ماں کی خدمت


کھلے صحن میں لوگوں کا رش ہے۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ پوری جگہ کو شامیانوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ رونے اور سسکیوں کی آوازیں مسلسل پورے ماحول پر حاوی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ (اے اللہ اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما) کا بلند ہوتا ورد بھی میرے کانوں تک آ رہا ہے۔ میرے بچے میرے اردگرد بیٹھے ہیں۔ کوئی میرا سر چوم رہا ہے۔ کوئی میری ٹانگوں پر اپنے ہاتھ رکھے خاموش آنسو بہا رہا ہے۔ کوئی ہاتھ جھلا جھلا کر اکا دکا آنے والی مکھیوں کو اڑا رہا ہے۔ درمیان میں بہت مدھم پرسہ کرنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ جنہیں میں بند آنکھوں، رکے سانسوں اور بے جان جسم کے ساتھ سن رہی ہوں۔

ماشاءاللہ بڑی اچھی عورت تھی۔ بڑی محنت سے اولاد اور گھر سنوارتی رہی۔ اور اولاد بھی تو دیکھو کیسی خدمت گزار نکلی۔ پورے پانچ سال فالج کی وجہ سے بستر سے لگنے پر بہت ہی عمدہ طریقے سے اپنی ماں کو سنبھالے رکھا۔ یقیناً کوئی تعزیت دینے والی یہ بات کسی اور سے کہہ رہی تھی۔ جبکہ ماضی کے دریچوں سے یہ بیزار آواز آتی ہے۔ امی آپ تھوڑا خود بھی ہمت کیا کریں۔ بالکل ہی محتاج بنا لیا ہے خود کو۔ حوصلے سے کچھ ورزش کیا کریں ورنہ ہر وقت ایک بندہ آپ کی ڈیوٹی پر رہے۔

اس آواز کی تلخی حال کی ایک اور سرگوشی توڑتی ہے۔ بہن بیماری کی حالت میں بھی مجال ہے جو کبھی گندا دیکھا ہو یا کوئی بدبو آتی ہو۔ میں تو اکثر ملنے آتی تھی۔ ہمیشہ صاف ستھری، نہائی دھوئی ہی دیکھا۔ شاباش ہے ایسی اولاد پر۔ اور میں گزرے وقت کے ان لمحوں میں چلی جاتی ہوں جب نہلانے کے بعد بیٹی یا بیٹا سہارے سے مجھے بستر تک لاتے تھے اور میرے خوشبو اور کریم لگانے کے تقاضے پر بہت روکھی آواز میں یہ کہتے ہوئے متعلقہ چیزیں لگاتے تھے کہ آپ کا میک اپ تو اس حالت اور عمر میں بھی کم نہیں ہوتا۔

بس باجی ساری بات قسمت اور تربیت کی ہے۔ ماشاءاللہ ساری اولاد تعلیم یافتہ ہے۔ ماں باپ کے حقوق اور اپنے فرائض سے آگاہ ہے۔ وقت بے وقت بھی جاؤ تو کبھی کسی کو ماں کے خیال سے نظر چراتے یا منہ بسورتے نہیں دیکھا۔ ایک اور تعریفی جملہ سماعت سے ٹکراتا ہے۔ تو مجھے اپنی وہ بیٹی یاد آتی ہے۔ جو مجھے اٹھانے، بٹھانے، حاجت پوری کروانے یا نہلانے سے ہر وقت گریزاں رہتی تھی کہ یہ سب کرنے پر اسے کراہت محسوس ہوتی تھی یا اس کو زور لگانے سے کوئی اعصابی کھچاؤ ہو سکتا تھا۔

اللہ ایسی نیک بچے مجھے بھی دے۔ کم از کم بڑھاپا تو سنور جائے گا۔ میرا نہیں خیال کہ ان پانچ سالوں میں کسی بھی بچے کو سختی سے یا اونچی بات کرتے سنا ہو۔ حاضرین محفل میں سے ایک حسرت زدہ جملہ میری سماعت سے گزرتا ہے اور میں پھر کسی پرانے منظر میں چلی جاتی ہوں جہاں واک کرواتے بیٹے اور پیٹ خراب ہونے پر بار بار کپڑے بدلوانے پر بیٹی کی الجھی اور بے مہر باتیں سننے کو ملتی ہیں۔

اتنے میں میرے بیٹے کی آواز آتی ہے۔ بیبیوں ذرا راستہ دیں۔ لے جانے کا سمے آ گیا۔ ہجوم سمٹنے لگتا ہے اور راستہ بنتا جاتا ہے۔ میرے داماد اور بیٹے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھائے میری آخری منزل کی طرف روانہ ہونا شروع ہوتے ہیں اور پیچھے مجمعے میں بین، آہیں، گریہ اور ماتم عروج پر جا پہنچتا ہے۔ تو مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آتی ہے۔

اور تم میں سے جس کے والدین (دونوں یا ایک) بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے احسن سلوک کرو اور انھیں اف تک نہ کہو۔

اگرچہ گھر کی دہلیز سے نکلتے ساتھ میں نے ماضی کی سب مشکل آوازوں کو مٹا دیا کہ میری اولاد کی کسی ایک شکوے یا کمزور پل کی وجہ سے پکڑ نہ ہو جائے۔ لیکن میرا اللہ بڑا عظیم ہے جس کو انسانی فطرت کا پورے سے ادراک ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ دو حرفی لفظ اف لکھنے اور سننے میں بہت ہلکا ہے لیکن نبھانے میں پہاڑ جتنا سخت۔ انسان کی ذہنی، جسمانی، معاشی اور روحانی ہمت کا کڑا امتحان ہے۔ اسی لئے اپنی کتاب میں لکھ کر ہر انسان کو بالعموم اور ہر مسلمان کو بالخصوص اپنے ماں باپ کی خدمت سے جوڑ دیا ہے۔ لیکن ایسی خدمت جس میں زبان سے آواز بلند نہ ہو۔ لہجے سے بیگانگی عیاں نہ ہو۔ نظروں سے تحقیر ظاہر نہ ہو۔ لمس سے سختی نہ جھلکے۔ باتوں سے طنز و تشنیع کے تیر نہ برسیں اور اشاروں سے مذاق نہ اڑے۔ ورنہ ایک سال سنبھالو یا دس سال یا پھر پوری زندگی۔ کسی کا بڑھاپا بھی زخمی ہوتا رہے گا اور اللہ کے سامنے ساری محنت بھی اکارت۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments