس مقدمے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

تحریک انصاف کے اس خدشے سے یہ بحث ضرور چھڑ گئی ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد بھی ایک عوامی ردعمل دیکھنے کو آیا ہے اوراب اگر اس جماعت پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے تو پھر ایسے میں اس فیصلے کے خود تحریک انصاف، عمران خان اور ملک کے سیاسی منظرنامے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

سیاسی مبصرین کے مطابق ایسا فیصلہ ملک میں افراتفری کا باعث بن سکتا ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل ورائچ کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات ثابت ہوگئے تو اس کے ملکی سیاست پر بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگی تو پھر ملک میں افراتفری پھیلنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

اُنھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں پر الزامات لگتے رہے ہیں جس کا مقصد سیاسی جماعتوں کو بدنام اور جمہوریت کو کمزور رکھنا تھا۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ جس طرح سابق وزیر اعظم بے نظیربھٹو کے سوئس اکاؤنٹس کا پتہ چلا اور اس کے بعد پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لندن میں فلیٹس اور بینک اکاؤنٹس کو سامنے لا کر ان جماعتوں کی عوام میں ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ اسی طرح اب پاکستان تحریک انصاف، جو کہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے، کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوتا نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments