کُچھ موتی جن کی چمک ابھی باقی ہے


 تعارف و ابتدائی تعلیم

بابا یعنی رانا محمد اسماعیل چنڑ چار جنوری انیس سو اسی کو بستی چنڑ والا، میر حاجی، ڈاک خانہ شاہ جمال تحصیل و ضلع مظفرگڑھ کے ایک کسان اور متوسط طبقے میں پیدا ہوئے۔ گھر میں اکلوتا ہونے کے ناتے (باقی بھائی پیدا ہونے کے تھوڑے ہی عرصے میں داغ مفارقت دے گئے ) گھر میں جس پیار اور لاڈ کی توقع کی جا سکتی تھی وہ حسب آرزو نہ مل سکا اور ایک خلا قائم رہا جو بقول والد صاحب انہوں نے ہم سے پورا کیا اور ہمیں ایک دوست کی طرح ہی سمجھا۔

لالٹین کے سہارے حاصل کی گئی ابتدائی تعلیم جو کہ اپنے علاقے میں موجود پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ مڈل اور میٹرک شاہ جمال شہر میں موجود ہائر سیکنڈری اسکول سے حاصل کی اور شہر میں ٹاپ کیا، قابلیت ایسی کہ اساتذہ کی طرف سے ہمارے دادا ابو کی منتیں کی گئیں کہ آپ اپنے بچے کے ٹیلنٹ کو فل سٹاپ لگانے کی بجائے اسے مزید تعلیم دلوائیں لیکن شومئی قسمت کہیں یا جو بھی، میٹرک کے دوران ہی شادی کردی گئی اور جلد ہی بڑے بھیا کی پیدائش ہو گئی جس کے بعد پڑھنا ناممکن سا ہو گیا، عربی فاضل کرنے کے لیے ملتان جانا چاہتے تھے تو والدین کی طرف سے اجازت نہ ملی۔

اسی دوران کھیتی باڑی کا کام اور گھر کی ذمہ داری کندھوں پر آن پڑی، اس طرح تعلیم کا سلسلہ قائم رکھنا ایک خواب سا معلوم ہونے لگا۔ ایک سال کے بعد میری پیدائش ہوئی تو میں بیماریوں کی زد میں آ گیا اور بابا کو میری وجہ سے اتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ بڑے بیٹے پر اتنا توجہ نہ دے سکے اور بڑے بھیا کے حصے کا سارا پیار اور دیکھ بھال مجھے ملنے لگی۔ مجھے امی نے جب بھی بتایا تو یہ لازمی بتایا کہ تمہارے بابا نم ناک آنکھوں کے ساتھ یہ کہتے تھے کہ ”جو بھی ہو جائے، جہاں جہاں جانا پڑے، میں اپنے بیٹے کا علاج مکمل ہونے تک چین سے نہیں بیٹھ سکتا“

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ماں دیکھ بھال کر سکتی ہے اور باپ ایسا نہیں کرتا تو وہ جھوٹ بولتے ہیں، آپ کی ساری تربیت میں اگر ماں کا کردار ہے تو آپ کی نشو و نما کا دکھ آپ کے باپ کے حصے میں آتا ہے۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب ہمارے پاس موٹر سائیکل نہیں تھی اور میری طبیعت اتنا خراب تھی کہ میرا زیادہ دیر سفر کرنا ممکن نہیں تھا، اس دن بابا کی جو پریشانی تھی وہ کسی ایسی بے چین چڑیا کی سی تھی جو بارش میں اپنے بچوں کو آشیانے کا تحفظ فراہم نہ کرسکے۔ پھر گاڑی کروائی گئی اور جب تک میری طبیعت بحال نہ ہو پائی تب تک بابا کے چہرے پر فکر نمایاں تھی۔ تعلیم کا سلسلہ میرے یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد ایف اے سے شروع کیا اور اب ایف اے مکمل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

خواب جو حقیقت میں بدلا

بابا شروع سے ہی تعلیم پوری نہ کر سکنے کے کرب سے واقف تھے، انہوں نے یہ کمی ہم سب بہن بھائیوں کو پڑھا کر پوری کی لیکن پھر بھی وہ چاہتے تھے کہ یہ نور، جہاں تک پہنچایا جانا ممکن ہے، وہاں تک پہنچے۔ اس خواب کو حقیقت کا عملی جامہ پہنانے کے لیے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے تحت ایک اسکول کا آغاز کیا، اپنے گھر کے پاس ہی کرائے پر دو کمرے لے کر بچوں کو پڑھانا شروع کیا لیکن باوجودیکہ ہم دوگنا کرایہ ادا کر رہے تھے اور ایک نیک مقصد کے لیے کام کر رہے تھے، حسد کا شکار ہمارا ہمسایہ اس بات پر راضی نہ ہوا اور چند مہینے بعد کمرے واپس کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

مجھے یاد ہے وہ گرمیوں کے دن تھے اور چند دن ہمیں ایک درخت کے نیچے بچوں کو نیچے قالین بچھا کر پڑھانا پڑا لیکن بابا نے ایک ہفتے کے اندر ہی تعمیر کا سامان خرید کر اسکول کی عمارت کا آغاز کر دیا۔ ایک ہفتے کے بعد اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں دے دی گئیں اور جب چھٹیوں کے اختتام پر بچے واپس اسکول میں آئے تو ان کے لیے چھ کمروں، دو واش روم، ایک آفس اور چار دیواری پر محیط ایک عمارت تیار ہو چکی تھی۔ اس دوران جس لگن سے ہم نے بابا کو کام کرتے دیکھا اور جس طرح ہمیں خود مزدور بن کر کام کرنا پڑا وہ ایک اپنے ارادے کے پکے انسان کی طرف سے ہی ہو سکتا تھا۔

ہم بہت سے مواقع پر ہمت ہارنے لگتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کام کو یہیں ٹھپ کریں، اس میں ہمیں کیا حاصل ہو گا تو بابا کہتے تھے کہ بیٹا یہ کام ہن اپنے گاؤں کی تقدیر بدلنے کے لیے کر رہے ہیں، آج نہیں تو کبھی آپ کو اس کا فائدہ بھی معلوم ہو گا، پھر جب چھ ماہ بعد میں پنجم کلاس کی لڑکیوں اور لڑکوں کو موٹیویشن دے رہا تھا اور ان کے اسکول کے بارے تاثرات معلوم کیے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور واقعی پتا لگا کہ کچھ چیزیں بس عطا ہوتی ہیں جو کسی کسی کے حصے میں آتی ہیں۔ اب اس اسکول میں ڈیڑھ سو سے زائد بچے بنا معاوضے کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی طرف سے جو تنخواہ ملتی ہے اس سے ایک آدھ ٹیچر اضافی رکھ کر اپنی جیب سے تنخواہ ادا کرنے کا واحد مقصد ان بچوں کو اپنے خواب بننے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

 بابا کے سنگ زندگی کی بہاریں

وقت کی رفتار سے آگے دوڑنے کی کوشش میں ہم دونوں بڑے بھائی بابا لوگوں سے دور ہوئے تو بھی ہم سے کبھی بابا نے یہ نہیں کہا کہ فلاں چیز کرنی ہے یا فلاں۔ مڈل پاس کرنے تک والد صاحب ہمیں روز خود وقت نکال کر اسکول چھوڑنے جاتے رہے، ہمیں یاد ہے کہ بابا اگر ملتان بھی ہوتے تو ہمارے لئے جلدی لوٹ آتے اور ہمیں چھٹی کے بعد انتظار نہ کرنا پڑتا تھا، ہم ان خوش نصیب لوگوں میں شامل تھے جنہیں ان کے والدین روزانہ کی بنیاد پر اسکول چھوڑنے جاتے اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پورے مڈل کے دورانیے میں ہمیں دو دفعہ بابا کے بنا گھر جانا پڑا اور ان دو دنوں میں جس بے بسی کا ہمیں سامنا کرنا پڑا تھا اس سے ہمیں احساس ہوا تھا کہ والد صاحب ہمارے لیے کتنی بڑی ڈھال ہیں۔

جب ہم میٹرک کرنے لگے تو شروعات کے دنوں میں ہمیں بائسیکل اور بعد میں موٹر سائیکل مل گئی اور بھیا اور میں اکیلے اکیڈمی جانے لگے۔ نہم اور دہم کے آخری مہینوں میں ہمیں ہاسٹل رکھنا ضروری ہو گیا، خاص طور پر ایسے لڑکوں کو جن کی تعلیمی کارکردگی اچھی تھی تو بابا روزانہ صبح شام امی کے ہاتھ کا پکا کھانا ہاسٹل چھوڑ کر آتے تھے، سر عباس صاحب والد صاحب کے بھی اساتذہ میں شامل تھے تو انہوں نے بہت دفعہ کہا کہ آپ کے دونوں لڑکے ہمارے بیٹوں کی طرح ہیں اور یہ یہاں ہی کھانا کھا سکتے ہیں لیکن بابا اس بات پر مصر تھے کہ نہیں میں اپنے بیٹوں کو گھرکا پکا ہوا کھانا دے کر جاؤں گا اور گھر سے فاصلہ بس آٹھ دس کلومیٹر ہی تو ہے۔

نہم کے آخر میں، میرے معدے کے مسائل شروع ہو گئے، کچھ عرصہ تو مجھے ہاسٹل میں ہی اختیار دلا دیا گیا کہ میری جو مرضی ہو میں کروں، آرام کروں یا پڑھوں یہ مجھ پر منحصر ہے لیکن جب پانی سر سے گزر گیا اور میں راتوں کو ڈر کر اٹھ بیٹھتا اور ساری رات نیند نہ آتی تو بابا مجھے گھر لے آئے اور میں کئی ماہ والد صاحب کے ساتھ سوتا رہا۔ جب بھی میں ڈر کر نیند سے بیدار ہوتا تو بابا جاگ کر مجھے کبھی کہانیاں سناتے اور کبھی مجھے موبائل پر خطابات سناتے، مجھے تلقین کرتے کہ بیٹا زندگی میں جنات سے ڈرنے لگو گے تو ایمان کی مضبوطی کہاں رہ جائے گی؟
ہر چیز کا مقابلہ بہادری سے کرنا سیکھو، اگر تمہارے اندر فقط ایک بہادری والا عنصر بھی آ جائے تو تم ہمارا فخر بن سکتے ہو۔

انہوں نے مجھ سے اتنی امیدیں جوڑ رکھی تھیں لیکن جب میرا امتحانات دینا تقریباً ناممکن دکھائی دینے لگا تب بھی وہ میرا حوصلہ بنے رہے اور مجھے یاد ہے دوسرا پرچہ اسلامیات کا تھا اور مجھے امتحانی مرکز میں قے شروع ہو گئی، بابا خلاف معمول دوپہر کو ہی ہاسٹل آ گئے اور کہا کہ بیٹا اگر اس دفعہ امتحان نہیں دینے تو کوئی بات نہیں لیکن صحت کا خیال رکھو، میں اس بات پر اتنا مطمئن ہو گیا کہ میرے سارے پرچے بہترین ہو گئے اور میں پوزیشن کی امید رکھنے لگا، جب نتیجہ آیا تو سوائے ایک مضمون کے غیر متوقع مارکس کے باقی سب میں غیر معمولی مارکس تھے، میرے ساتھ چل کر ری چیکنگ جو کہ ری کاؤنٹنگ ہی تھی کی درخواست دینے کے ساتھ ساتھ کئی چکر تعلیمی بورڈ کے لگانے میں بابا شامل حال رہے۔

میٹرک ہو جانے کے بعد انٹر میڈیٹ میں میری پسند کے موضوعات رکھوانے سے لے کر پسند کے ادارے تک سب میری مرضی کے عین مطابق ہوا۔ ایف ایس سی میں امتحانات کے دنوں میں میرے وہی سابقہ مسائل شروع ہو گئے لیکن بابا نے کبھی سختی نہیں کی بلکہ اکیڈمی میں تمام اساتذہ سے مجھے یہ اجازت ملی ہوئی تھی کہ میں جب چاہوں گھر جاؤں اور جب چاہوں پڑھوں، جو مضمون اچھا لگے پڑھوں اور جس کا دل نہ کرے اس لیکچر میں سے اٹھ کر ہاسٹل میں جاکر سو جاؤں، المختصر کون سی عیاشی تھی جو میں نے نہ کی ہو، سارے طلبا کہتے تھے کہ بڑے خوش قسمت ہو اپنی مرضی کے مطابق جی سکتے ہو لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ میری فیملی مجھے یہ سب اختیارات دے چکی تھی۔

جب انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہونے لگے تو مجھے بابا اپنے ساتھ موٹرسائیکل پر پچاس کلومیٹر سے زیادہ دور امتحانی مرکز میں لے جاتے، حالاں کہ تمام طلبا کالج کی طرف سے کرائے گئے کوچ میں جاتے تھے لیکن فقط میں بڑے سکون سے موٹر سائیکل پر جاتا اور اس دوران بابا سے گپیں ہانکتا رہتا، وہ سارا راستہ لطیفے یا روزمرہ کے حال سناتے رہتے اور میں محظوظ ہوتا رہتا۔ میں نے جتنا بابا کے ساتھ سفر کیا اور مجھے چیزوں اور مقامات سے واقفیت دی گئی کسی اور بھائی کو نہ مل سکی، مجھے خصوصی طور پر بابا اپنے دوستوں اور اپنے اساتذہ سے ملواتے تھے اور فخر کے ساتھ ہمارا تعارف کرواتے تھے جس کو سن کر شروع سے ہی اعتماد پیدا ہو گیا کچھ کرنے کا۔

اس کے علاوہ جب بھی ہم کہیں باہر جاتے یا اکثر اسپتالوں کے چکر لگتے تو راستے میں آنے والے تمام مقامات کی پوری تفصیل و تاریخ بتاتے جس سے میرے اندر تحقیق کا پہلو پروان چڑھنے لگا۔ مجھے چند ماہ پہلے والا ایک واقعہ یاد ہے جب ہاسٹل میں ایک دو ماہ گزارنے کے بعد میں گھر گیا تو راستے میں دریائے سندھ کی پل پر سے گزرتے ہوئے بابا کی شدت سے یاد آئی اور میں آنسو نہ روک سکا، گھر جاتے ہی پہلا کام یہی کیا کہ بابا کو کہا ”بابا دریائے سندھ پر مچھلی کھانے چلتے ہیں“ اسی وقت بابا نے سب مصروفیات کے باوجود بائیک نکالی اور ہم سارا دن ساتھ رہے اور خوب گپیں ماریں، ایسی کئی خوب صورت یادیں ذہن میں تازہ ہیں۔

مجھے کبھی نہیں کہا گیا کہ لازمی اتنے نمبرز لانے ہیں بلکہ بابا نے تو اتنا تک آپشن دے دیا تھا کہ اس دفعہ نہیں تو اگلی دفعہ کرلینا لیکن بس بے فکر ہو کر پرچے حل کرو۔ میں سارا دن گھر میں ہوتے ہوئے بھی ایک لفظ نہیں پڑھتا تھا اور پھر بھی پرچے اچھے ہوتے رہے اور مزے کی بات کہ جو سارا سال ہاسٹل میں رہے اور خوب محنت کی ان سے بھی چند نمبر زیادہ آ گئے اور یوں میری زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہو گیا۔ اگرچہ بابا نے میرے لئے دستیاب چند راستے متعین کر دیے اور مجھے اپنے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے والے دوستوں سے بھی ملوایا جن کی طرف سے مجھے اختیار کیے جانے والے ممکنہ شعبہ جات کے بارے معلومات بہم پہنچائیں لیکن میری سوئی فقط ادبی مضامین تک ہی رکی رہی۔ خیر بابا نے میری منشا کے مطابق آرٹس میں داخلہ لینے دیا اور آج میں اپنی فیلڈ میں الحمدللہ خوش و خرم ہوں۔

والد صاحب کی شخصیت کو میں اگر مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہوں تو ایک خود دار، ہمدرد، سلجھے ہوئے اور معاملہ فہم انسان جنہوں نے معاشرے میں اپنا حصہ بھی ڈالا اور اپنی فیملی کے لیے اپنا آپ وقف بھی کر ڈالا۔ ہم بھائیوں کو والد صاحب کی طرف سے فقط ایک ہی درس ملا کہ بیٹا کبھی ظالم اور استبداد رکھنے والی قوتوں کے آگے جھکنا نہیں اور انہوں نے اس چیز کا عملی درس دیا، اس وجہ سے شروع سے ہی ہمارے اندر ڈر تو ختم ہو گیا معاشرے کا اور ہمارا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ موت کا ایک دن معین ہے تو کسی اور کو آپ کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ ہماری دعا ہے کہ وہ ہمارے لئے اور ان سینکڑوں بچوں کے لیے مشعل بن کر تادیر رہیں جن کو انہوں نے جینے کا ڈھنگ سکھانا شروع کیا ہے۔

کسک، غربت، تنہائی، فکر، امید اور روشنی کا یہ سفر جاری ہے اور ہماری دعا ہے کہ جلد انشا اللہ اس سارے سفر میں بابا کے ساتھ فقط روشنی اور امید رہ جائیں گی اور باقی ساری بلائیں بھاگ جائیں گی (آمین ) ۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments