دعا اور نمرہ۔ ایک برائلر نسل


دعا اور نمرہ سوشل میڈیا پہ یوں چھائی ہوئی ہیں جیسے انہوں نے کچھ نیا کارنامہ انجام دے دیا ہے۔

اور ان سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے یہ وہی والدین کہہ رہے ہیں جو مائی ہیر کے اور مائی لیلی کے مزار پہ جا کر اپنی کبھی نہ ملنے والی محبت پانے کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔

دعا اور نمرہ کے والدین کا بیانیہ اور باڈی لینگویج ایک موسم کا پتا نہیں دے رہے تھے اور نہ ہی اب دے رہے ہیں۔ جب کہ دونوں بازیافت ہو چکی ہیں۔

کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں دو اسی عمر کے بچوں کا فوٹوشوٹ منظر عام پہ آیا تو بھی یہی گالم گلوچ رہی جو اب ہے یہی کہرام یہی طوفان تھا۔

یہ چند واقعات نہ صرف خطرے کی گھنٹی ہیں بلکہ یہ دعوت کلام ہیں کہ اب سنجیدہ ہو کر اس نسل کی بات سننی ہو گی۔ ہم اس نسل کو یہ کہہ کر رد نہیں کر سکتے کہ یہ بچے ہیں

یہ بچے بھی ہم سے اچھے ہیں جو اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں ہماری طرح جذبات چھپا چھپا کر گناہوں کے اور من کے دوزخ نہیں جلا رہے۔ ان سب کا یہ ردعمل ان کی بات نہ سننے کا غماز ہے یہ نسل غصہ ہے۔ ہو نا چاہیے۔

کیونکہ اس نسل کو اس نسل نے پروان چڑھایا ہے جن کو پہلی بار مکمل طور پہ علم ہو گیا تھا کہ بزرگ زحمت ہیں۔ اور اگر ہم نے اپنے بچوں کی کوئی بہت اعلی تربیت کر نا ہے تو اس زحمت سے ان کو الگ پالنا ہو گا۔

یوں اس نسل نے دو نسلوں کو تنہا کیا۔ کہاوت ہے خالی ذہن اور گھر شیطان کی جا ہوتی ہے۔

اور فطرت کا اصول ہے کچھ لینے سے پہلے دینے کا انتظام کر لیتا ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ بڑی سکرین چھوٹے ہوتے ہوتے ہاتھوں کی پوروں تک آ گئی۔ اور ان کو تنہائیوں کا ساتھی ہی نہیں ملا بلکہ ہوا کچھ یوں کہ ان کی وہ لغت بھی بدل گئی جو ہم نے بدلنا چاہتے تھے۔

ہوا یوں کہ اس ہوا میں ان بچوں کے جذبات ہی نہیں مچلے بلکہ ان بزرگوں کی دھوتیاں اور دوپٹے بھی اڑے جنہوں نے ان کو کہانیاں سنانی تھیں۔ سنانے والے اور سننے والی نسلوں کو تو سہارا مل گیا۔

لیکن یہ مصروف نسل جن کے بیانیے بدل رہے ہیں۔ یہ بھول گئے تھے کہ یہ وہ نسل ہے جو برائلر پہ پلی تھی۔ وہ چوزہ جو چند دن میں بالغ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو فارمی فصلوں پہ پلی ہے جہاں ششماہی دانہ چند ماہ میں بن جاتا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو ایک دو یومیہ سبزی پہ پلی ہے تو یہ کتنی جلد بالغ ہو جائے گی۔

اس وقت ان بچوں کے والدین دوہری پریشانی کا شکار ہیں۔ ان کو علم ہے بچے جلد بالغ ہو رہے ہیں۔ لیکن وہ اس کا جواز تلاش کر نا ہی نہیں چاہتے۔

ہم ان کو ابھی بھی گھنگرو، کوٹھا اور کاجل کا طعنہ دے رہے ہیں۔ جن کو ہم نے اس گالی کے مہذب متبادل دیے تھے تاکہ یہ گالی نہ رہے گویا یہ گالی ہم خود نکال کر خود سن رہے ہیں۔

اس نسل کے لفظ اور معنی بدل گئے ہیں لیکن فطرت اور اس کے تقاضے نہ کبھی بدلے ہیں نہ بدلیں گے۔ جس عمر میں یہ نسل جوان ہو رہی ہے اس کے مطابق یہ اپنے ضبط کی سات آٹھ سالہ عمر گزار چکے ہوئے ہیں۔ اب فطرت ان سے اپنا جائز حق مانگتی ہے۔ لیکن والدین سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔

ان کے پاس شادی یا محبت کے علاوہ کوئی رستہ بھی تو نہیں ہے۔ زمینی حقائق بدل رہے ہیں۔ ہمیں بدلنا ہو گا۔

ابھی تو یہ نسل اچھی ہے ہمیں شکر ادا کر نا چاہیے کہ اپنا فطری حق مانگ رہے ہیں۔ ان بچوں کو جنس مخالف میں ہی کشش محسوس ہو رہی ہے۔ ورنہ تبدیلی کی لہریں ہم جنسیت کی طرف اپنا پورا کاروبار پوری دنیا میں موڑ رہی ہیں۔

یہ نسل اچھی ہے شادی کی بات کر رہی ہے۔ ابھی یہ کسی آزاد محبت کے آزاد اور جائز اڈے کی بات نہیں کر رہے۔ ورنہ ان کی انگلیوں کی پوروں پہ تو آزادی لکھی جا چکی ہے۔

نمرہ کی والدہ کے بقول ان کی بیٹی نے ان سے اس لڑکے کے بارے میں بات کی تھی۔ دعا کسی رنگ اڑے چہرے والی ویڈیو میں ہی سہی، وہ خود کہہ رہی ہے کہ والدین مارتے تھے۔ تو لڑکی جبر اور قید سے ہی بھاگتی ہے۔ تین سال سے سکول بند ہے۔ محبت جہاں خود ذہنی تشدد سے کم نہیں وہاں جسمانی تشدد، جوان جسم و سوچ کو بغاوت ہی دے گا۔

اور اتنے فلسفوں کے بعد اوقات ہماری یہ ہے کہ لڑکے امیر اور حسین نہیں ہیں۔ فطری محبت فطرت کے دائروں میں ہی سفر کرتی ہیں۔ اندھے ہم ہوتے ہیں یا ہماری سوچ جو جابجا کسی نئے واقعے پہ ہماری مصنوعی آزادی کا راز فاش کر دیتی ہے۔ اندر سے ہم وہی دیسی بدبو دار نمو دار ہوتے ہیں۔

بات اتنی مختصر سی ہے۔
عزت، غیرت کسی کی نہیں لٹی، نہ ہی بیٹی کے پلو کے ساتھ
آپ کی عزت کا جہاز لنگر انداز ہے۔ اس سوچ کو بدل دینا ہی بہتر ہو گا۔

فطرت نے اپنا تقاضا کیا ہے جو مرد و عورت دونوں میں ہی یکساں جوان ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ برائلر نسل ہم سے قبول نہیں ہو رہی اس نے وقت کی رفتار کو ہماری پہنچ سے باہر کر دیا ہے۔

اور ہم ان کی رفتار کے ساتھ بھاگ نہیں پا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments