اپنے ہی ملک میں زباں نابلد


باقی کھلے حصے میں نہانے کا سینیٹری ویر تھا مگر شاور غائب۔ بالٹی کے تو کنارے باہر سے میلے تھے مگر اس میں رکھے نہانے کے چھوٹے ڈونگے کے کنارے اندر باہر سے نیم سیاہ تھے۔

میں پتلون پہنے تھا۔ کھڑے کھڑے مثانہ ہلکا کیا۔ دل بہت خراب تھا۔ باہر نکلا، خالی پانی سے ہاتھ دھوئے چونکہ گلابی رنگ کے صابن کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا، آئینے کے سامنے بنے لکڑی کے عمر رسیدہ دھرنے پر پڑا تھا۔ میں نے ہاتھ دھوتے دھوتے راشد سے کہا کہ نیا صابن اور ایک صاف تولیہ منگوا دو۔

چپل مانگ کے جوتے اتارے۔ کمرے میں جا کے شلوار قمیص پہنے۔ نکلا تو ایک نوجوان نیا صابن رکھ اور صاف چھوٹا تولیہ غسل خانے کے ساتھ گڑی کیل پہ ٹانگ چکا تھا۔ منہ ہاتھ دھویا اور کمرے میں جا کے زمین پر بچھے قالین پہ گاؤ تکیہ سے ٹیک لگا کے بیٹھ گیا۔

کچھ دیر کے لیے راشد گھر چلا گیا۔ اس کا چھوٹا بھائی باہر چارپائی پہ بیٹھا رہا تاکہ اگر مجھے کچھ چاہیے تو وہ لے آئے مگر مجھے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ دس، پندرہ منٹ بعد میں باہر نکل کے بیٹھ گیا کیونکہ موسم خوشگوار ہو چکا تھا۔ پھر اونچے دیوار کے پردے سے سرسبز پہاڑیاں بھی نظر آ رہی تھیں۔

راشد کے دو بھائی، ٹرے اوں میں افطاری کا سامان اور ساتھ ہی کھانا لا کے کمرے میں دستر خوان بچھا کے اس میں چننے لگے۔ راشد بھی پہنچ گیا۔ میں نے اس سے مناسب کموڈ نہ ہونے کا گلہ کیا۔ بس سر ایسا ہی ہے، اس نے کہا۔ اتنے میں کوئی مرد نمازی ٹوپی پہنے سیڑھیوں سے بلند ہوتا دکھائی دیا۔ میں نے راشد سے پوچھا، تمہارے والد ہیں۔ وہ جی کہہ کے کھڑا ہو گیا ساتھ ہی میں بھی بلند ہوا۔ جماعت اسلامی والوں کی سی داڑھی والے، شریف مرد دکھائی دیتے اس کے والد پہنچے بہت تپاک سے ملے اور مہمان پہنچنے کا، بہت مناسب الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔

افطار کے بعد میں نے نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ راشد کے ایک بھائی نے ایک جانب میرے لیے جا نماز بچھا دیا۔ دوسری جانب راشد کے والد امین خان صاحب ایڈووکیٹ کے لیے جانماز سیدھا کیا گیا۔ میں نے قصر پڑھی، انہوں نے پوری نماز ادا کی۔ کھانا کھایا۔ لڑکے دستر خوان سمیٹ لے گئے۔ راشد نے بتا دیا تھا کہ وہ نو بھائی ہیں۔ باقی بیٹوں کے بارے میں منکسرالمزاج اور شریف النفس امین صاحب نے بتایا۔ ہم بہت دیر باتیں کرتے رہے بلکہ میں امین صاحب کی باتیں سنتا رہا۔ وہ مجھے اپنے والد اور اپنی زندگی کی جدوجہد اور کامیابی کے بارے میں بتاتے رہے۔ میں اپنی دنیاوی مادی ناکامیوں کا کیا ذکر کرتا۔

پھر ہم دونوں کے لیے علاحدہ علاحدہ دور دور جا نماز بچھا دیے گئے اور ہم نے پورے چاند کی چاندنی اور خنک فضا میں عشاء کی نماز اور تراویح پڑھیں۔ میں نے قصر اور کم تراویح رکعتیں انہوں نے مکمل نماز اور بیس رکعت تراویح۔ ایک بار پھر امین صاحب سے گفتگو رہی کہ راشد نے توقف کا فائدہ اٹھا کر کہا۔ دن میں ہم نے کیا جانا، روزہ ہو گا۔ ابھی باچا صیب سے ملنے جاتے ہیں۔ میں نے ان سے بات کر لی ہے۔ ان کے والد نے بھی کہا کہ اچھا ہے ہو آؤ۔ انہوں نے مجھے بھی فون کیا تھا کہ آپ کے ہاں معزز مہمان پہنچ رہے ہیں۔

ہوا یوں تھا کہ بلال کوچ نام کی ویگن جب پشاور موٹر وے پہ چڑھی تو راشد نے ایک سیلفی بنائی جسے میں نے اس سے مانگ لیا اور ساتھ میں عنوان دے کے فیس بک پہ پوسٹ کر دیا، جس پہ ایک فیس بکی دوست سید کاشف باچہ نے لکھا کہ یہ تو آپ ہمارے شہر جا رہے ہیں چنانچہ آپ وہاں ہمارے گھر ضرور جائیے گا البتہ میں تعلیم کے سلسلے میں پشاور میں ہوں۔ یوں جانیں جیسے پیر بابا، بونیر اور پشاور میں آپ کے اپنے گھر ہیں اور آپ کا ایک اور بیٹا بھی۔

اتنے لگاؤ اور خلوص سے دی دعوت کو رد کرنا بعید از اخلاق ہوتا۔

باچہ یعنی بادشاہ جو پختون علاقوں میں سیدوں کا لقب ہے اور انتہائی قابل تکریم جانے جاتے ہیں، کے ایک فرد کی تصویر دیکھ کے راشد نے کہا کہ آپ ان سے زید کا نمبر مانگ لیں جو ان کے بڑے بھائی اور میرے دوست ہیں۔ ان کا اور ہمارا کنبہ آپس میں شیر و شکر ہے۔ میں نے جیسا کہا ویسا کیا، جواب میں عزیزی کاشف نے اپنے والد محترم کا فون نمبر لکھ بھیجا۔

راشد نے سوچا ہو گا کہ جب پہنچے گا تو فون پہ ملاقات بارے طے کر لے گا مگر پندرہ بیس منٹ بعد راشد کے فون کی گھنٹی بجی۔ راشد نے ہیلو کہا پھر مودب ہو کر پشتو میں جی جی کہتا رہا۔ گرچہ میں پشتو کا واحد لفظ خا ہی سمجھتا ہوں مگر مجھے اندازہ ہوا جیسے اس نے آخر میں بسروچشم کہا ہو۔ اس کے فون بند کرتے ہی میں نے پوچھا کیا کاشف کے والد کا فون تھا اور راشد نے دیکھیں کہہ کے حیرت سے آنکھیں پھیلائی تھیں۔

تو ہم باچہ صاحب کے ہاں، دو کلومیٹر دور پیدل جانے کو نکلے تھے۔ سڑک اور گاؤں کے درمیان ایک کافی چوڑے نالے کا پل تھا جس کے کنارے کی دیواروں پہ نوجوان بیٹھے گپ کر رہے تھے یا فون سیٹس میں کھبے تھے۔ بساند اس نالے سے آ رہی تھی جس میں پہاڑوں سے اترے بارش کے شفاف پانی کی بجائے گاؤں کی نالیوں سے آیا غلیظ پانی ٹھہرا ہوا متعفن ہو رہا تھا۔ میں نے ناک ڈھانپ لی تھی۔

آبادی کے پھیلاؤ اور انفراسٹرکچر کے یکسر فقدان کے سبب کراچی جیسے بڑے شہر کی امراء کی آبادی والے علاقے کلفٹن سے لے کر بونیر کے دو ہزار کی آبادی والے گاؤں پیر بابا بٹئی تک متعفن گندے پانی کے نالوں سے نہیں بچے ہوئے۔

ایک بار پھر مجھے اپنا وہی تھیسس یاد آیا جس کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں کہ جب تک ملک میں آبادیوں کی گندی نالیاں صاف نہیں ہوں گی تب تک لوگوں کے اذہان بھی مصفٰی نہیں ہوں گے اور مسموم رہیں گے۔ مگر اب ہم سڑک پہ چڑھ آئے تھے جہاں فضا صاف تھی۔

جب سے پاکستان آیا ہوں تب سے اب تک ماسوائے ایک ہفتہ اپنے ابائی گھر کے عقبی باغیچے میں طویل چہل قدمی کرنے کے میں نے مناسب ماحول نہ ملنے کے سبب اپنی سیر ترک کی ہوئی ہے، اوپر سے روزہ کھولتے ہی کھانا بھی کھایا ہوا تھا چنانچہ دو کلومیٹر چل کے ہی کچھ سانس پھولی ہوئی سی لگنے لگی تھی۔

ہم قصبہ پیر بابا پہنچ گئے تھے۔ تراویح کی نماز کے سبب ننانوے فیصد دکانیں بند تھیں۔ ہم سڑک سے مڑ کے ایک گلی میں چند قدم چلے پھر ایک ادھ کھلے دروازے کے سامنے کی سیڑھیاں چڑھ کے اندر پہنچے تو سامنے دس بارہ مرلے کا عرض کے غیر یکساں حصوں والا خالی صحن تھا۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب پانچ چھ قدم کے فاصلے پر ایک زینہ تھا جو چڑھ کے ہم اوپر پہنچے تو بالائی صحن کے سامنے وسیع برآمدے سے دو تین نوجوانوں نے بڑھ کر کے ہمارا استقبال کیا۔ برآمدے میں آمنے سامنے دو چارپائیاں بچھی تھیں جن پر مقامی روایت کے مطابق تکیے دھرے تھے۔ ایک بغیر تکیوں والی چارپائی ان دو چارپائیوں سے ذرا ہٹ کر بائیں جانب تھی۔ دائیں جانب دو کرسیاں دھری تھیں۔

برآمدے کے پار دو بڑے کمروں، جن کے روغن کیے بڑے بڑے دروازے کھلے تھے، میں سے دائیں جانب کے پہلے کمرے کی دیوار کی کھڑکی کے ساتھ بچھی چارپائی کے گاؤ تکیوں سے کمر ٹکائے اور پاؤں لٹکائے ایک وجیہہ اور بارعب شخص بیٹھے تھے جو تب کھڑے ہوئے جب ہم استقبال کرنے والے نوجوانوں سے ہاتھ ملا اور گلے لگنے کے بعد برآمدے میں پہنچے تھے۔ میں نے اور راشد نے یکے بعد دیگرے ان سے مصافحہ اور معانقہ کیا تھا۔ پھر ان کے اشارے اور دعوت پر ان کے سامنے بچھی چارپائی پہ ٹانگیں لٹکا کے بیٹھ گئے تھے۔

ظاہر ہے وہ کاشف کے والد محترم تھے اور نوجوان کاشف کے بڑے بھائی، جو تیسری چارپائی پہ بیٹھ گئے تھے۔ باچہ صاحب نے بیٹھتے ہی فرمایا کہ کاشف نے ہاہا کار مچا دی، ایک انتہائی معزز شخصیت مہمان ہو رہی ہے جن کی خاطر خواہ پذیرائی کی جائے۔ ان کے لہجے میں بے یقینی کی وہی للک تھی جو چھوٹے بیٹے کی بات میں مبالغہ آرائی بارے شک سے پیدا ہوا کرتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments