اپنے ہی ملک میں زباں نابلد


راشد گھوڑے پر سوار آیا تھا کہ چلیں۔ میں نے اسے کمرے سے باہر جانے کو کہا، کپڑے تبدیل کیے اور ہم نکل لیے۔ گلی سے نکل کر باہر ایک اور کار کھڑی تھی۔ راشد نے بتا دیا تھا کہ اسحاق مصروف ہے اس لیے اس نے کسی اور کو بھیج دیا ہے۔

سب سے پہلے ہم ”پیر بابا“ گئے۔ سید حبیب نام کے یہ بزرگ کوئی پونے چار سو سال پہلے افغانستان سے یہاں پہنچے تھے۔ ایک روز پہلے ہی ہمارے ایک پشتون عزیز نے فیس بک پر میرے بونیر میں پیر بابا جانے کا پڑھ کر ایک پشتو کا شعر لکھا تھا جس کا ترجمہ کچھ یوں تھا کہ پیر بابا پہنچنے کی راہ کٹھن اور پر مصائب ہے مگر میں اپنا پیار پانے کو وہاں ہر صورت پہنچوں گا اور ساتھ ہی بتایا تھا کہ لوگ اس مزار پر اپنی محبت پا لینے کی دعا مانگتے ہیں۔

ایسے سنگلاخ، روایات اور قدامت پسندی سے لتھڑے سماج میں محبت کا ہو جانا درحقیقت انسان کے اندر جگہ کیے بغاوت کا اخراج لگتا ہے۔

خیر ایک دروازے سے داخل ہوئے۔ سامنے پتھر کی بڑی مزین ٹائلوں سے سجا ایک وسیع و عریض صحن تھا جس کے آخر میں دو بلند میناروں اور گنبد والی مسجد کا ہال تھا۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب ایک کوٹھڑی میں جنگلے سے گھری بلند اور ضخیم قبر تھی۔ میں نے فاتحہ پڑھی۔ بدعت سے خائف رہ کر اللہ سے اپنے پیار کی مراجعت کی استدعا کی۔

طویل صحن عبور کر کے جس کا فرش خاصا تپ چکا تھا، مسجد کے چھتے ہوئے حصہ میں داخل ہوا اور ظہر کی قصر نماز پڑھ کر باہر صحن میں آ گیا۔ راشد بھی پیچھے پیچھے نکلا۔ سامنے ایک داڑھی والے جوان شخص کو دیکھتے ہوئے کہا کہ آئیں اپنے کلاس فیلو سے ملاؤں۔ بتایا کہ یہ پیر بابا کے نواسے اور میرے کلاس فیلو ہیں۔ مصافحہ اور معانقہ کے بعد نوجوان نواسا مسجد کے ہال کی جانب چل پڑا تھا۔

راشد نے کہا آئیں، پیر بابا کے مزار پر ہو آئیں۔ ایک جانب تپتی ہوئی طویل ہلکی چڑھائی والی راہ چل کے ایک ہال کا دروازہ آیا۔ ہال وال ٹو وال نفیس کارپٹ والا تھا جسے ایک قنات لگا کر دو حصوں میں بانٹا ہوا تھا۔ راشد نے بتایا کہ یہ دو حصے عورتوں اور مردوں کے لیے کیے گئے ہیں مگر پہلے ایسا نہیں تھا۔

بڑے حصے کے عین بیچ ایک مضبوط اور اونچے لوہے کے جنگلے، جس پر سبز روغن کیا گیا تھا کے اندر بہت اونچی اور بڑی سی قبر تھی قبر کے اوپر اور ارد گرد وہی مذہبی لوازمات یعنی چادریں پھول وغیرہ تھے جو ہر مزار میں پائے جاتے ہیں۔

مزار کے ایک جانب ایک سل پہ بزرگ کا نام اور دوسرے بڑے پھٹے پر شجرہ نصب لکھا ہوا تھا۔ میں نے راشد سے پوچھا یہ ہے پیر بابا کا مزار؟ اس نے کہا جی۔ تو وہ دروازے کے پاس کس کا مدفن تھا؟ ارے وہ؟ وہ پیر بابا کے نواسے کا تھا، راشد نے بتایا۔ اوہو میں نے تو پیار پانے کی دعا وہاں مانگ لی تھی۔ چلو یہاں بھی مانگ لیتا ہوں، میں نے کہا۔ قبر کی جانب رخ کر کے فاتحہ پڑھی مگر اپنی ناراض روسی اہلیہ نینا انتونووا سے پھر سے سلسلہ جنبانی جاری ہونے کی دعا کعبہ کی جانب منہ کر کے کی۔ آخر کو میں دیوبندی مسلک سے ہوں نا۔

مسجد کے صحن میں لوٹے تو راشد نے کہا کہ میں یہاں مسافر نہیں اس لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کے آتا ہوں۔ آپ انتظار کر لیں۔ میں مسجد کا تپتا ہوا فرش عبور کر کے، آخر میں ایک جانب بہت پھیلے ہوئے ربڑ کے درخت کی چھاؤں میں کھڑا ہو کے انتظار کرنے لگا۔ دیکھا تو کار کا ڈرائیور بھی وہیں کھڑا تھا۔ اس کا نام گوہر تھا جسے پشتو لہجے میں گاوہر بولتے تھے۔

وہ میرے ساتھ آ کھڑا ہوا۔ لوگ نماز پڑھنے کے بعد نکلنے لگے تھے۔ ایک طویل القامت کلین شیو، ادھیڑ عمر شخص ہلکے انگوری رنگ کے شلوار قمیض میں، ایک بچے کے ساتھ آتا ہوا گوہر سے ملا، مجھ سے بھی ہاتھ ملایا۔ دونوں نے پشتو میں بات کی۔ پھر وہ اردو میں، بہت خلوص کے ساتھ مجھے افطار پہ مدعو کرنے لگا۔ میں نے معذرت کی کہ میں راشد کا مہمان ہوں۔ گوہر نے بتایا یہ پیر بابا کے نواسے ہیں۔

پھر راشد کو آتا دیکھ کر میں اور گوہر اس دروازے کی جانب بڑھ گئے جس سے داخل ہوئے تھے۔ جوتے پہن کے باہر نکلے تو ایک بزرگ نے گوہر اور مجھ سے ہاتھ ملایا جس کے ساتھ گوہر ایک طرف کو ہو لیا۔ ایک بہت متشرع شکل اور گھنی بھنووں والے، صاف کپڑوں میں ملبوس بزرگ شخص ملے۔ گوہر ان سے جھک کے ملا۔ میں نے بھی ان کا احترام کیا۔ گوہر نے بتایا کہ یہ گدی نشین اور پیر بابا کے نواسے ہیں۔ کتنے نواسے ہیں، پوتے ہیں ہی نہیں، میں نے سوچا۔

وہ بزرگ ہمیں ایک جانب برآمدے میں دھری کرسیوں کی جانب لے گئے اور بیٹھنے کو کہا۔ ہم بیٹھ گئے۔ اتنے میں راشد بھی پہنچ گیا اور گدی نشین بزرگ سے جھک کے معانقہ کرنے کے بعد مصافحہ کیا جنہوں نے اسے بھی بیٹھنے کو کہا۔ راشد سامنے بیٹھ گیا۔

میں نے گدی نشین سے پوچھا آپ کے جد کہاں سے تشریف لائے تھے؟ بولے افغانستان سے۔ میں نے کہا نہیں یہ بتائیے کہ ان کے اجداد کا تعلق کہاں سے تھا کیونکہ سیدوں کی نسبت تو عرب سے ہے۔ موصوف کو معلوم نہیں تھا۔ ان کے ایک حواری دخل در معقولات کرنے لگے جو مجھے اچھا نہ لگا اور میں نے کہا کہ اپ کو معلوم ہے کہ سید عربی میں تعظیم کا صیغہ ہے۔ عرب میں ہندو اندرا گاندھی کو بھی سیدہ الاندرا گاندی بولتے تھے اور یہ کہ مورخ تو برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کا شجرہ بھی محمد ﷺ سے ملاتے ہیں۔

راشد نے جلدی سے اجازت طلب کی اور ہم دور کھڑی کار کی جانب بڑھنے لگے۔ راشد نے نگاہیں جھکا کے کہا، ”سر جی آپ میرے لیے الجھنیں پیدا نہ کریں“ ۔ میں نے حیران ہو کے استفسار کیا کہ کیا مطلب ہے تمہارا تو وہ مسکرا کے بولا آپ ان سے ایسے ایسے سوال کر رہے تھے جن کا جواب انہیں معلوم نہیں۔ میں بھی راشد کی الجھن جان کے ہنس دیا تھا۔

پیروں اور ان کے نواسوں سے فراغت کے بعد قادر نگر کے لیے نکلے تو میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ بھائی یہ پیروں اور باچاؤں کے نواسے ہی کیوں ہیں پوتے کیوں نہیں تو راشد نے جز بز ہو کے بتایا کہ پشتو میں انگریزی کی طرح نواسوں پوتوں کے لیے ایک ہی لفظ ہے اور لفظ پوتا غالباً پشتونوں کی زبانوں پہ چڑھ نہیں سکا ہے۔

پھر اس نے ایک جانب اشارہ کر کے بتایا کہ بلندی پہ جو دو گھر ہیں ان میں سے ایک پھوپھی کا ہے، دوسرا چچا کا اور ارد گرد اوپر نیچے کی کوئی تین ساڑھے تین سو کنال زمین ہماری ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ایک پہاڑ اپنا بھی ہے۔

پھر وہ بتانے لگا کہ جہاں ہم جا رہے ہیں اسے علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک سابق پرنسپل عبیداللہ درانی نے آباد کیا تھا۔ وہ خلافت کے قیام کے حق میں تھے۔ انہوں نے اطراف کے لوگوں کے بچوں کی تعلیم کا بیڑہ اٹھایا اور ساتھ ہی اردگرد کے لوگوں کو ہومیوپیتھک معالجہ مفت فراہم کرنا شروع کیا۔ پھر بیچ میں کہیں ان کے کسی مینیجر کا ذکر تھا جس نے درانی صاحب کے انتقال کے بعد ، کہ ان کے بچے غیر ممالک میں زیر تعلیم تھے، خوب پر پرزے نکالے، زمینیں اونے پونے اینٹھیں، لوگوں کو تنگ کیا، تھانہ کچہری میں ذلیل و رسوا کیا۔ اور پھر درانی صاحب کے بجے پڑھ کر لوٹ آئے جنہوں نے معاملات درست کیے۔ ان کے ایک فرزند جہانگیر درانی صاحب پشاور یونیورسٹی کے وی سی ہیں۔ ان کے ایک نواسے، یعنی پھر نواسا تعلیم اور معالجے کے تمام معاملات کا دھیان رکھتے ہیں۔

ان کی اولاد نے قادر نگر فاؤنڈیشن نام کی ایک این جی او بنا دی ہے جو کام کی پیشرفت کی ذمہ دار ہے۔ یہ سب اپنی جگہ مگر میرے لیے سطح سمندر سے تین ہزار چھ سو کچھ فٹ بلند اس مقام پر دنیا بھر سے بھانت بھانت کے پودے اور درخت لگا کر اگانے گئی بلند اور قائم درخت اور پودے باعث تعجب تھے۔ ان درختوں میں ساحلی مقامات پر اگنے والے پام کے درخت اور صحرا میں پنپنے والے تھوہر کے بوٹے بھی شامل ہیں۔ میدانی اور پہاڑی علاقوں کے درخت اور پودے تو ہیں ہی۔ مجھے یہ چیز باعث حیرت کے ساتھ خوشگوار بھی لگی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments