نوجوانی کا عشق: بے حیا کون ہے؟


یہاں بات دعا کی نہیں بد دعا کی ہے، جو نسوانی اعضا لے کر جنم لینے والی لڑکی کا نصیب ہے۔ بیس سال سے تدریس سے وابستہ ہوں ہر عمر کے بچوں سے رابطہ رہا۔ جب موبائل عام نہیں تھے، تب بھی چھوٹی عمر کی بچیوں کے ٹوٹی پھوٹی لکھائی میں لڑکوں کے نام محبت نامے عام بات ہوا کرتے تھے۔ بعض اوقات لڑکے بھی پہل کیا کرتے تھے لیکن یہ اسی وقت ہوتا تھا جب بچیاں انہیں مسکرا کر دوستی کی عندیہ دیں۔ آٹھویں، نویں، دسویں، گیارہویں، بارہویں جماعت تک عشق و محبت کے معاملات ہم ٹیچرز ہی نمٹا دیا کرتے تھے۔ یا محبت میں جان دینے کا دعویٰ کرنے والے پرندے کسی دوسرے گھونسلے کا رخ کر دیتے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر لمبی جدائی ہو جایا کرتی۔

ایک لڑکی اپنے یونی فارم کے نیچے دوسری شرٹ پہن کر آیا کرتی۔ ایک دن کھلا کہ وہ چھٹی کے وقت یونی فارم کی شرٹ اتار دیا کرتی۔ اور کسی لڑکے سے روزانہ ملا کرتی۔ ایک چوتھی جماعت کی بچی کی خاطر چھٹی جماعت کے بچے نے اپنی رگ کاٹ لی۔ ایک بارہویں جماعت کی بچی یونی ورسٹی کے ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ جانے کی پوری پلاننگ کر کے کالج آئی۔ اس کی ایک سہیلی نے رازداری کا وعدہ لینے پر ہمیں بتا دیا۔ ہم نے اس بچی سے بات کی اور اس سے وعدہ کیا کہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے۔ ہم ان دونوں کے لیے ان کے گھر والوں سے بات کریں گے۔ دونوں بچوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بات کیے بنا اور ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لڑکے نے کہا کہ بابا کہتے ہیں کہ پہلے کسی قابل ہو جاؤ تب شادی کریں گے۔ لڑکی کا کہنا تھا کہ اس کی ماں نے کہا ہے کہ اگر ابو کو پتہ چل گیا تو وہ جان سے مار دیں گے، اور تمہیں کالج سے گھر بٹھا لوں گی۔

ایسی صورت میں ہمیں ماں اور باپ کا رول ادا کرنا پڑا۔ بچوں کو اعتماد دیا انہیں پیار سے سمجھایا میں نے بچی سے کہا، اس کے بابا ٹھیک کہتے ہیں، تم بھی پڑھائی پر دھیان دو، کچھ بن جاؤ، میں تمہارے والدین کو راضی کروں گی وہ راضی نہ ہوئے تو خود تمہارا رشتہ اس کے گھر لے کر جاؤں گی۔ تھوڑے دنوں بعد لڑکی نے بھی یونی ورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا، اب ان کی باقاعدگی سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ مستقل ملتے رہنے سے ان کے درمیان لڑائیاں ہوئیں، اور دونوں نے راہیں الگ کر لیں۔

فطرت ہر شخص کی الگ انداز سے نمو کرتی ہے۔ عشق و محبت کی داستانیں صدیوں سے سنتے آئے ہیں عمر چودہ سال ہو یا ساٹھ سال، دماغ کسی کی محبت میں ایسا جکڑا جا تا ہے کہ پیارے رشتوں کا پیار دھندلا جا تا ہے۔ موجودہ دور ہو یا پچاس سال قبل کا دور، والدین کی مرضی سے چودہ، پندرہ، سولہ سالہ بچیوں کی شادی عام بات ہے۔

زمانے کے خوف نے دماغ بند کر دیا ہو تو والدین خاص طور پر اپنی بچیوں کو کسی لڑکے سے محبت میں گرفتار دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اگر انہیں اپنی بچی کی کسی نادانی کی سن گن مل جائے اور معاملہ ذات برادری اور فرقے کے تضاد کا ہو تو صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ بچی کو اسکول سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ اس پر ہر وقت کڑی نظروں کا پہرا رہتا ہے۔ ایسے میں محبوب کی چاہت دل ایسے گھر کیے رہتی ہے کہ گھر والوں کی بد سلوکی کسی خاطر میں نہیں رہتی۔ لیکن کہیں بھی محبوب سے اتفاقی ملاقات عشق کی دبی چنگاری کو ہوا دیتی ہے۔ اپنے پیارے دشمن نظر آتے ہیں۔ سب جائیں بھاڑ میں، بس محبوب کا ساتھ نصیب ہو جائے۔ بغاوت کا بیج تناور درخت بن جا تا ہے۔ بچی کی آنکھوں میں نفرت واضح ہو جاتی ہے۔ تب بے جا سختیاں، گھرکیاں، اٹھتے بیٹھتے طعنے تشنے، دھمکیاں، بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک کم عمر بچی اور اس کی نادان محبت کے آگے کیسی کیسی سازشوں کے جال بنے جاتے ہیں۔ لڑکی کو کسی رشتے دار کے پاس کسی دوسرے شہر یا ملک بھیج دیا جائے یا اس کی شادی کر دی جائے۔ اپنی برادری، فرقے میں کیسا بھی رشتہ ملے بس شادی کر دی جائے۔ کیسے والدین اپنی بچی کی نادانی پر اپنے ہاتھوں اس کا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں، کیا ایسی ہی نادانی پر یہ ہی سلوک وہ بیٹے کے ساتھ کر سکتے ہیں۔

وجہ یہ نہیں کہ ماں باپ بچی کے مستقبل کے اندیشوں سے خوف زدہ ہیں خوف ہے تو صرف ناک کٹنے کا، اندیشہ ہے تو دین کے خطرے کا، ڈر ہے تو اس بات کا کہ دوسری لڑکیوں کے رشتے نہیں آئیں گے، بوکھلاہٹ ہے کہ داماد کہیں ان کی شادی شدہ بیٹی کو طلاق نہ دے دے۔ اس قسم کے حالات میں لڑکی اپنے والدین سے متنفر ہو جاتی ہے، اپنے گھر والوں کے سلوک سے جی اوب جاتا ہے شادی کی سن گن پر وہ موقع ملتے ہی گھر سے بھاگ جاتی ہے۔

اب اس سب میں قصور وار کو تلاش کیا جا تا ہے۔ ماں نے تربیت ٹھیک نہیں کی۔ بچی کی سہیلیاں، اسکول کا ماحول، ٹی وی ڈرامے، موبائل، نیٹ، انڈین فلمیں مورد الزام ٹھہریں، مگر اندیشے اور نفرت حقیقت سے آنکھیں چرانے کو کا فی ہیں۔ خود کی کوتاہی، سامنے کی بات، معاملے کو حکمت عملی سے ہینڈل نہ کرنا۔

اتنے سارے اندیشوں نے بچی کو اس اس انتہائی اقدام پر مجبور کیا۔ آپ کی بچی ظاہر ہے بہت دیر خوش نہیں رہ سکے گی۔ آپ نے اسے لا وارث جو کر دیا ہے۔

ہونا کیا چاہیے، جب کبھی آپ کو اپنے بیٹے یا بیٹی کے کسی عشق کی سن گن ملے تو اسے اعتماد میں لیں، کہیں کہ آپ اس کے ساتھ ہیں۔ وقت آنے پر ان دونوں کو ضرور ایک کر دیا جائے گا۔ لیکن وہ اپنی پڑھائی اور مستقبل پر فوکس کریں۔ آپ بچی یا بچے کی ٹوہ میں نہ رہیں کہ وہ فون پر کس سے، کب اور کتنی دیر بات کر رہا یا کر رہی ہے۔ یہ عمر کا تقاضا ہے، جتنی بات چیت کریں گے اتنا ہی ایک دوسرے پر کھلیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ سمجھ پائیں گے کہ وہ ساری عمر ایک دوسرے کو برداشت کر سکتے ہیں یا نہیں۔ کھلے دماغ رکھنے والے والدین کے بچے متوازن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ لڑکی ہو یا لڑکا اپنے مستقبل کے تحفظ کو یقینی بنانا ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے شادی کے فیصلے کے باوجود کچھ خدشات کی بنا پر دونوں کی راہیں الگ ہو جاتی ہیں۔ اس میں بے حیائی کا کیا پہلو ہے۔ بے حیائی لڑکی کو قید کرنے اور اسکول سے گھر بٹھا لینے میں ہے۔ اس کو اپنے متشدد رویے سے گھر سے بھاگنے پر مجبور کرنے میں ہے۔ بے حیائی لڑکی کو بے آسرا کرنے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments